مولانا فضل الرحمان قیام پاکستان کے بعد سے لے کے چودہ اکتوبر انیس سو اسی میں اپنی وفات تک ملک کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے مولانا مفتی محمود کے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انھوں نے جماعت کی قیادت سنبھالی مگر اسی سال افغان جہاد اور جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کی حمایت کے مسئلے پہ جماعت اختلافات کا شکار ہو گئی اور دو گروپوں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان اور جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ میں تقسیم ہو گئی۔
مولانا سمیع الحق جو سویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکہ، ان کے اتحادیوں کی شروع کی گئی جہاد نامی مقدس جنگ (جس کو پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی) اور اس کے علاوہ ضیاء الحق کے مارشل لاء رجیم کے بھرپور حامی تھے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے اس نام نہاد جہاد اور ضیاء رجیم سے اپنے آپ کو فاصلے پہ رکھا۔ ابتدائی سالوں میں مولانا کافی حد تک اپنے والد کی سیاست سے مماثل تھے۔ لیکن بعد میں جوں جوں وقت گزرتا گیا مولانا کی سیاست ”معروضی حقائق“ سے ہم آہنگ ہوتی گئی۔
ضیاء الحق کی موت کے بعد بننے والی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں میں اکثر شریعت کے نفاذ کو جواز بنا کے شمولیت اختیار کی گئی۔ لیکن ان کی جماعت کا مختلف حکومتوں کا سالہا سال حصہ رہنے کے باوجود نہ شرعی احکام کے نفاذ میں کوئی پیش رفت نظر آئی اور نہ ان حکومتوں کی شاہ خرچیوں میں کوئی کمی۔ بلکہ الٹا جمعیت کے وزراء کرپشن کی اس بہتی گنگا میں دوسروں سے بھی زیادہ ہاتھ دھونے لگے۔ ضیاء کی گیارہ سالہ طویل مار شل لاء کے خاتمے کے بعد بننے والی بینظیر کی پہلی مرکزی حکومت کی تو عورت کی حکمرانی کے نام پہ مخالفت کی گئی لیکن بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی نیشنل الائنس کے ساتھ مل کے حکومت قائم کی گئی حالانکہ جمعیت کی اسمبلی میں بطور اکثریتی جماعت چودہ اور نیشنل الائنس کی سات نشستیں تھیں پھر بھی وزارت اعلی نیشنل الائنس کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی کو تھما دی گئی۔
اس مخلوط حکومت کے لئے شراب اور موسیقی پہ پابندی اور سینماؤں کی بندش جیسے شرعی احکام کے نفاذ والے معاہدے کو جواز بنایا گیا۔ لیکن یہ اتحاد ڈیڑھ سال بعد اسمبلیوں کی تحلیل کی شکل میں اختتام کو پہنچا۔ عورت کی حکمرانی کی مخالفت کے باوجود مولانا صاحب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت ( 1996۔ 1993 ) میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے جو وزیر اعظم کی ہی زیر صدارت کام کرنے والی کمیٹی تھی۔ امریکہ کی طالبان حکومت کے خاتمے میں ساتھ دینے پہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف جمعیت علماء اسلام کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل نامی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو 2002 کے الیکشن میں عوام میں زبردست پذیرائی ملی۔
اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے ق لیگ کے ساتھ کیے گئے ایک تمسخر آمیز معاہدے کے ذریعے جس طرح جنرل مشرف کو یونیفارم میں صدر پاکستان منتخب کروایا وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے۔ ان کی جماعت نے بلوچستان میں جنرل مشرف کی حمایت یافتہ ق لیگ کے ساتھ مل کے صوبائی حکومت میں ایک نام نہاد شرعی بل کے مسودے کو بنیاد بنا کے وزارتوں کی بندر بانٹ کی مگر اس بل اگلے پانچ سال ایم ایم اے کی حکومت میں رہنے کے باوجود نہ کوئی پیش رفت ہوئی نہ کبھی جمعیت کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے ق لیگ کی قیادت کا مواخذہ کیا اور نہ وزارتیں چھوڑیں۔
2007 کے آخر میں جب جنرل پرویز مشرف اسی اسمبلی سے جس کی مدت ختم ہونے کے کچھ دن باقی تھے دوبارہ باوردی صدر بننے کی کوشش کی تو جنرل مشرف کو اس ارادے سے روکنے کے لئے حزب اختلاف کے اتحاد نے خیبر پختونخوا کی اسمبلی (جہاں مولانا کی قیادت والی مجلس عمل کے وزیر اعلیٰ تھے ) کو اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے صرف ایک دن پہلے تحلیل کرنے کی تجویز دی تاکہ وفاق کی ایک اکائی کی نامکمل ہونے کی صورت میں جنرل مشرف کے باوردی صدر منتخب ہونے کے غیر آئینی اقدام کا آئینی طور پہ راستہ روکا جا سکے۔
مولانا نے صرف ایک دن کی مدت والی اپنے صوبے کی حکومت کی اسمبلی کو تحلیل کرنے سے صاف انکار کیا اور اس طرح جنرل مشرف کی باوردی صدر منتخب ہونے کی راہ کو جان بوجھ کے استوار کیا گیا۔ الیکشن 2008 کے بعد ایک دفعہ پھر نام نہاد شرائط پہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں شمولیت اختیار کی گئی۔ مرکزی حکومت سے تین سال بعد اپنے وزیر سے وزارت چھن جانے کے جھگڑے پہ علیحدگی اختیار کی گئی مگر صوبائی حکومت میں پورے پانچ سال گزار دیے گئے۔
شریعت اور شرعی احکام کے عدم نفاذ پہ تو کبھی نہ کسی حکومت سے ناراضگی اختیار کی گئی اور نہ یہ مسئلہ کبھی ان کی کسی حکومت سے علیحدگی کا باعث بنا۔ اس سے ان کی جماعت اور قیادت کا شریعت کے ساتھ اخلاص کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 2013 کے الیکشن میں عمران خان کی تحریک انصاف نے جس طرح کی غیر معمولی کارکردگی دکھائی، جمعیت اور اے این پی کا خیبر پختونخوا سے صفایا کیا اور وہاں صوبائی حکومت قائم کی۔ اس چیز نے مولانا فضل الرحمان کو عمران خان کا سخت مخالف بنا دیا اور وہ اس کو یہودی ایجنٹ کے نام سے پکارنے لگے اور وہ اس کے لئے اس کے سابقہ سسر گولڈ اسمتھ جو ایک یہودی تھے کو بطور مثال پیش کرنے لگے۔
2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی ملک بھر میں کامیابی کو تو مولانا نے گویا ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا اور موصوف کی عمران نیازی کی مخالفت انتہاؤں کو چھونے لگی۔ عمران حکومت کے اقتدار میں آنے کے صرف چودہ ماہ بعد اسلام آباد میں دھرنا دیا اور اس وقت تک اٹھنے سے انکار کیا جب تک پی ٹی آئی کی حکومت مستعفی نہیں ہوتی۔ مگر اسٹیبلشمنٹ سے لے دے کی بنیاد پہ کچھ دنوں بعد ہی دھرنے کو بغیر کوئی مقصد حاصل کیے لپیٹنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی، نون لیگ اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں پہ مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے صدر بنائے گئے عمران نیازی کی حکومت کے خاتمے تک اس اتحاد کے سربراہ رہے۔ 2024 کے دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی پی ایم ایل (این) اور پی پی پی کی حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو حزب اختلاف کے زمانے میں ان کی خدمات کے باوجود جس طرح ملک کی صدارت اور وزارتوں کی تقسیم میں نظر انداز کیا اس نے مولانا کو پھر مجبور کیا کہ وہ اپنا پینترا بدلتے ہوئے انتخابات کے بد ترین دھاندلی زدہ ہونے کا علم بلند کریں۔
حتی کہ عمران نیازی کے ساتھ اس تازہ قربت میں مولانا اس پہ ماضی میں لگائے گئے یہودی اور مغربی ایجنٹ جیسے تمام الزامات سے بھی کافی حد تک منحرف ہو گئے۔ لیکن حال ہی میں بقول مولانا اس دھاندلی زدہ حکومت کی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پہ لائی گئی چھبیسویں ترمیم کی مہینوں تک مخالفت کرنے کے باوجود موصوف آخری وقت میں جس طرح معمولی ترمیمات کے ساتھ واپس اس متنازعہ ترین بل کی حمایت میں سامنے آئے اس نے عوام کی نظروں میں مولانا کے بزعم خود اصولی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔
مولانا نے حالیہ انتخابات کے دھاندلی زدہ ہونے کے حوالے سے جو اصولی موقف اپنایا اس نے اس کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو عوام کی نظروں میں تھوڑا بہت بحال کیا تھا وہ اس بل کی حمایت کے بعد واپس عدم مقبولیت کی آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔ اس سب کے باوجود آج بھی دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء اور عام لوگوں میں ان کو ایک بہت بڑے زیرک، اصولی اور شریعت کے نفاذ کے داعی عالم دین اور سیاست دان کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ان کے مخالفین پچھلے پانچ دہائیوں سے دین اور شریعت کے نام پہ ان کی سیاست کو مفاد پرستی اور اقتدار کی سیاست سے تعبیر کرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں