مارو یا مَرجاؤ/پروفیسر رفعت مظہر

بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کا نام گنیزبُک آف ورلڈریکارڈمیں آنا چاہیے۔ وجہ یہ کہ اُن کاسیاسی سفر (اگرہے تو) انتہائی عجیب وغریب ہے جس میںجلاؤ، گھیراؤ۔مارومَرجاؤ کے سوا کچھ نہیں۔ اکتوبر 2011ء سے اب تک اُن کاجلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کا ریکارڈ ایساجسے کوئی سیاسی لیڈر توڑنہیں سکتا۔ اُن کی ناکامیوں کی فہرست طویل۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد اُنہوںنے نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے سڑکوں کارُخ کیا۔ 14اگست 2014ء کووہ یہ کہتے ہوئے اسلام آبادفتح کرنے کے لیے نکلے کہ اُن کے ساتھ لاکھوں کامجمع ہوگا لیکن جب لاہورسے باہر نکلے توصرف تین چار ہزار ہمراہی ہی پیچھے تھے۔ وہ تواُن کے سیاسی کزن مولانا طاہرالقادری اپنے مریدین، اپنے سکولوں کے اساتذہ اور اُن کی فیملیزکو ساتھ لے کر اسلام آباد پہنچے توکچھ رونق ہوئی۔ اُس وقت کے DGISI جنرل ظہیرالاسلام نے اُنہیں یقین دلایا تھاکہ اگر وہ ایک لاکھ کاجلوس بھی لے کر آگئے توحکومت کوچلتا کیا جائے گالیکن وہاں تو دَس، بیس ہزارکا مجمع بھی نہیں تھا۔ مولانا طاہرالقادری کو توجلد ہی سمجھ آگئی اور وہ اپنے وطن کینیڈا لوٹ گئے لیکن نرگسیت کے شکار عمران خان 126روز تک ڈٹے رہے۔ اُس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ روزانہ شام کو ہزار، بارہ سو لڑکے لڑکیاں ہلاگُلا کرنے کے لیے آتے اوررات گئے گھروں کو لوٹ جاتے۔ 16دسمبر 2014ء کوسانحہ APS پشاور کابہانہ بناکر خان صاحب نے دھرنا ختم کردیا۔ گویا ’’صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔

اِس ناکامی کے بعدسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے اُنہیں تسلی دی جس میںاُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارکی اَشیرباد اور اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی بھی شامل تھی۔ 2017ء میں جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں قائم 5 رُکنی بنچ نے 3بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو پانامہ کیس میںچلتا کیا۔ یہ فیصلہ تاریخِ عدل کے ماتھے پرہمیشہ بدنماداغ کی صورت میں قائم رہے گا۔ پھر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ اور DGC جنرل فیض حمید کی کوششوں اور کاوشوں سے 2018ء کے عام انتخابات میں RTS بٹھاکر تحریکِ انصاف پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کاتاج پہنادیا لیکن اُسے قطعی اکثریت پھربھی حاصل نہ ہوسکی۔ تب چھوٹی سیاسی جماعتوں کوساتھ ملاکر عمران خان کے سَرپر وزارتِ عظمیٰ کاتاج سجادیا گیا۔ بقول جنرل قمرجاوید باجوہ اُنہیں 2020ء میںہی ادراک ہوگیا کہ اِس انتخاب میںوہ بہت بڑی غلطی کربیٹھے ہیں۔ 2021ء کے آخرمیں فوج نیوٹرل ہوئی اور عمران خان نے یہ کہنا شروع کیا ’’نیوٹرل توجانور ہوتا ہے‘‘۔ PDMنے مارچ 2022ء میں وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی۔ اِس سے بچنے کے لیے خان صاحب نے بہت زور مارااور 27مارچ کو ایچ نائن پارک اسلام
آباد میں کاغذکا ایک ٹکڑا لہراتے ہوئے کہا کہ اُن کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش ہورہی ہے لیکن چونکہ اُنہیں لانے والے دھتکار چکے تھے اوربقول صدرتحریکِ انصاف چودھری پرویزالٰہی گودسے اُتارچکے تھے اِس لیے بعداَزخرابیٔ بسیار 10اپریل کو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ تب جلسے جلوس، دھرنوں اور ریلیوں کاموسم ایک دفعہ پھر شروع ہوا۔ اُس وقت عمران خان کو ’’بندیالی کورٹ‘‘ اور جنرل فیض حمیدکی مکمل آشیرباد حاصل تھی۔ عمران خان چاہتے تھے کہ نہ توسیّد جنرل عاصم منیر چیف آف آرمی سٹاف بن سکیںاور نہ ہی قاضی فائزعیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان۔ اُنہوںنے 50دنوں میں 40جلسے کرتے ہوئے اعلان کیاکہ 25مئی کووہ 30لاکھ کا مجمع لے کر ڈی چوک اسلام آبادپر چڑھائی کریں گے لیکن جب وہ اسلام آباد پہنچے تواُن کے ساتھ بمشکل 5 ہزار کا مجمع تھا۔ اُن کی ناکامیوں کی داستان طویل جس میں وزیرآباد حملے کاڈرامہ بھی رچایا گیا اور بقول عمران خان سابق گورنرسندھ عمران اسماعیل کی شلوارسے 4گولیاں برآمد ہوئیں پھر سانحہ 9مئی ہواجو فوج کے خلاف بغاوت تھی اور شنید ہے کہ جنرل (ر) فیض حمیدنے سارے ٹارگٹس کا انتخاب کیا۔ فوج کے لگ بھگ 200 مقامات جن میں کورکمانڈر ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو راولپنڈی اور گجرانوالہ کینٹ بھی شامل تھے، وہاں شَرپسند حملہ آور ہوئے اور توڑپھوڑ کی۔ قصہ مختصر تمام تر ناکامیوں کے بعداب اڈیالہ جیل میںبیٹھے عمران خان نے 24نومبر کو اسلام آبادمیں Do or Dieکی آخری کال دے دی ہے۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ 10ویں آخری کال ہے پہلی ہرگز نہیں۔ اب دیکھتے ہیںکہ 24نومبر کو منصہ شہودسے کیا برآمد ہوتاہے۔ حقیقت یہ کہ تحریکِ انصاف کم ازکم 3واضح گروپس میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ کی نمائندگی وکلاء کے پاس ہے جبکہ دیگر 2سیاسی گروپ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان میں منقسم ہیں۔ عمران خانسے ملاقات کے بعد علیمہ خان نے 24نومبر کو ’’مارویا مَرجاؤ‘‘ کی کال دی جبکہ تحریکِ انصاف کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہرخان نے کہاکہ عمران خان اُن کا باس ہے اِس لیے اُس کاحکم سَرآنکھوں پر۔ ہمارے علم میں آج ہی اضافہ ہوا کہ جمہوریت میں بھی کوئی باس ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے آدھے سے زیادہ رہنما یہ سمجھتے ہیںکہ اِس وقت احتجاج کی کال سیاسی موت ہے کیونکہ لوگ توپہلے ہی باہر نکلنے کوتیار نہیں اوپرسے اسلام آبادکی شدید سردی، سموگ اور فوگ۔ شنیدہے کہ تحریکِ انصاف کے کچھ رَہنماء عمران خان کو یہ کال واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ہمیں یقین کہ عمران خان مانیں گے نہیں کیونکہ درحقیقت خاںصاحب کی مُرشد بشریٰ بیگم نے اِس دن کا انتخاب کیاہے اور بشریٰ بیگم کااعلان ہے کہ قومی اسمبلی کاہر رُکن 10ہزار اور صوبائی اسمبلی کاکم ازکم 5ہزار افراد ساتھ لے کر آئے۔ جو رکن اِس میں ناکام ہوایا گرفتار تواُسے تحریکِ انصاف سے نکال دیاجائے گا۔ احتجاج کی اِس کال میں 26ویں آئینی ترمیم کاخاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات کیے گئے ہیںاور ساتھ ہی اسدقیصر کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس کے ارکان علی محمدخان، سلمان اکرم راجہ، شاہ فرمان اور حلیم عادل شیخ ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کامطالبہ محض اِس لیے کیاگیا ہے کہ اُن کے محبوب جسٹس منصورعلی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان بن سکیں۔ تاریخ گواہ کہ آئین اور جمہوریت کوجتنا نقصان عمران خان کے دورِحکومت میں ہوا اُتناکسی بھی جمہوری دَورمیں نہیں ہوا۔ 9مئی کے ملزمان کی رہائی ناممکن اور مینڈیٹ کی واپسی محض دیوانے کاخواب۔ وہ 35پنکچر جیسے ’’سیاسی بیان‘‘ کادَور لَدچکا جب اسٹیبلشمنٹ نے خان صاحب کو گودمیں بٹھایا ہواتھا۔ اب ان شاء اللہ آئین وقانون کی حکمرانی ہی ہوگی کیونکہ ہرادارے کواپنی اپنی حدودوقیود کا ادراک ہوچکا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply