سفرنامہ دہلی (1)- محمد ہاشم خان

کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے
۲۳ سال بعد اوراقِ مصور کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وا حسرتا! اتنا بڑا عرصہ کہ نسل نو آفریدہ جوان ہو جائے۔ جہانِ گزران کے یہ ماہ و سال کہاں صرف ہوئے، کہاں ہم رُلے کہاں رلائے گئے اور کہاں زندگی خاک بسر ہوئی، کہاں ہم محروم تمنا ہوئے اور کہاں وہ خوابشار ہوئی یہ کہانی کسی اور چوپال کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں تاآنکہ زندگی کے پنوں میں مڑا تڑا کوئی کردار چراغ آخر شب کی آہ کے ساتھ باہر نکل آئے۔ وہ شہر جو ہم نے دیکھا تھا۔۔جس کے بطن میں ہمارے کچھ خواب دفن تھے، مرنے والوں کی آخری حسرت کے خواب، جینے والوں کی آخری محبت کے خواب، وہ شہرِ خواب کُش بدل چکا تھا۔وہ نقشہ جو ہمارے ذہن میں نقش تھا کورا کاغذ بن چکا تھا۔ اگر کچھ ثابت و سالم تھا تو کسی مطربہ سے منسوب وہ تمام سوگوار یاد داشتیں ہیں جو دل پر سبز کائی کی صورت چپکی ہوئی ہیں، وہ قرمزی نگاہیں جو کبھی محو نہیں ہوئیں، وہ سامری سحر جو بس اب اک خیال سا ہے۔

دیہات و قصبات سے شہروں کی طرف مہاجرت کا انفجار دیکھیں کہ ان علاقوں میں جو غیر آباد تھے، ویران اور بالکل سنسان تھے، اب پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں بچی تھی اور یوں اوبڑ کھابڑ ترقی ہوئی کہ ہر علاقے، گلی اور محلے کی شکل بدل گئی۔ خیر! دو چار گلیاں بھٹکنے کے بعد وہ گلی تو مل گئی لیکن وہ کلی نہیں ملی، وہ غم، وہ دوست وہ رنج و ملال نہیں ملے کہ جن کے ہونے سے ہونا اچھا لگتا تھا، کون سی مصیبت لادے پھانے گھوم رہے ہیں بھول جاتے تھے، جہاں بیٹھ گئے وہی چوپال ہو گئی اور پھر جو ہو سو ہو۔نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی۔۔ ہم کون سا غم لے کر باہر نکلے تھے کچھ یاد نہیں،ایک قہقہے میں برسوں کی خوشیاں سمٹ آتی تھیں، اب خود ہی دیکھیے کہ یادوں کا پری خانہ کھنگال رہا ہوں اور خندہ بہ لب ہوں، یہ سوغات یونہی نہیں ملتی یہ عطا ہوتی ہے۔ وقتی طور پر ہی سہی دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوجاتے تھے۔

جب اس گلی میں داخل ہوا تو وہ غم کی ماری کسی بوڑھی بیسوا کی طرح تھکن کی گرد اوڑھے ویران، سنسان اور پریشان نظر آئی ۔سب کچھ بدل چکا تھا، مکان پہچان میں نہیں آیا۔حسرت و ملال کی دھول پہنے کچھ دیر کھڑا رہا، نہ تو وہ مَیں رہا تھا اور نہ ہی وہ گلی پہلے جیسی جانفزا رہ گئی تھی جس کے ہم آذر و یوسف ہوا کرتے تھے۔  جہاں ہم نے اپنے خواب و خیال کی آذری کی تھی یا جس نے کبھی ہماری خوش خرامی، ہماری سبک سری ، ہماری ستیزہ خیزی اور فسردگی، ہماری فاقہ مستی اور رائیگانی کے خمار اٹھائے تھے۔ جہاں ہماری معصومیت، ہمارا انوسینس، ہمارے جذبات اور اس سے وابستہ نزاکتیں گردش مدام کی نذر ہوئی تھیں ۔ وہ گلی اپنے واماندگان کے انتظار میں تھک کر نڈھال، بے جان اور کھردری ہوچکی تھی۔ کوئی رنگ نہیں بچا تھا، شناخت کا کوئی رنگ۔۔ کوئی نشانی نہیں بچی تھی، حسن شوریدگی کی وہ نشانی جو ہم نے چھوڑی تو نہیں تھی لیکن ذہنِ آشفتہ سر میں موجود ضرور تھی۔ اس کی وسعت سکڑ گئی تھی، جیسے کوئی آباد پگڈنڈی اپنے رہ نشینوں کی کثرت آمد و رفت سے یا برشگال کی قطرہ قطرہ ضرب سے یا اسامیوں کے کدال سے کٹ چھٹ کر مینڈ میں تبدیل ہوجائے اور بیک وقت دو لوگوں کا ایک ساتھ گزرنا محال ہوجائے۔ یہ گلی کٹ چھٹ کر ختم تو نہیں ہوئی لیکن میلی کچیلی، تنگ، بے رنگ اور بے نقش و نگار ضرور ہوچکی تھی یعنی کہ یہ گلی واقعی تھک چکی تھی۔ روز کے نامعلوم ہزاروں قدموں سے اپنے پامال کئے جانے پر نہیں کہ یہ اس کا مقدر نہیں تھا، بلکہ اپنے ان رفتگان کی یاد میں جنہیں کوئے ملامت کی ہر شے عزیز ہوتی ہے اور جو کوچہ گردی کا صدقہ اتارنا جانتے ہیں۔ احساس ہوا، کوئی کھڑکی کھلی ہے، اوٹ میں کوئی لالہ رخ بے چین، گھبرائی کھڑی ہے اور ساتھ ہی کوئی کرخت نسوانی آواز بھی آ رہی ہے۔

گردش وقت نے اسے کب خیال بنا دیا اور ہمیں خاک، یہ ذکر پھر کسی اور افسانے میں چھیڑیں گے۔ سردست بس اتنا سمجھ لیں
تجھے یہ سانحہ کھاتا رہے گا
مری کھڑکی کھلی ہے ،میں نہیں ہوں

اندر سے کوئی مری، دبی، گھٹی ہوئی آواز آئی۔ اے جہاں گزیدہ شخص! کھڑکی بند ہو گئی ہے، کسی اور خرابے کا رُخ کر۔ یہ جو تو اَب، برسوں بعد، گرد سفر کی رنجیدگی اتارنے آیا ہے تو جان لے کہ وہ سرمئی دریچے والے جا چکے ہیں۔ یہاں تیرا آنا بنتا نہیں تھا اور اب رکنا تو بالکل نہیں بنتا۔ میں اور یہ کوچہ دل زدگاں دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ کچھ دیر تک گلی میں ٹہلتا رہا کہ ابھی پیچھے سے ایک مانوس آواز آئے گی ’ہاشم بھائی! جاؤ باہر گھوم آؤ۔ افشاں (ایک خیالی نام) ملنے آ رہی ہیں، آدھے گھنٹے بعد آنا۔‘ لیکن کوئی آواز نہیں آئی۔ ایسی کتنی محبتیں سماجی تفاؤت کی کشمکش، وقت، حالات اور حادثات کی نذر ہوئی ہوں گی خدا معلوم۔

جب تک ان گلیوں کی خاک چھانتا رہا ان دنوں کے ہمارے دوست رہ رہ کر یاد آتے رہے۔ عقیل بھائی، صبغت اللہ بھائی، اشفاق بھائی عزیر وغیرہ جو ہماری آلائشِ رنج و غم اور غبارِ آلام و محن کے گواہ تھے۔ عجیب سے دن تھے بے فکری اور بے سروسامانی کے، پاس کچھ بھی نہیں سوائے چند کتابوں کے اور انہیں ہاتھ میں پکڑے ہونقوں کی طرح ایک دھن میں چلے جا رہے ہیں۔ کوئی منزل، نہ رخت نہ شوق سفر ۔ چہرے پر وحشت کی لہر اور محرومی کی مہر ہے، دماغ عضو معطل کی مکمل تشریح اور پورا وجود منتشرالخیالی کی چلتی پھرتی تعبیر ہے۔ یہ کون سی دھن تھی کہ مست رہتے تھے گرچہ فاقہ کش ہوتے تھے۔ کوئی بھی دھن رہی ہو اب واپس نہیں سنائی دے گی۔ اشفاق بھائی (اشفاق ابراہیم ندوی) اب مرحوم ہوچکے ہیں۔ اللہ رب العزت انہیں اپنی رحمت و عاطفت کے سایے میں رکھے آمین۔ عزیر لندن میں مقیم ہونا چاہتا تھا اور اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا۔آبائی گاؤں میں اس نے ایک بڑا اچھا سا اسکول قائم کیا ہے۔ حسب ضرورت ہندوستان آتا رہتا ہے لیکن ہنوز کبھی ملاقات نہیں ہو سکی۔صبغت اللہ بھائی کا کچھ پتہ نہیں۔ ان دونوں سے دہلی چھوڑنے کے بعد کبھی ملاقات نہیں ہو سکی۔ بس ایک عقیل بھائی رابطے میں ہیں۔ وہ کوٹا میں ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ان سے بات چیت ہوجایا کرتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ میں وہ مکان نہیں پہچان سکا جس نے ہماری جد و جہد کے بدترین ایام دیکھے تھے۔ آس پاس کے لوگوں سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں آنٹی سے مل کر انہیں بتانا چاہ رہا تھا کہ جب آپ نے پہلی بار نیاز کرایا ہوا قورمہ ہمیں بھیجا تھا تب ہماری فاقہ کشی کے دو دن مکمل ہوچکے تھے۔
جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے
کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے (غالب)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply