زندگی دھواں دھواں /جاوید ایاز خان

فضاۓ شہر بہت ہو گئی ہے آلودہ

ہوا کو چھان کے ڈالو تم اپنے سینے میں

ہر سال موسم سرما میں سموگ پہلے لاہو ر اور پھر اس کی لہریں پھیلتے ہوۓ پورے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ۔اور یہاں کی روزمرہ انسانی زندگی دھواں دھواں ہو کر رہ جاتی ہے ۔دھوئیں ،گرد اور دھند کی آمیزش کو سموگ کہا جاتا ہے ۔سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہتے ہیں جو انسانی آنکھ کی حد متاثر کرۓ۔سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے ۔یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہوتا ہے جو ہوا میں جم سا جاتاہے سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ ،نائٹرجن آکسائیڈ ،میتھین جیسے زیریلے مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے۔ اس مرتبہ لاہور دنیا بھر میں آلودگی اورسموگ کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آچکا ہے ۔ جہاں اس بارےٌ میں عوامی لاپرواہی اور بےحسی سامنے آتی ہے وہیں حکومتی بے بسی بھی صاف دکھائی دیتی ہے ۔جو ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کروڑوں لوگ کی صحت اور زندگی دشوار ہو چکی ہے ۔ان کا سانس لینا تک مشکل ہو چکا ہے ۔ سموگ بچوں اور بزرگوں کے لیے زہر قاتل ہے اور بچوں کی ذہنی نشو نما کو متاثر کرتا ہے ۔اس وقت پنجاب کا ایک کروڑ بچہ اس سے متاثر ہو چکا ہے ۔

گذشتہ ہفتے مجھے چھوٹے بھائی کی عیادت کے لیے اچانک اسلام آباد جانا پڑا ۔شدید ترین سموگ میں بہاولپور جو سموگ اور آلودگی میں لاہور سے بھی آگے نکل چکا ہے یہاں سے موٹر وۓ تک جانے کے لیے خانیوال انٹر چینج پہنچے تو گاڑیوں کی لائن لگی تھی پتہ چلا کہ بوجہ سموگ اور دھند موٹر وۓ تو رات سےہی بند ہے او ر صبح گیارے بجے کھولی جاسکے گی ۔لوگ اپنی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ اپنی فیملیوں کے ہمراہ ماسک لگاۓسٹرک پر کھڑے موٹر وۓ کھلنے کے منتظر تھے ۔سموگ کے بارۓ میں ہم سن تو بڑے دنوں سے رہے تھے مگر شاید اس کی شدت دیکھ پہلی ہی بار رہے تھے ۔ہر شخص اپنی اپنی راۓ دۓ رہا تھا کسی کا خیال تھا کہ یہ ہمارے اعمالوں کی باعث اللہ کی جانب سے عذاب ہے تو کوئی اسے بھارتی سازش قرار دے رہاتھا جبکہ کچھ لوگ وفاقی اور صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے کہ باوجود کئی سال سے جاری اس جان لیوا سموگ کے خاتمے اور سدباب پر توجہ نہیں دی گئی اور یہ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔کچھ لوگوں اسے عالمی موسمیاتی تبدیلوں سے جوڑ رہے تھے ۔چند لوگوں کا خیال تھا کہ یہ درختوں اور باغوں کی کٹائی کا کیا دھرا ہے ۔بہت سے لوگ اس کی وجہ گاڑیوں اور انڈسٹری کے دھوئیں کو قرار دۓ رہے تھے ۔دوسری جانب خواتین بچوں میں گلے کی خراش ،کھانسی ،سوزش ،بخار ،سانس میں دشواری اور نمونیے کی بڑھتی ہوئی بیماریوں سے پریشان نظر آرہی تھیں اور سموگ کو خاموش قاتل قرار دۓ کر اس سے بچاؤ کی تجاویز پر محو گفتگو تھیں ۔باتیں ان سب کی سچ اور درست تھیں لیکن حل کسی کے پاس نہ تھا ۔اگر موٹر وۓ نہ کھلتی تو یہ تبصرے ہوتے رہتے موٹر وۓ کھلتے ہی لوگ سب کچھ بھول بھال کر اپنے اپنے سفر پر دوڑ پڑے ٔ ۔اسلام آباد پر بھی یہ دھواں سموگ یا دھند کی صورت چھایا رہا ۔ موٹر وۓ کے کنارے کئی مقامات پر سموگ اور دھند کی باعث ایکسیدنٹ سے تباہ شدہ گاڑیاں بھی دیکھنے کو ملیں ۔اس دھوئیں اور دھند کی وجہ سے پوری نظام زندگی مفلوج نظر آیا ۔پورا سفر بےیقینی کی کیفیت میں گزرا ۔ہر شخص کے ذہن میں یہی ایک سوال ہے کہ آخر اس سموگ کی وجوہات کیا ہے ؟ اور وہ اسی الجھن میں گرفتار ہے کہ آخر اس کا سدباب کیوں ممکن نہیں ہو پارہا ہے ؟ کیوں کروڑوں لوگوں کی زندگی دھواں دھواں ہو چکی ہے ؟ سوال یہ بھی تھا کہ آخر کیوں بیماریوں میں اضافے کے باوجود اس کے خاتمے کے لیے کسی سطح پر بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے ؟ سموگ سے چھٹکارۓ کے لیے ہوا صاف کرنے کی مشین کی فراہمی اور مصنوعی بارش کی امیدیں بھی زیر بحث تھیں ۔

میں سوچ رہا تھا کہ ہم کس طرح بڑی آسانی سے ہر معاملے میں اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں پر ڈال دیتے ہیں ؟ اگر تھوڑا سا غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ سب نظام قدرت میں ہماری مداخلت اور ہماری عدم توجہی یا لاپرواہی کا نتیجہ ہے جس کی سزا ہم سموگ کی شکل میں بھگت رہے ہیں ۔ہمارا سموگ کی اس صورتحال تک پہنچنے میں انفرادی اور اجتماعی طور پر کس کا کتنا کتنا حصہ ہے ؟یہ بڑی دلچسپ اور دردناک بات ہے کہ سموگ پیدا کرنے میں کسانوں کی جانب سے فصلوں کی باقیات جلانےکا تقریبا” چار فیصد حصہ ہے جبکہ شہروں اور دیہاتوں میں کچرا جلانے کا بھی چار فیصدحصہ ہوتا ہے ۔گھریلو کچرا اور کمرشل کچرا جلانے کا تقریبا” ایک فیصد حصہ اور صنعتی سرگرمیوں کا نو فیصد حصہ ہوتا ہے جبکہ گاڑیوں کے دھوئیں کا تقریبا” بیاسی فیصد سے بھی زیادہ حصہ ہوتا ہے یہ وہ حصہ ہے جو سموگ پھیلانے میں نمائیاں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔جبکہ سموگ کی راہ میں روکاوٹ بننے والے درختوں اور باغات کی مسلسل کٹائی اور شہری آبادی میں اضافے کی باعث سموگ اور فضائی آلودگی میں بےپناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کی فصلوں خصوصا” چاول کی جڑوں اور منڈھوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں بھی سرحدوں کے ساتھ ساتھ علاقوں کا رخ کرتا ہے ۔اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں کا دھواں بھی دن رات اس میں شامل ہو رہا ہے ۔ذرا سوچیں آج سموگ کے جس چیلنج کا ہمیں سامنا ہے کیا اس کے ذمہ دار ہم خود نہیں ہیں ؟ اس سموگ کو پھیلانے میں کسی قدرت یا کسی ملک دشمن کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ اس اس زمین پر بسنے والے ہر ہر انفرادی انسان کا ہاتھ ہے ۔

سٹی ٹریفک پولیس کی ویب سائیٹ کے مطابق لاہور میں چار ملین سے زیادہ موٹرسائیکل اور چھ ملین سے زائد دوسری گاڑیاں ہیں۔ا ن کے علاوہ ٹریفک کے مختلف ذرائع میں استعمال ہونے والی گاڑیوں اور ٹرینوں کی ایک بڑی تعداد رواں دواں ہے ۔جو دن رات دھواں چھوڑ کرآلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں ۔ہمارے گھروں میں جلنے والا ایندھن اور کچر ا بھی فضا میں شامل ہو رہا ہے ۔جگہ جگہ ہمارے ہوٹل اور ریسٹورنٹ آگ اور دھواں پھیلا رہے ہیں اور ہماری روزمرہ زندگی کو دھواں دھواں کر رہے ہیں ۔ایک جانب کوئلے کا بےتحاشا استعمال ہماری فضاوں میں دھواں پھیلا رہا ہےتو دوسری جانب سگریٹ نوشی کی باعث دھوئیں کے کی لہریں ہماری فضا کو متاثر کرتی ہیں ۔

۲۰۱۵ ء کی ایک نیوز کے مطابق لاہور میں روزانہ پچیس لاکھ لیٹر پٹرول فروخت ہوتا ہے اور ایک لیٹر پٹرول گاڑی میں خرچ ہونے سے تقریبا دو کلو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ یہی کاربن ایمیشن فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس کو کم کرنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کرنا ہو گا اور اگر الیکڑک بائکس کو دوسری بائکس سے زیادہ سستا کیا جائے تو یہ چالیس لاکھ بائیکس کاربن پیدا کرنے والی فیکٹریوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ہر پاکستانی کے اندر ایک ڈاکٹر چھپا ہوتا ہے جو کسی کو مشورہ یا دوائی تجویذ کرنے کے لیے ہر وقت باہر آجاتا ہے ۔سموگ کے سلسلے میں ان سے محتاط رہیں اور صرف ان احتیاطی تجاویز پر عمل کریں جو سرکاری طور پر دی جارہی ہیں ۔ گاڑیوں اور موٹر سایکل کا استعمال کم سے کم کریں ،رات میں فوک لائٹس کا استعمال کریں ۔فیس ماسک استعمال کریں ، دمہ اور سانس کے مریض باہر نہ نکلیں ،آنکھوں کو بار بار مت مسلیں بہتر ہے کہ چشمہ استعمال کریں ،بار بار مناسب پانی پیتے رہیں ،آنکھوں میں لینز مت لگائیں ،ہاتھ اور منہ بار ببار دھوئیں ،اپنے کمروں کے دروازے اور کھڑیاں بند رکھیں ،سگریٹ نوشی سے مکمل اجتناب کریں اور سب سے اہم یہ ہے کہ بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں اور طویل اور لمبے سفر سے پرہیز کریں ۔درخت کاٹنے سے پرہیز کریں اور نئی شجر کاری کو اہمیت دیں ،کچرا جلانے سےگریز کریں ۔دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر مت لائیں ۔مجھے گلزار صاحب کی ایک نظم کے اشعار یاد آگئے ہیں جو سموگ اور فوگ سے بچنے کا ادبی نسخہ ہے ۔

بےوجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے

موت سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے

سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے

یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے

دل کو بہلانے کو گھر میں ہی وجہ کافی ہے

یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سموگ کا واحد اور فوری سدباب تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم سے ابر رحمت سے ہی ممکن ہے ۔دعا کریں کہ بارش کی بوندیں ہمارے سب کے لیےرحمت بن کر برسیں اور اس فضائی آلودگی اور سموگ سے نجات ممکن ہوسکے ۔ لیکن حکومت وقت کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ اس کےمکمل خاتمہ کے لیے فوری اور طویل مدتی پروگرام ترتیب دۓ تاکہ ہر سال اس ایذیت سے نہ گزرنا پڑے ٔ ۔ایسی قانون سازی کی جاۓ کہ سموگ کے تمام راستے بند کردیے جائیں یا پھر کم از کم انہیں محدود کردیا جاۓ ۔ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس سے محفوظ رہ سکیں اور اس کے لیے لوگوں کو آگاہی دینا سب سے اہم سمجھا جاتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply