تاریکی اور ناامیدی کا نام سنتے ہی دستایوسکی کی طرف دھیان جاتا ہے، وہ طویل عرصے تک ان راہوں کا پتہ دیتے رہے جن کی خاک چھانتے ہوئے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے، ان کے نزدیک خدا پر یقین ہی وہ بنیاد ہے جس کے اوپر کسی بڑے مقصد کی تعمیر کی جا سکتی ہے، گناہ گار اور مجرم بھی چاہے تو ایک دن اس بڑے مقصد کو پہنچ سکتا ہے، اس کیلئے اسے پورے صبر کے ساتھ ہر کرب و درد سے گزرنا ہوگا جو موت تک بھی جاری رہ سکتے ہیں ۔ اپنے آخری ناول، برادرز کارامازوف ، میں وہ ایک ہیرو کو شیطان کے ساتھ ڈائیلاگ میں بھی لاتے ہیں ۔
آج دو صدیاں ہونے کو ہیں جب روسی ادب کے شہرہ آفاق ادیب فیودر میخائیلووچ دستایوسکی کا جنم ہوا، ایسے ادیب جن کے ادبی شاہکار آج تک زبان زدِ عام ہیں، ان پر فلمیں بن رہی ہے، ڈرامے بن رہے ہیں، کتابیں چھاپی جا رہی ہیں اور ادبی محفلوں میں ان کے نام کا حوالہ ہم اپنے ادبی ذوق کو جتلانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
1878ء تک دستایوسکی اپنے چار بڑے ناول دنیا کو متعارف کرا چکے تھے، لیکن مصنف خود اپنے اس کام سے زیادہ مطمئن نہ تھے کہ ان کی زندگی کے دو سب سے بڑے اور دیرینہ منصوبے ابھی شروع بھی نہ ہو پائے تھے، ایک ایتھیازم کی فکر کو ادبی طور پر قلم بند کرنا اور دوسرا ” ایک بڑے گناہگار کی داستان حیات” کے نام سے وہ اپنی تمام فکر کو ناول کی شکل میں کاغذ پہ اتارنا چاہتے تھے۔افسوس کہ وہ اپنے ان دونوں منصوبوں میں کامیاب نہ ہو پائے، انہیں زندگی بھر یہ فکر لاحق رہی کہ کیا وہ اس لائق بھی ہیں کہ زندگی ان پہ تلخ گزرے ؟ جی ہاں، زندگی کی تلخیوں کو وہ عظیم قلب و عقل کی امانت سمجھتے تھے اور شاکی رہتے کہ شاید وہ اس عظمت کے حامل نہیں جس حساب سے زندگی ان پر کرخت گزر رہی ہے۔
جوا، شراب ، قرض، مرگی کا مرض اور اس کے ساتھ سماج میں ناانصافی پہ کڑھنا، مقتدرہ سے ٹکرانا، گرفتاریاں، قید و بند، اور سب سے بڑھ کر موت کی سزا، جو بس انجام ہوا چاہتی تھی کہ آخری لمحے قاصد حکم نامے کے ساتھ حاضر ہوا کہ موت کی سزا معطل کر کے قید پر اکتفا کیا جاتا ہے، یہ وہ لمحہ تھا جب دستایوسکی کا چہرہ ڈھانپا جا چکا تھا اور وہ فائر سکؤاڈ کے سامنے کھڑے تھے، موت اب قید میں بدل گئی لیکن دستایوسکی کے دل و دماغ پہ جو قیامت گزری اس کے نقوش کبھی نہ مٹ سکے، اس حکم نامے کے بعد وہ پہلے والے شخص نہ رہے تھا، ان پر کیا بیتی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ۔ لیکن اس بات پہ وہ ہمیشہ ڈٹے رہے کہ تلخیوں کی مقدار ہی حق تک پہنچنے اور مقصد کے حصول میں مدد کرتی ہے۔ اپنا مقصد وہ جان چکے تھے کہ انہیں بس لکھنا ہے ۔
مارچ 1878ء میں فرانس کی ادبی کمیٹی نے انہیں روسی ادب کے علمبردار کے طور پر کانفرنس میں مدعو کیا، چونکہ کانفرنس ان کے پسندیدہ ناول نگار وکٹر ہیوگو کے نام سے تھی تو وہ ہر حال میں شامل ہونا چاہتے تھے ، اس وقت تک وہ قرضوں سے بھی نجات پا چکے تھے اور سفر سے پابندی ہٹا لی گئی تھی لیکن اپنی بگڑتی صحت اور بیٹے کی اچانک موت کی وجہ سے وہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے، لیکن اس دعوت نامے کی بدولت انہیں بڑی شہرت حاصل ہوئی، زار الیکزینڈر سوئم نے بھی ان سے ملاقات کی، اسی طرح اس وقت کے لارڈز اور کئی حکومتی عہدیدار بھی ان کی زیارت کا شوق رکھتے، اس شہرت اور مقتدرہ کے ساتھ تعلقات نے ان کے اندر موجود انقلابی کو اب ایک قدامت پسند میں بدل ڈالا۔ یہی وہ چیز تھی جس پر وہ مسلسل مغز ماری کرتے کہ ارتداد آخر کیونکر واقع ہوتا ہے، کیسے ایک انسان اپنے پرانے نظریات کو ترک کر کے نئے نظریات پالتا ہے، گناہ کی علت آخر کیا ہے، انسان ایمان کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتا ہے، کیا خالق کی محبت کو مخلوق سے جوڑا جا سکتا ہے، یہی وہ سوالات تھے جن پر وہ زندگی کے مختلف مراحل میں غور کرتے رہے۔
بالآخر وہ کسی تجربہ کار جاسوس کی طرح الجھنوں سے بھرپور ایک کہانی کو منکشف کرنا شروع کرتے ہیں، ایسی کہانی جس کے مرکزی کرداروں کے والد فیودر پاولووچ کارامازوف کا قتل ہو جاتا ہے، ایسا شخص جو اخلاقیات سے عاری ہے، بدکردار ہے اور اقارب کے ساتھ عدم توجہی برتتا ہے، اس کی موت پر اس کے لواحقین میں سے کوئی بھی غمگین نہیں۔
کہانی کے مرکزی کردار تین بھائی ہیں، دمیتری ، ایوان اور الیوشا(الیکسئی)، اور ان تینوں بھائیوں کے کردار و مزاج مصنف کی اپنی زندگی کے مختلف ادوار ہیں ۔ مصنف نے اسی اسلوب مطابق اپنی کربناک زندگی کے مختلف مراحل سے قاری کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔
پہلا کردار دمیتری کارامازوف دراصل مصنف کی جوانی کا پروٹوٹائپ ہے، اس میں وہ سال بھی شامل ہیں جو انہوں نے جیل میں گزارے۔ جیل ہی میں رہتے ہوئے فیودر پاولووچ کارامازوف کے قتل کی کہانی ایسے شخص کی حقیقی داستان سے کشید کی گئی ہے جو دستایوسکی کے ساتھ اس جیل میں موجود تھا، وہ شخص نوجوانی میں ہنس مکھ اور جذبات سے بھرپور تھا، زیادہ ذہین نہ تھا لیکن فطرت نے اس کے دل و دماغ کو خوبصورت تازگی سے ضرور نوازا تھا، جیل میں رہتے ہوئے اس کا ذہنی توازن قدرے بگڑ گیا تھا اور لوگ اسے مجنوں سمجھتے لیکن دستایوسکی کی ماہرانہ نگاہ نے اس کے اندر کی غیر معمولی گہرائی کو بھانپ لیا ۔ اس کا نام دمیتری لینسکی تھا، اسے باپ کے قتل کے جرم میں سزا ہوئی تھی، کوئی گواہ موجود نہ تھے، بس یہ کہ اس کے باپ کا کٹا ہوا سر صحن میں ملا، نتیجے میں اس کے بیٹے دمیتری لینسکی کو جیل ہوگئی ، بعض محققین کے مطابق کئی برس کے بعد دمیتری لینسکی کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا، لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، دمیتری لینسکی بس زندہ لاش بن چکا تھا۔
اسی دمیتری لینسکی کو مصنف نے دمیتری کارامازوف میں ڈھالا، دمیتری کارامازوف نے زندگی کو خود سیکھا کہ کسی نے اس کی پرورش نہ کی تھی، جذبات ،حواس خمسہ اور چھٹی حس ہی اس کے زندگی کو سمجھنے کے انسٹرومنٹس تھے، یہیں سے اس کے خاص شغف اور دوسری سرگرمیاں بھی جڑ پکڑتی ہیں، دستایوسکی خود بھی ان علتوں میں گرفتار رہے تھے، ان سے بہتر کوئی نہ جانتا تھا کہ جوا اور شراب جیسی عادتوں سے پیچھا چھڑانا کس قدر مشکل ہے۔ اسی کردار کو دستایوسکی اپنے ناول The gambler میں بھی پہلے دکھا چکے ہیں، ان کے تمام ناولوں میں یہ ان کی بائیو گرافی کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ بری علتوں کے علاوہ دمیتری کارامازوف نے مصنف سے غوروفکر کی ایک اچھی عادت ضرور پائی۔ دمیتری کارامازوف صرف پیشن کا آدمی نہیں، مصنف کی طرح وہ اپنی ان حرکات کا جائزہ بھی لیتا ہے، انہی اخلاقی اقدار پہ تولتا بھی ہے تاکہ وہ اپنے باپ جیسا بے حس نہ بن جائے۔ وہ گناہ کی اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے اور اپنے بھائی الیوشا سے یہ چیز ڈسکس بھی کرتا ہے، یہاں آکر مصنف نے گویا خود کو دمیتری کارامازوف میں ڈھال لیا کہ سرکردہ گناہوں کی کسی حد تک تلافی کرب و درد اپنانے سے کی جا سکتی ہے، اسی لئے باپ کے قتل کا الزام لگا تو اس نے کوئی صفائی بیان نہ کی، یہ سوچ کر کے شاید یہی سزا اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ثابت ہو۔
اس کے بالکل برعکس ہم اس ناول میں دوسرے بھائی ایوان کارامازوف کا کردار دیکھتے ہیں، جسے اعلیٰ تعلیم حاصل ہوئی، جو عقلیت پسند ہے، زندگی کو عملی نگاہ سے دیکھتا ہے اور دماغ میں ایتھیازم کی فکر پالتا ہے ۔ یہی حالت اور یہی فکر دستایوسکی پہ اس دور میں گزری جب وہ یوٹوپین سوشلزم پہ یقین رکھتے تھے، گویا کہ یہ ان کا دوسرا پروٹوٹائپ ہے بس ایک خاص وقت تک کیلئے ، ایوان کے تعارف میں مصنف نے دو مختلف الفاظ کو عجیب رنگ میں جوڑا ہے ” سکالر یا قاتل “, یہاں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے پرانے پراجیکٹ ایتھیازم کو یاد کر رہے ہیں اور جزوی طور پر ہی سہی لیکن اس کے حق میں اور خلاف مختلف بحثوں میں دلائل سامنے لاتے ہیں ، ایوان کارامازوف خیر اور شر کی جڑیں مذہب کے باہر ڈھونڈنا چاہتا ہے ، دنیا کا منطقی تجزیہ ایوان کیلئے اخلاقی ٹریجڈی کا باعث بنتا ہے، آئیڈیاز جن کا وہ پرچار کرتا تھا، اسی کو لے کر اس کے باپ کو قتل کر دیا جاتا ہے، یہاں ایوان کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے اور دستایوسکی کے فلسفہ میں انسان کی نفسیاتی کیفیت اس کی جسمانی کیفیت پہ اثرانداز ہوتی ہے، جیسے جرم وسزا میں رسکولنیکوف قتل کے بعد بخار اور ہزیان میں چلا جاتا ہے، یہاں ایوان کارامازوف ہزیان کی اس کیفیت میں چلا گیا کہ جہاں شیطان کے ساتھ اس کا سامنا ہوتا ہے، اسی چیز کو دستایوسکی پہلے اپنے ایک ناول the double میں بیان کر چکے ہیں، اگرچہ وہ اس ناول سے خود مطمئن نہ تھے لیکن اس آئیڈیا کے حصار سے جان نہ چھڑا پائے ، اسی کو لے کر یہاں وہ ایوان کارامازوف کا شیطان سے مکالمہ کراتے ہیں،
ایوان کارامازوف
” میں ایک لمحے کیلئے بھی تمہیں حقیقت نہیں مان سکتا، تم باطل ہو، میرا وہم ہو، بلکہ شاید میرا ہی عکس ہو، ”
شیطان۔۔۔
” تم مجھ پہ غصہ ہو، اس لئے کہ میں تمہارے سامنے کسی چمکتے روپ یا پھڑپھڑاتے پروں کے ساتھ ظاہر نہیں ہوا، بلکہ ایک عام سے آدمی کی طرح سامنے آیا ہوں، تم توہین محسوس کر رہے ہو کہ تمہارے جیسے عظیم اور پُر فکر آدمی کے سامنے یہ بیہودہ شیطان عام سے روپ میں آ گیا ہے “۔
یہاں مصنف ایک بار پھر شر کی فطرت پہ بحث کو واپس لائے ہیں جو اس سے پہلے وہ اپنے ناول The devil میں اٹھا چکے ہیں کہ شر جذبات کی بھرمار نہیں بلکہ جذبات سے مکمل خالی مظہر کا نام ہے۔ ایوان کارامازوف منطقی اور عقلی اپروچ کے ساتھ شر سے ٹکراتا ہے لیکن پھر ضمیر کی ملامت سے جان نہیں چھڑا پاتا کہ وہ جذبات کی اہمیت کا ہمیشہ انکاری رہا ۔دستایوسکی ایک دور میں سوشلزم کے حامی انقلابی تھے، عقلیت پسند تھے، انہی کی ان کاوشوں کے نتیجے میں ایک دہشتگرد جماعت وجود میں آئی اور اس جماعت کی کاروائیوں سے جو نقصان ہوا، دستایوسکی تمام عمر اس نقصان کا بوجھ اپنے ضمیر پہ محسوس کرتے رہے۔
(یہاں ضمنی طور پر ایک سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی کی پُرخلوص کاوشوں نے ہی طالبان و دیگر گروہوں کی راہ ہموار کی، ان سب کے پیچھے علمی فکر کے تانے بانے کہیں مولانا مودودی سے ہی جا ملتے ہیں )۔
ناول کا تیسرا اور اہم ترین کردار الیکسئی کارامازوف کا ہے جسے پیار سے الیوشا بلایا جاتا ہے، الیوشا دستایوسکی کی زندگی کے آخری دور کا پروٹوٹائپ ہے، اس کردار کو وہ پہلے بھی اپنے ایک ناول Idiot میں لارڈ میشکن کے روپ میں دکھا چکے تھے، لیکن عروج الیوشا کے کردار میں سامنے آیا، یہی دستایوسکی کا وہ روپ ہے جو ساری عمر کے دکھ اور تکلیف سہنے کے بعد سامنے آیا، الیوشا اپنی فطرت میں حق کا متلاشی ہے، تعصب اور جنون سے پاک ہے، خلوصِ دل سے سب انسانوں کی مدد کرنا چاہتا ہے، یہ کردار باقی تمام کرداروں کو اپنے گرد جوڑتا ہے اور مصنف کی فلسفیانہ فکر کو آشکار کرتا ہے، وہ فکر جو دستایوسکی نے معروف روسی فلاسفر ولادیمیر سلاویؤف سے سیکھی کہ ایمان کی کامل شکل یہ ہے کہ خدا پہ ایمان کا اظہار مخلوق پہ محبت نچھاور کرنے سے ہونا چاہیے وگرنہ ایمان کمزور ہے یا فقط دعویٰ ہے جو کہ باطل ہے۔
الیوشا اپنی معصوم اور پرخلوص فطرت کی وجہ سے پرکشش ہے، والد بھی باقی بچوں کی نسبت الیوشا سے زیادہ پیار کرتا ہے، الیوشا تمام انسانوں کی برابری چاہتا ہے، وہ کسی ذات پات کی بجائے ایک ہی ذات، انسانیت، پہ یقین رکھتا ہے۔
یہ ناول دستایوسکی نے نومبر 1880 ء کو مکمل کیا اور فروری 1881ء کو وہ انتقال کر گئے، یہاں ایک بڑا اہم نکتہ نظروں سے اوجھل ہے جس طرف کم توجہ دی گئی، دستایوسکی کے نزدیک حق اور سچ تک پہنچنے کا واحد راستہ کرب و درد ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ الیوشا حق تک تو پہنچ گیا ہے لیکن وہ کہیں بھی قابلِ ذکر کرب و درد سے نہیں گزرا، ایسا کیوں اور کیسے ممکن ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ الیوشا فی الحال صرف حق اور سچ کی خواہش رکھتا ہے اور وہ حقیقی طور پر اس منزل تک ابھی نہیں پہنچا ، دوسری طرف دستایوسکی کی زندگی کے سب سے بڑے منصوبے ” ایک بڑے گناہگار کی داستان حیات” کو بھی ذہن میں رکھئے، کیا یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ناول، برادارز کارامازوف ، ادھورا ہے، اس سے آگے دستایوسکی الیوشا کارامازوف کو لے کر گناہوں کی وادی سے گزارنے والے تھے، جہاں وہ یا تو کرب و غم کو کامیابی سے برداشت کرتے ہوئے حق کی آخری اور عملی تہہ تک پہنچتے، یا پھر ہمت ہارتے ہوئے گناہوں اور مشکلات کی دلدل میں غرق ہو جاتے؟
افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی، ورنہ ہمیں اس سوال کا جواب ان کے اگلے ناول میں ضرور ملتا جس میں وہ ممکنہ طور پر الیوشا کارامازوف کو لے کر انسانی فطرت کے نئے دروازے کھولتے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں