۱۔ چوٹی کا راستہ روشنیوں،ایمبولینس پوسٹوں اور ریفرشمنٹ سٹالوں سے سجا جنگل میں منگل کا سا سماں پیش کرتا تھا۔
۲۔ مسلمان تنگ نظر،ضدی اور متعصب ہیں؟جیسے موضوع پر پٹوول شہر کی فیملی سے زور دار مکالمہ۔
۳۔ دنیا کے بیشتر مذاہب کی بہت سی چیزیں مشترکہ ہیں۔
بڑی میٹھی اور گہری نیند تھی۔جگانے کیلئے دستک بھی بڑی زور دار قسم کی تھی۔آنکھوں میں جھری سی پیدا ہوئی۔چوٹی پر جانے کا یاد آیا۔
“ہائے”کی ایک درد انگیز کراہ نکلی۔ روزے کے لیے سحری کے وقت اُٹھنے والی مجبوری اور بیزاری کی سی کیفیت تھی۔
‘‘سری پاڈے کو دفع کر و ۔اسے گولی مارو ’’ نیند نے جیسے سرگوشی کی۔
پر اسے ہرگز دفع نہیں کیا جا سکتا تھا اور نہ اسے گولی ماری جا سکتی تھی۔ اتنے پینڈے کی مارو ماری آخر کِس لئیے تھی؟
شراٹے مارتی آوائل فروری کی اس تیسرے پہر کی خوشگوار خنکی سے لبا لب بھری ہوا ئیں ڈھلانی پہاڑیوں پر اُگے چائے کے پودوں سے گتھم گتھا ہو کر آنے کا بھرپور تاثر دیتی تھیں۔ نیچے گھاٹیوں میں خوفناک گہرا اندھیرا تھا جہاں ہوائیں سیٹیاں بجاتی اور شور مچاتی تھیں۔
رات کے اس پہر بھی ہر عمر اور ہر سائز کے ہجوم عاشقاں کا سیل رواں تھا۔ نو عمر لڑکے لڑکیوں کی اٹھکھیلیوں اور چھوٹے بچوں کی اُچھل کود نے حرم کعبہ کی بہت سی یادوں کو تازہ کر دیا تھا۔بس کچھ فرق تھے جن میں متانت اور سنجیدگی سر فہرست تھی جو وہاں تھی اور یہاں نہیں۔
آدم پیک کا راستہ آغاز میں خاصا کشادہ ،کلیجی مائل سرخ بجری سے ڈھنپا اطراف میں جا بجا سٹالوں سے سجا پڑا نظر آیا تھا۔ رات کے گھور اندھیرے ارد گرد کے نظاروں کی باریکیوں کو دیکھنے اور سراہنے کی راہ میں حائل تھے۔ تاہم مصنوعی روشنیاں جہاں تک ممکن تھاراستے صاف کرتی تھیں۔نوجوان بُدھ بھکشووں کی زائرین کی طرف دلچسپی اور بھرپور توجہ متاثر کن تھی کہ اطراف میں لگائے گئے چھوٹے سے کیبنوں میں کھڑے وہ نوجوان لڑکیوں کی کلائیوں میں دھاگہ نما ڈوریاں باندھنے اور انہیں ہدایات دینے میں بڑے انہماک سے جُتے ہوئے تھے۔
مسلسل چلنے اور موڑوں کی چڑھائیوں سے ہم ہونکنے کی کیفیت میں تھے شاید اسی لیے چائے کے سٹال کے سامنے دھری کرسیوں پر ڈھے سے گئے۔ پر یہاں چائے نہیں کافی تھی۔ اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض کے لیے کافی خطرے کا سگنل ہے۔ پر تھوڑا سا تازہ دم ہونے، تھوڑی سی بشاشت اور بوڑھی ہڈیوں کو متحرک کرنے کے لیے چند گرم گھونٹوں کا اندر جانا بھی بہت ضروری تھا۔ سو ڈرتے ڈرتے آدھا کپ پیا۔
سٹال پر کھڑا خوش طبع اور تعلیم یافتہ لڑکا ‘‘غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دنیا’’ کی عملی تفسیر نظر آیا تھا کہ جونہی میں نے یہ جاننے کے لیے لب کھولے کہ حضرت آدم سے متعلقہ اس روایت کا کوئی تاریخی حوالہ بھی ہے یا یونہی ساری قصہ کہانی ہی ہے۔ اُس نے تو پل نہیں لگایا اور حوالوں کے ڈھیر لگا دئیے۔
پہلا تو اُن عرب تاجروں کا تھا جو یقینا بڑا معتبر بھی تھا کہ جب وہ پہلی صدی عیسوی میں سیلون (سری لنکا کا پرانا نام) آئے تو چوٹی سے نکلتے مختلف رنگوں کی بوچھاڑ نے نہ صرف انکی رہنمائی کی بلکہ انہیں یہ یقین دلایا کہ بابا آدم یہیں تو گرے تھے۔
دوسرا طاقتور حوالہ مارکوپولو، ابن بطوطہ اور مریگنولی کی تحریروں کا تھا۔ تیسری تفصیل اُس راہب کی تھی جو 1346 میں اوپر گیا اور جس نے واپس آکر یہ کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اوپر پہاڑ پر جا کر انہیں کوئی جنت یا کوئی ما ورائی چیز نظر آئے گی کیونکہ اس سے پہلے دنیا بھر میں یہی نظریہ کار فرما تھا سخت غلطی پر ہیں۔ہمارے آباؤ اجداد اب وہاں نہیں ہیں۔ ہاں اُن کی کچھ نشانیاں ضرور وہاں ہیں۔
ہم دونوں میں سے کسی کی کلائی پر رسٹ واچ نہیں تھی۔ سٹال پر گھڑی کی ٹک ٹک کچھ کہتی تھی کہ تمہارا پینڈا چوکھا بھی ہے اور کٹھن بھی۔ پو پھٹنے سے پہلے اوپر نہ پہنچیں تو سفر کھوٹا ہو جائے گا۔ تاریخ کی کتاب کو بند کردو اور راستہ ناپو۔پس تو ایم۔ پی سنا سنی کو خدا حافظ کہا۔
بڑھاپے کے عشق اکثر و بیشتر بڑے مہنگے پڑتے ہیں۔ سانس لوہار کی دھونکنی کی مانند پھولا پڑتا تھا۔ اوپر والے سے میری سرگوشی بڑی رازدارانہ تھی۔
‘‘سر میرا کلیجہ پھٹ کر سری پاڈے کے اس پہاڑ پر ہر گز ہرگز بکھرنا نہیں چاہیے۔’’
پسینے سے تر بتر پیشانی، پھولتے سانس، خشک ہونٹوں اور سانولی رنگت والی اس ناٹے قد کی عورت کو پیچھے سے آنے والے اُس حلیم طبع آدمی نے بہت ہمدردانہ نظر سے دیکھا تھا جو پورے خاندان کی لام ڈور کے ساتھ تیز اور پُر اعتماد قدموں سے چلتے ہوئے ہمارے ساتھ آن ملا تھا۔ ڈی ایس کرونا رتنا (Karunaratna) نے ہماری حالت کے پیش نظر یہ کہنا شاید ضروری سمجھا تھا۔
‘‘اطمینان سے چلیے ۔ اگلی دو میل کی عمودی چڑھائی تو آپکا پٹڑہ کر دے گی ۔’’
میرے جیسی دلیر پاکستانی عورت کے لیے تو یہ بات شرمندگی کا باعث تھی۔ جواب دینا بہت ضروری سمجھا تھا۔
میں نے اپنے ملک میں اس سے زیادہ اونچی اور خطرناک چڑھائیاں چڑھی ہیں مگر تب جب یہ آتش جوان تھا۔
وہ بھی مسکرایا میں بھی مسکرائی۔ بندہ بیبا اور دلچسپ لگا۔ سگریا کا رہائشی اور وہیں کالج میں فزکس کا اُستاد تھا۔ بدھ مسلک کا جان کر میں نے بدھ لوگوں کے اِس مقدس نشان کے بارے میں تاویل جاننی ضروری سمجھی۔ جواب کچھ ان الفاظ میں تھا کہ تیسری صدی قبل مسیح میں بدھ مت کے پیروکاروں نے اس نقش کو بدھا کا پاؤں ہی جانا۔ کیونکہ برصغیر کی قدیم تاریخ میں اسطرح کے نشانات صرف دیوتاؤں کے ہی تصور ہوتے تھے۔
ایک اور پڑاؤ آیا۔یہاں پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ چائے دستیاب ہے۔یہ کیسی رنگ رنگیلی مہم جوئی تھی۔ جگہ جگہ بکتی کھانے پینے کی اشیا۔ اعزازی رضاکاروں کے قائم کردہ فسٹ ایڈ اسٹیشن اور چائے کافی کے سٹال آپکو چند لمہوں کے لیے توانائی اور سرشاری و لطف کا احساس ضرور دیتے ہیں۔دائیں بائیں ہنستے مسکراتے چہرے یہی کام کررہے تھے۔جوانوں کی چہلیں کہیں تصویر کشی،کہیں باتوں کے سلسلے ۔
اب ایک اور بات بھی مشاہدے میں آئی جسکا شاید میں نے خیال نہیں کیا تھا کہ مردوں نے سروں پر سفید کپڑا پگڑی کے سے انداز میں لپیٹا ہوا تھا۔سفید لباس کو بھی اِس زیارت کیلئے بہت پسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔بیشتر مرد اسی پہناوے میں نظرآئے تھے۔تاہم استثنائی بھی موجود تھی۔
گورات تاریک تھی۔مگر آسمان پر چمکتے ستارے بہت روشن تھے۔چڑھائی کے دوران ذرا سا سانس کی درستی کیلئے رُکتے تو کہیں کہیں گھاٹیوں،کہیں پہاڑی ڈھلانوں پر کھلے پھول اور اُنکے رنگ شب دیجور میں جگنوؤں کی مانند جگمگاسے جاتے۔ ٹھنڈی اور جنگل کی خوشبوؤں سے لدی پھندی ہوائیں تازگی اور فرحت کا احساس بخشتیں۔
ٍ ان ہواؤں کے جھُلاروں میں ہم نے خود کو” کیا ٹائم ہے؟ اور کتنا باقی ہے؟” جیسے سوالوں اور جوابوں کی پریشانی سے آزاد کر لیا تھا کہ ساتھ چلنے والے بھی تو اسی مار دھاڑ میں لگے ہوئے تھے۔ ساتھ چلتے بوڑھوں اور جوانوں کو کم وبیش اپنی جیسی کیفیات میں مبتلا دیکھتے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہانپتے کانپتے راستہ طے ہونے لگا تھا۔
ذرا تھم اے راہرو کہ پھر مشکل مقام آیا۔
اور وہ مشکل مقام آپہنچا تھا۔
عمودی چڑھائی کا ٹوٹا افسانوی بیانات اور رنگوں سے قطعی کم نہ تھا۔ میرا سانس اور ٹانگیں تب بھی پھولتیں اگر اسکے پیچھے تازہ خون بھی ہوتا۔ تاہم اس ٹکڑے کو ممکنہ حد تک آرام دہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ سُرخ پتھر کی سیڑھیوں کو درمیان کی ریلنگ سے الگ کرتے ہوئے اُترنے اور چڑھنے والوں کو اطراف سے بھی سہارا فراہم کرنے کی کاوش بہترین تھی۔
کہیں بہت زیادہ کشادہ اور کہیں قدرے چوڑے راستے پر کھُلے ڈھلے انداز میں چلنے والے ٹولے اب سمٹ کر ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے تھے۔ یوں جیسے کوئی چوڑے پاٹ کا دریا کسی پہاڑی پیچ وخم میں آ کر سکڑ جائے۔
حکومت کی مسلسل توجہ نے اسے بہت روشن اور آرام دہ بنا دیا ہے۔ گزشتہ صدی کے نصف میں سفر کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ اس پر چڑھنا کتنا جان جوکھوں کا کام تھا۔
ہمارے ساتھ چلتے ہوئے ایک نوجوان لڑکے نے کہا تھا۔
1950 کے اوائل اور اس سے قبل حج بھی ایسی ہی صعوبتوں کا نام تھا۔ میری یاداشتوں میں اپنی نانی اور ماموں ابھرے تھے جو حج سے واپسی پر دنوں بیمار رہے۔ جن کے پاؤں صفا اور مروہ کے پتھروں پر سعی کرتے ہوئے زخمی ہو گئے تھے۔
صبح کاذب نے اُمید اور منزل کے قریب آنے کی نوید سنائی تھی۔ اور جب صبح صادق کا اُجالا مقدس عمارت اور ارد گرد کے خوبصورت مناظر کو آشکارہ کر رہا تھا۔ ہم چوٹی پر پہنچ چکے تھے۔ انسانوں کے اژدہام کے باوجود نظم و ضبط کمال کا تھا۔ دھکم پیل نہیں تھی۔میرے لئیے یہ بات خاصی تعجب انگیز تھی۔
مقدس عمارت کی طرف بڑھنے کی بجائے ہم دونوں ریلنگ کے ساتھ ایک جانب ہو کر سانسوں کی تیز رفتاری کو اعتدال پر لانے، سورج نے کس سمت سے برآمد ہونا ہے کا جائزہ لینے اور لوگوں کو سیڑھیوں کے پوڈوں پر ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھنے کے لیے رک گئیں۔
ذرا سا رُخ پھیرنے پر منظروں تو ایک جہان نظر آتا تھا۔ پہاڑوں کی چوٹیاں اور ڈھلانیں نیلگوں کہرے کی چادر اوڑھے لمبی مسافتوں کے بعد سستانے جیسی کیفیت کی عکاس تھیں۔ تاحد نظر پھیلے ہوئے ہرے کچور جنگلوں کا سلسلہ مختلف النوع پھول پودوں سے سجا اور چھوٹے بڑے جانوروں سے بھرا پڑا تھا۔ جنہیں صبح صادق نے نیند سے اٹھا کر متحرک کردیا تھا۔ ان جنگلوں کے پھول بوٹوں پر سے تیر کر آتی ہوائیں اپنے دامنوں میں چُرائی ہوئی خوشبوؤں سے مالامال رخساروں کو چھوتے ہوئے ناک میں داخل ہو کر جیسے سارے سریر کو سرشار سا کرتی تھیں۔ دھنک رنگوں والی ہزاروں تتلیاں سروں پر یہاں وہاں اُڑتی نظروں کو لُبھا رہی تھیں۔
صرف ہم ہی نہیں بلکہ وہ سب بھی جو پینڈا مارتے یہاں تک پہنچے تھے لوگوں کو کہنیاں مارے اور دھکے دئیے بغیر اُس قطعہ پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے جو طلوع آفتاب کے نظارے کے لیے مخصوص تھی۔
قطعہ غیر ملکیوں اور مقامی لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ چھوٹے بچوں کو بڑوں نے اُٹھا رکھا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے ان لمہوں میں وقت کی گردش رُک گئی ہے اور ارد گرد کا ماحول سنگی بُت بن گیا ہے۔ ہر آنکھ مشرق کی جانب اُٹھی ہوئی تھی۔ سچی بات ہے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے مشرق کا سینہ نظروں کے تیروں سے چھلنی چھلنی ہو جائے گا۔
اس بڑے سے قطعے کے اگلے حصے کو تین ساڑھے تین فٹ اونچی اور خاصی لمبی دیوار سے محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ دیوار میں جا بجا لگائے گئے بانسوں پر یقیناً منتوں مرادوں کے پھریرے جو موسم کی نرم گرم سختیوں سے بد رنگے اور بوسیدہ ہو چکے تھے ہوا کے جھونکوں سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے کچھ یاد دلا گئے تھے۔
کون جانتا ہے ان لیروں میں سے کتنی ایسی ہوں گی جنہیں دو دلوں چار ہاتھوں اور چار آنکھوں نے جانے کیسے کیسے خوابوں کے زیر اثر باندھا ہو گا۔ اور جانے کوئی زندگی اس شعر کی بھی تفسیر بن گئی ہو گی۔
ہسن کھیڈن نال لے گئیوں
سٹ گئیوں وچ فکراں
پاٹی لیر پرانی ونگوں
ٹنگ گئیوں وچ ککراں
ترجمہ: میرا ہنسنا کھیلنا تو سب تم اپنے ساتھ لے گئے ہو
فکروں میں مبتلا کرکے چھوڑ گئے ہو
کسی پھٹے پرانے کپڑے کی طرح
مجھے کیکر کے درخت پر ٹانگ گئے ہو
مجھے اپنی ٹانگیں منوں وزنی پتھروں کی لگ رہی تھیں۔ پر اُس سمے نہ تو میں پل بھر کے لیے سستانے اور نہ ہی نظروں کے زاویوں کو ادھر اُدھر کرنے کی روادار تھی کہ ڈر لگتا تھا کہیں ظالم وقت اُس شہزادی کی طرح ہمارے ساتھ ہاتھ نہ کر جائے جو ساری رات شہزادے کے جسم سے سوئیاں نکالتی رہی تھی۔ صبح دم پل بھر کے لیے اُٹھی اور اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھی۔
پھر چوٹی کے عقب میں روپہلی تلوار کی تیز چمک دار دھار جیسے منظر نے آنکھوں کے سامنے لشکارا مارا۔ گہرا نارنجی جیسے آگ کا شعلہ پہاڑ کی پیشانی پر لپکا۔ پہاڑ کا دامن دھند میں ملفوف اور پیشانی نیلگوں سبزے میں لپٹی ہوئی تھی۔ دوربہت دور اس پیشانی پر یہ آگ کا شعلہ ۔ نصف سورج کی روپہلی دھاریں چند بار مشرق کی پہنائیوں میں ڈوب ڈوب کر اُبھریں جیسے آسمان کے سینے پر آنے سے قبل مقدس نشان کو تعظیم دیتی ہوں۔
اچانک جیسے محو تماشا لوگوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ تیزی سے بے شمار سروں کے رُخ مغرب کی جانب مُڑے ۔برقی انداز میں ہم نے بھی گردنوں کو گھُمایا۔
‘‘میرے خدایا! کسقدر عجیب و غریب منظر مجسم ہوکر آنکھوں کے سامنے تھا۔
پہاڑ کا گہرا مخروطی سایہ عمودی ہو کر سر سبز زمین سے چوٹی تک پھیلا ہوا تھا۔ اور چند ساعتوں بعد غائب بھی ہو گیا۔ میرا سانس سینے میں کہیں اٹکا ہوا تھا۔ میرے وجود کی ساری حسیاّت اس جادوئی اظہار پر عجیب سی سنسناہٹ کا شکار تھیں۔
پھر جیسے کسی جذب کے عالم میں میں نے اوپر دیکھا۔ رعب حسن سے آنسو رخساروں پر بہہ گئے اور جیسے میں نے سر گوشی میں کہا ہو۔
‘‘اِس درجہ کمال کی فنکاریوں اور شعبدہ بازیوں کا اظہار تیرے علاوہ کون کرسکتا ہے۔یہ توفیق تجھے ہی نصیب ہے۔’’
فضا میں گھنٹیاں بج اٹھیں۔ سدھو سدھو۔ سدھو ۔ سینکڑوں کیا ہزاروں زائرین کی آوازیں اپنے اُس خدا کے حضور مقدس گیت گانے لگیں۔ جو تخلیق کائنات کے وقت سے ہر روز، ہر صبح، یہ معجزہ زمین کے باسیوں کو دکھاتا اور اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے۔
قدرے آرام دہ جگہ دیکھ کر ہم بیٹھ گئیں۔ اپنی ٹانگوں کو باری باری پسار کر انکی مُٹھی چاپی شروع کی۔ آدھ گھنٹہ کی اس مارو ماری سے پتھر کیطرح اُنکے اکڑاؤ میں قدرے نرمی پیدا ہوئی۔
پھر سری لنکا کے جنوب مشرقی ساحلوں کے شہر پٹوول(Pottuvil )کی سیام نکایا(بدھ مذہب میں اُونچی ذات) کا ایک خاندان ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ دو بچے اور دو بڑے۔ بڑوں کے چہروں پر چھائی گھٹا توے کی کالک جیسی گہری تھی۔ چھوٹوں پر سرسوں کے پھولوں جیسی آمیزش نے سیاہی کا ہاتھ ہولا کر دیا تھا۔ دونوں بچے اور انکی ماں ڈاکٹر تھے۔ باپ تاریخ میں پی ایچ ڈی تھا اور یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ Mr. T.B Galpothawela اُف کس قدر مشکل نام تھا۔ میں نے اُنکی طرف سے دئیے گئے کارڈ کو چند بار پڑھتے ہوئے سوچا۔
دفعتاً مرد نے بڑی متانت اور حلیمی سے کہا۔
‘‘پاکستان دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا حامل ملک ہے۔ آپ لوگ بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے بھی امین ہیں۔’’
پر جب بیٹا بولا تو مجھے یوں لگا جیسے کسی نے سڑاکے سے میری پشت پر چابک ماری ہو۔
‘‘مسلمان اتنے متعصب ، تنگ نظر اور ضدی کیوں ہیں ؟ طالبان نے بامیان میں ہمارے بُدھا کے مجسمے کے ساتھ کیا کیا۔ پوری دنیا چیخ اُٹھی۔ پر انہوں نے کسی کی سُنی؟ ’’
‘‘دنیا کی سُپر طاقتوں کے مفادات کی کشمکش نے اُنہیں بھوک، ناداری، معذوری، دربدری، بدامنی اور بیرونی و اندرونی جنگ کے تحفے دئیے۔اسوقت دُنیا کی آنکھیں بند تھیں جب انکے کٹے پھٹے اعظاء والے بچے بھوک اور دوائیوں کے لیے بلبلاتے تھے۔ پر جب انہوں نے مجسمے توڑنا شروع کیے تو دنیا کو تہذیبی ورثے کی تباہی نظر آگئی۔’’
شاید میرے لہجے میں تلخی تھی اور یقیناً چہرہ بھی سُرخ ہو گا۔ مرد نے فوراً‘‘ سوری’’ کہتے ہوئے مجھے خاموش کروا دیا اور خود بولنے لگا۔
‘‘میں متفق ہوں آپ سے۔ تاریخ میرا مضمون ہے اور میں نے اسکی مبادیات کا مطالعہ ہمیشہ غیر جانبداری سے کیا ہے۔ مسلمانوں نے غیر مسلم لوگوں کی مذہبی املاک کو نقصان پہنچانے کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ افغانستان مسلمان خلیفہ عمر کے زمانے میں فتح ہوا تھا۔ تب گوتم بدھ کے کسی مجسمے کو ہر گز نہیں چھیڑا گیا تھا اور کسی خانقاہ کو ہر گز نقصان نہیں
پہنچایا گیا۔ لیکن اسے بھی تسلیم کریں کہ مسلمان فطرتاً جنگجو اور تشدد پسند ہیں۔’’
‘‘اسوقت تو پوری دنیا میں مسلمان مظلوم ہیں۔ امریکہ عراق میں کیا کر رہا ہے۔ اسکا چھ ہزار سالہ علمی تاریخی اور تہذیبی ورثہ بھسم کر دیا گیا ۔ میوزیم اور لائبریریوں کو آگ لگا دی گئی۔اسکے پھول سے بچے کِس بربریت اور ظلم کا شکار ہوئے اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
آپ برطانوی صحافی رابرٹ فسک کی رپورٹ پڑھیں تو انسان کی آنکھوں سے آنسو نہیں خون ٹپکتا ہے۔ بدھا کے مجسمے پر واویلا کرنے والا امریکہ کتنا بڑا فراڈ ہے؟اسکے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے۔ اسکے کتنے چہرے ہیں؟
مجھے بھی یقیناً دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع ملا تھا۔
بڑی دلچسپ، بہت معلوماتی اورہنسوڑ قسم کی نشست تھی۔ لطف آیا۔ بقیہ پروگرام ہم نے انکے ساتھ نتھی کیا کہ علم دوست گھرانہ تھا۔ کچھ ہمارے ہاتھ پلے آ سکتا تھا۔
مقدس عمارت کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مہرالنساء بڑبڑائے بغیر نہ رہ سکی۔
‘‘ لگتا ہے یہ تو گٹے گوڈوں میں بیٹھ جائیں گی۔ ’’
دروازے کی کشادگی بس گزارہ تھی۔ خلقت زیادہ تھی۔ ابھی مقام شکر تھا کہ نظم و ضبط والے لوگوں کے درمیان تھے وگرنہ پاؤں کا کچلا جانا تو یقینی تھا۔ میں احاطے کی دیوار کے ساتھ ٹک گئی تھی کہ میرے سامنے مقدس جگہ تک پہنچنے کے لیے پھر سیڑھیاں تھیں۔ دیوار پہاڑی سٹائل اینٹوں سے بنی ہوئی تھی۔ ذرا سا سانس درست ہوا تو سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ پھر ٹرن آئی۔ سیڑھیوں کا رُخ بدلا۔ وقت کا تو پتہ نہیں پر ہجوم ضرور چیونٹی کی سی رفتار سے بڑھ رہا تھا۔ ماحول ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ اسی طرح کی زور آزمائی کروں کہنیاں ماروں، دھکے دوں اور وہ سب حربے آزماؤں جو میں نے حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے جائز کیے تھے اور نتیجے میں افریکن حبشنوں سے جواب بھی موصول کیے تھے۔
اب کھڑے ہیں اور بے قراری عروج پر ہے۔ بارے خدا تھوڑی سی جگہ ملی ۔ تانکا جھانکی نے تھوڑا سا منظر آشکارا کیا۔ چھوٹا سا حجرہ نما کمرہ، دا ہنی سمت لمبی سی کھڑکی ، خاکستری سلیب کے ساتھ پیلی جھالروں والا قدرے شوخ گلابی رنگ کا ریشمی غلاف جس پر کڑھائی سے پیر کڑھا ہوا تھا۔ لوگ جھکتے سلیب پر سر رکھتے ، غلاف کو چھوتے اور ہٹ جاتے۔
یہ تو سرا سر تشنگی والا کام تھا۔ کنوئیں پر پہنچ کر پیاسا رہنے والی بات تھی۔ اتنی تکلیف اتنا کشٹ ضائع کرنے والا معاملہ تھا جو بہر حال قبول نہیں تھا۔ جی داری سے میں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور آواز بلند کی۔
‘‘ بہت دور سے آئے ہیں اس غلاف کے نیچے جو کچھ ہے اسکا دیدار کروائیں وگرنہ سفر اور محنت ضائع ہو جا ئے گی۔ ’’
کیسری چادر میں لپٹا بدھ راہب ذرا فاصلے پر بیٹھا اُٹھا۔ سجدے کرنے کے عمل میں تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ لائن کی حرکت جامد ہو گئی اور بدھ مونک مجھے دیکھتا تھا کہ میں کیا کہتی ہوں کہ اس کے لئیے زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم والا معاملہ تھا۔
پھر شایدمسٹر ٹی۔بی ویلا کی تامل چلی یا سنہالی۔ مونک نے سمجھا ۔ پہاڑی اینٹوں سے بنی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر اُس نے دھیرے سے غلاف ہٹا دیا۔ ایک بڑے سے پیر کانشان جس کے گردا گرد ڈیڑھ دو انچ پتھر کے حاشیے نے اُسے نمایاں اور محفوظ کر رکھا تھا۔ گہرا خاکستری نقش۔ جیسے بارش سے گیلی زمین میں دھنسا ہوا کسی کے پاؤں کا نشان۔ لوگ دیوانہ وار جھکے ہاتھ پھیرنے، مٹی کے لمس سے انگلیوں کی پوروں کو مس کرنے اور انہیں ہونٹوں اور ماتھے پر لگانے کے لیے۔
باقی سب لوگوں کی طرح ویلا نے بھی وہی کچھ کیا تھا۔ اُس حجرہ نما دروازے کی چوکھٹ کے ایک طرف کھڑی جب میں اُس سے سُنتی تھی کہ زیارت کے موسم کے آغاز کی بہت سی رسومات میں سے ایک اہم اس مقدس نقش کا غسل بھی ہے۔ بدھ راہب کانسی کی گاگر میں عطر بیز پانیوں سے اسے دھوتے اور اس پر غلاف چڑھاتے ہیں۔
تب ایسے ہی یہ سوچ در آئی تھی ۔ دنیا کے مذاہب کی کتنی باتیں مشترک ہیں۔ اور انسان بھی کیسے کیسے اعتقادات میں جکڑے قلبی سکون اور اغراض کے لیے یہاں وہاں بھٹکتے
پھرتے ہیں ۔ اوپر والا تو یونہی محبتوں کے اظہار میں فیاضیوں کا دعویدار ہے۔ نیچے والے کتنے بے بس ،مجبور و محکوم، تیرے لکھے ہوئے کو بھوگتے ہوئے تیری یاد میں کرلاتے پھرتے ہیں ۔اور تو جب چاہے جس کی چاہے رسی دراز کر دے اور جسے چاہے نتھ ڈال دے اور جسے چاہے نواز دے۔ بڑے رنگ ہیں تیرے مولا۔
تبرکات کا کمرہ بدھا کی مورتیوں، رقص کرتی دیوتا کے حضور جُھکی گوپیوں اور سیمن دیوتا کی تصویروں سے سجا ہوا تھا۔ باہر خنکی تھی پر کمرے میں گھٹن تھی۔ سب سے خوبصورت ترین چیز وہ پنجرہ نما ڈبہ یا صندوقچہ قسم کی چیز تھی جس کے گردا گرد لگی سفید خوبصورت ڈیزائن دار جالی میں سے بُدھا کا متبرک آبنوسی جسمانی ڈھانچہ، بدھا کی یادگار اور سیمن دیوتا کا سفید صندل کا تقریباًایک فٹ اونچا مجسمہ فوراً توجہ کھینچتا تھا۔
ویلا سے ہی یہ جاننے کا موقع ملا تھا کہ زیارت کا موسم شروع ہونے سے ایک دن قبل باقاعدہ تقریب کی صورت میں اسے پورے مذہبی لوازمات کے ساتھ انتہائی ادب و احترام سے چیف مونک اسے چوٹی پر لاتا اور یہاں سجاتا ہے۔زیارتی سیزن کے اختتام پراسے سری پاڈا کے ٹمپل میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس مجسمے کے بارے میں روایت ہے کہ اسے شہنشاہ پراکرا نے بنوایاتھا۔
پتہ نہیں کمرے میں آکسیجن کم ہو گئی تھی یا میرے خون کی سرکولیشن کا سارا رُخ میرے سر کی طرف مڑ گیا تھا۔ گھبراہٹ سی طاری تھی جس نے تھوڑا سا خوف زدہ بھی کر دیا تھا۔ حیاتی کا بھلا کیا بھروسہ۔ اس سانس کی آؤنی جاؤنی پر ہی تو سب کچھ کھڑا ہے۔
چوٹی پر فی الوقع جنگل میں منگل والا محاورہ کسقدر سچا لگ رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی میں اس حصے میں آ کر کونے میں بنی سیڑھیوں کے پوڈوں میں سے ایک پر بیٹھی تھی۔ اُسکے داہنے ہاتھ سنگل راڈ کی ریلنگ سے جگہ کی حد بندی کی ہوئی تھی۔ سامنے بڑی پہاڑی کی اینٹ کی دیوار اور بائیں ہاتھ چپاتی کی طرح گول ایک بڑے سے پتھر پر لوہے کی تاروں سے گولائی میں بنا ہوا دائرہ نما جنگلا دھرا تھا جس میں اگر آگ کے شعلے لپکتے تھے تو کچے کوئلے سے اُٹھتا دھواں اور لوبان و اگر بتیوں کی خوشبو بھی سارے میں پھیلی تھی۔
سونا لٹاتی دھوپ میں نہاتے ہوئے یکسر خالی الذہن ہو کر دائرے میں کھڑے دھوتیوں اور پینٹوں میں جکڑے مردوں اور سکرٹوں کے نیچے ننگی آبنوسی ٹانگوں ،چہروں اور انکی حرکات کا مشاہدہ کرنا کس قدر دلچسپ شغل تھا۔ شعلوں کے جھلملاتے عکس کے پیچھے میں نے کچھ متحرک لب بھی دیکھے۔ شاید دعاؤں یا مناجاتوں کا ورد ہو رہا ہو۔
دفعتاً ایک بے حد سریلی چہکار کسی راکٹ کے چھوڑے ہوئے دھوئیں کی لمبی لکیر کی طرح میرے سر پر تنے آسمان کے سینے پر پھیلتی ہوئی کہیں دور جا رہی تھی۔ اس اجنبی آسمان پر blue bird کی مانوس سی چہکار نے مجھے نہال سا کر دیا۔
چند لمحوں تک میں مُنہ کھولے آسمان کو ہی تکتی رہی تھی۔ پھر نظروں کو نیچے ترائیوں میں لے گئی ۔ وہاں سے پلٹی تو مہر النساء کہہ رہی تھی۔
‘‘کیا گندی عادت ہے۔ بغیر بتائے بھاگی پھرتی ہو۔ ’’
اُسوقت انسانی زندگی کے ساتھ لپٹی ہوئی بے حد اہم ضرورتیں تنگ کر رہی تھیں۔پر میں ڈھیٹ بنی بیٹھی فطرت سے دل لُبھا رہی تھی۔ اُسکے پیدا کیے انسانوں کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ پھر پتہ نہیں کہاں سے یہ سوچ در آئی تھی۔
دنیاکتنے رنگا رنگ مذاہب کے گرد گھوم رہی ہے۔ لوگوں نے کیسے زندگیوں کو عقیدوں اور اعتقادات کی سانوں پر چڑھا رکھا ہے۔
مذاہب کے نام پر کیسی کیسی خوفناک لڑائیاں اور جنگ و جدل ہوئے۔ انسانوں
نے انسانوں کو کیسے کیسے تہ تیغ کیا اور کر رہے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگ کہیں نہ کہیں دوسرے مذہب والے لوگوں کو Paganism کا طعنہ مارنے اور انہیں مارنا مذہبی فریضہ سمجھتے رہے اورابھی بھی سمجھ رہے ہیں بلکہ ا س پر شدّد و مدّ سے عمل پیرا بھی ہیں۔
صلیبی جنگوں کے منظر، مسلمانوں میں مذہب بمقابلہ مذہب کے خوفناک سلسلے، یہودیت اور عیسائیت کے خون ریز معرکے، کمیونزم کی سفاکانہ تباہ کاریاں انسانیت کے نام پر وہ بد نما دھبے ہیں جن سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرتا۔ بے چارے سادہ لوح مسلمان تو اسی زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ اُنکا دین ہی خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
سچی بات ہے مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خدا کے نزدیک سبھی مذاہب بہترین ہیں۔ پسندیدہ ہیں اوراس کی منشا اِن سب کو قائم دائم رکھنے کی ہے۔
مولانا رومی جب یہ کہتے ہیں کہ اے مسلمانوں میں کیا کروں ۔ میں نہ ہندو ہوں نہ یہودی اور نہ ہی تمہاری طرح مسلمان۔ میں محبت کا عاشق ہوں میری محبت ہر عقیدے پر غالب ہے۔
مشہور ہندو فلسفی دیویکانند خدا کی عالمگیریت کا درس دیتا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم سب لوگ اپنے اپنے برتن لے کر کسی جھیل میں پانی بھرنے جاتے ہیں۔ کسی کے پاس لُٹیا ہے تو کسی کے پاس جگ ہے کسی کے پاس بالٹی ہے ۔جب ہم اپنے اپنے برتن بھر لیتے ہیں تو پانی قدرتی طور پر اسی برتن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح مذہب ہے۔ خدا بھی اسی پانی کی طرح ہے جو مختلف برتنوں میں بھر کر اسکی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن وہ ایک ہے۔ سکھ مذہب میں گورو گوبند کا بھی یہی درس ہے کہ خدا اسی طرح مندر میں موجود ہے جس طرح وہ مسجد میں موجود ہے۔
پھر میں اپنی ان بے تُکی سی سوچوں کو مہرالنساء کے سامنے اُگل بیٹھی۔ جس نے میری پُشت پر ایک زوردار جھانپڑ مارتے ہوئے کہا۔
‘‘بند کرو یہ بکواس۔ اُٹھو،وہ کام کرو جن کی اسوقت ضرورت ہے۔ ’’
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں