اس کا کہنا تھا “یسوع مسیح سیاہ فام تھے ،ان کی آنکھیں بھوری اور رنگت سفید نہیں تھی ، یہ سفید چمڑی والوں کا دیا گیا فریب ہے ،جسے انھوں نے سفید فام مسیح کی تصویر اپنے کلیساؤں کی دیواروں پر ٹانگ کر تمھارے ذہنوں میں پکا کیا ہے “۔
یہ الفاظ میلکم ایکس کے تھے ، میلکم ایکس جس کی تقریروں نے ایک زمانے میں امریکہ میں تھرتھلی مچا دی تھی ،جو نیشن آف اسلام جیسی تنظیم کا سب سے مقبول منسٹر تھا ، جب وہ بولتا تو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسا مقرر بھی گنگ رہ جاتا ، بوسٹن کی گلیوں کا گینگسٹر میلکم جیل میں قبول اسلام کے بعد میلکم ایکس بن جاتا ہے ، ایکس ریاضی میں نامعلوم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ،اس کا کہنا تھا کہ ہم افریقی نسل امریکہ کے ویرانے میں کھو گئے ہیں ، ہماری شناخت گم ہو گئی ہے ،ہمارے نام بھی دور غلامی کے گورے آقاؤں کے عطا کردہ ہیں ، ہم امریکہ میں نامعلوم ہیں ، اس لیے میں اپنے نام کے ساتھ ایکس لگاتا ہوں ۔
میلکم ایکس اپنی مشہور تقریر I charge a white man میں سیاہ فام امریکیوں کو مخاطب کر کے بہت دلچسپ جملہ کہتا ہے ۔
You are not Americans, you are the victim of America
افریقی امریکہ میں جاکر وکٹم آف امریکہ بنے اور برصغیر کے شودر مسلمان ہونے کے بعد وکٹم آف سید بن گئے ، ہم برصغیر کے مسلمان نسلی طور پر وکٹم آف سادات ہیں ، جو کبھی اپنے شجرے ترکستانی ،افغانی یا منگولی سے جوڑنے والے کو مائی باپ بنا لیتے ہیں تو کبھی کسی خود ساختہ سید زادے کے آگے اپنی شناخت سرینڈر کر دیتے ہیں،ان کے ہیرو راجہ پورس ،جے پال نہیں ہوتے ، ان کو فخر اس پر ہوتا ہے فلانا سپہ سالار فلاں درے سے گزر کر ہمیں لوٹنے آیا کرتا تھا ۔
آریاؤں نے آکر خود کو برہمن اور دراوڑوں کو شودر بنایا تھا ، اسلام کے آنے کے بعد دراڑوں کی جگہ کمی کمین اجلاف نے لے لی۔
یہ آپ کو بتاتے رہے کہ ہماری نسل ہی پاک ہے ، ہم پیغمبروں کی اولادیں ہیں ، ہمیں ہی پوجو ، تم ہمارے ساتھ گھل مل نہیں سکتے ،ہماری عورتوں سے شادی نہیں کر سکتے ،سید اور غیر سید کبھی برابر نہیں ہو سکتے ،یہاں کے مسلمان جو پہلے برہمنوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے اس کی جگہ خود ساختہ سیدوں کی شروع کر دی ،خود کو خادم سادات ، کنیز فلاں ، غلام فلاں ، سیدوں کا کتا ، ڈنگر نہ جانے کیا کیا کہا جانے لگا ۔۔۔
عبد الماجد دریابادی نے اپنی کتاب “آپ بیتی” میں اُتر پردیش کے مسلمانوں کے ہاں کا ذات پات کو بہت ہی بھیانک نقشہ کھینچا تھا ، وہ لکھتے ہیں۔
“نائی ،موچی ، لوہار ،بڑھئی وغیرہ سارے پیشہ ور کمینے قرار پائے تھے ،اونچی اور شریف ذاتیں صرف سیدوں تک محدود ہو کے رہ گئی تھیں ،خدمتی پیشے والے ( نائی ،منہار ،کنجڑے ،قصائی ) پرجا یا رعایا کہلاتے ،نہ ان کی کوئی عزت نہ ان کی عورتوں کی کوئی عصمت ، ان سب کے مقابلے میں ہم میاں لوگ فرعون بنے ہوئے تھے ،مجال ہو کہ میاں لوگ اپنی بیٹھکوں میں بیٹھے ہوں اور نیچ قوم کا کوئی لڑکا ان کے سامنے سائیکل پر سے گزر سکے ( آب بیتی صفحہ 24)
یہ تھے وہ وکٹم آف سیدازم جس کا کریہہ چہرہ عبد الماجد دریابادی نے اپنی کتاب میں پیش کیا تھا ، یہ حال صرف یو پی میں نہیں تھا پورے انڈیا میں جہاں مسلمان آبادیاں تھیں، وہاں ایسے لوگ اٹھتے رہے جو سید کے نام پر غیر سیدوں کو نسلی چونا لگاتے رہے ،میں یہاں سادات کی توہین نہیں کر رہا ، ان کی نسلی شنا خت چاہے وہ خودساختہ ہی کیوں نہ ہو میں اس کا احترام کرتا ہوں، مگر اس نسلی شناخت کی بنیاد پر کسی اور کو کمی کمین قرار دے کر اس کی توہین کا قائل نہیں ،میرے نزدیک ایک سید اور ترکھان دونوں برابر ہیں ،ایک بخاری اور ایک موچی دونوں کی انسانی حیثیت برابر ہے ، میں کسی کاظمی یا نقوی زادے کی عزت کا قائل اس لیے نہیں کہ اس کے پاس شجروں کا پورا تھان ہے جس کے مطابق وہ فلاں فلاں امام کی اولاد سے ہے ، نہ میں کسی جولاہے زادے کو حقیر صرف اس بات پر سمجھنے کا قائل ہوں کہ اس کا باپ کھاٹ بُنتا تھا ۔
اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ میں مساوات کا قائل ہوں ،مساوات صرف یوٹوپیا یا خطبہ حج میں ہی اچھی لگتی ہے ،حقیقی دنیا میں مساوات کی کوئی جگہ نہیں مگر عدم مساوات کی بھی کچھ اخلاقیات ہوا کرتی ہیں ، سید پرستی پر میری تنقید سے بھڑک کر ایک سید زادے نے مجھے کہا تھا کہ۔۔
“اعلیٰ نسل کو اعلیٰ جینز ہی اعلیٰ بناتے ہیں ، ذہانت ،خوبصورتی ،بہادری یہ سب جینز کی عطا کردہ ہوتی ہے ، کتوں اور گھوڑوں میں اعلیٰ اور کم نسل کا فرق ہوتا ہے تو پھر انسانوں میں یہ فرق کیونکر نہیں ہو سکتا ۔”
سُننے میں یہ دلیل جتنی مضبوط لگتی ہے اتنی ہی بودی ہے ،گھوڑے اور انسان میں فرق ہوتا ہے ، شاید عربی گھوڑا اور جرمن شیفرڈ اعلیٰ نسل ہوں جانوروں میں ،مگر انسانوں میں نسلیں بہادر نہیں ہوا کرتیں ، فرد بہادر ہوا کرتے ہیں ، نسلیں ذہین نہیں ہوا کرتیں ، فرد ذہین ہوا کرتے ہیں ،یہاں یو گنڈا کا حبشی ذہانت میں فرنچ زادے کو مات دے جاتا ہے ۔
یہ سائنٹفک ریسزم کے دلائل ہیں جنھیں سائنسی بنیادوں پر ہی رَد کیا جا چکا ہے ۔ آئی کیو اور ذہانت میں جینز سے زیادہ کردار ماحول اور نیوٹریشن کا ہوتا ہے ۔کالیونل دور میں گورے یورپیوں کو غیر یورپیوں پر قبضہ کرنے کےلئے اسی نسل سائنٹفک ریسزم کی ضرورت پڑی تھی ، سوشل ڈارون ازم اس ریسزم کی بیساکھی بنا ، ہٹلر بھی اسے ریسزم کا قائل تھا ،اس کا بھی یہی خیال ہم نازی جرمنی کے “سید” ہیں ،ہم ہی حکمرانی کرنے واسطے پیدا ہوئے ہیں ،اس سائنسی نسل پرستی کی ایک اور شکل eugenic کی تحریک ہے ۔
بہادر کے ساتھ بزدل راجپوت بھی ہوتے ہیں ،غیرت کا ٹھیکہ صرف پٹھانوں کے پاس نہیں ہے ، بہادری کا کوٹہ صرف کسی ترکمانی یا افغانی شجرہ بردار کے پاس نہیں ہے ، بزرگی کا پرمٹ صرف کسی سید زادے کے پاس نہیں ہے ۔
نہ ہی کسی جولاہے ،کسی موچی کے نسلی جینز کمزور تھے ، دنیا کے سو بڑے دماغوں میں سے کتنے اعلیٰ ذات کے تھے صرف یہ ڈیٹا نکال لیں ،اعلیٰ جینز والی تھیوری وہی ٹھس ہو جائے گی ۔
یہ برصغیر کے مسلمان انڈین سے زیادہ خود ساختہ افغانی ،عربی اور ترکی ہیں۔کیا یہاں کے باشندے مردانہ بانجھ پن کا شکار تھے جو وہ خود اپنی نسلیں بڑھا نہیں پائے اور افغانی ، عربی حملہ آوروں نے اسے سیدوں ،شیخوں ،انصاریوں ،قریشوں ،مغلوں کا گائنی وارڈ بنا کے رکھ دیا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں