عزیزی ڈاکٹر صغیر خان خیر سے پنشنر ہو گیا ہے لیکن وہ بچپنے سے ہنوز دستبردار نہیں ہوا۔ سرپرائیز دینے کا چسکا اُسے ابھی تک لاحق ہے۔ ہم بچّوں کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے ، وہ ہم سے کھیل گیا۔ “جب تک آپ کے کھلونے کالجوں سے لوٹتے ، آپ میرے ساتھ چلیں ،گھر میں تو چوُزے بھی نہیں کہ ڈانگ سے لیس ، کھِیڑے پر تشریف فرما ہوکر اُن کی پہرے داری کریں۔ بہتر ہے ایک چکر اپنے شہر کے گلی کوچوں ، “کھنبل کھابوں”کا لگا لیں ۔۔۔۔ ، بھولی بسری یادیں لوٹ آئیں گی، اچھا لگے گا۔۔۔”۔ اُس کی تجویز اچھی لگی۔ ہم اُس کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب کے اُس کی گاڑی بھی گاڑی ہی دکھائی دے رہی تھی، “بھگت کبیر کی کار” (مصنّفہ بشیر حسین جعفریؒ )نہیں۔ اور وہ بقلم خود بھی چنگا بھلا ڈرائیور لگ رہا تھا،اُستاد نہیں۔گاڑی کی چابی غلطیہائے مضامین کی طرح نالے سےنہیں ، چنگے بھلے چھلّے سے یوں باندھ رکھی تھی کہ ہلے تو “چمکارا” جاوے گلی گلی۔۔ “ماشااللہ بڑے ہو گئے ہو۔ ۔۔۔؟”ہم نے کہا۔ وہ یکلخت کثرت حیا سے سُرخ ہو ہو گیا۔
ہمیں “گہلو گہل” وہ جبّر دکھانے لے گیا ، جہاں کھیل کی آڑ میں ہم دوستوں سے ، اور دوست ہم سے کھلواڑ کیا کرتے تھے۔ لیکن وہاں جبّر تھا نہ کوئی دوست۔ وہاں تو ایک کچّا پِلّا سا اسٹڈیم نما تھا۔ جسے خان اشرفؒ سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ گردشِ ایّام کے ساتھ پیچھے کو دوڑتے ہوئے ہم اُس قدرتی کھالے میں گر گئے جس میں مِشری چاچا کا سنڈا “مگدول” کیا کرتا تھا۔ اور کھالے کے چاروں اور یار لوگ کھِدوُ سے فُٹ بال کم اور “روہڑیاں ،دھوڑیاں زیادہ کھیلا کرتے تھے۔
“آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اسی اسٹڈیم نما میں قومی سطح کا فُٹ بال ٹورنامنٹ ہوا ، جس میں فوج نے بھی بھرپور حصّہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ خواتین کا ایک بڑا جتھّا بھی کھیل کود کا تماشائی ہوا ۔ اور اس سے زیادہ حیران کُن یہ امر کہ خواتین کی آمد سے دین ، دُنیا اور قومی غیرت و حمیت کو بھی کوئی ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچا۔۔۔۔۔ “۔اُس نے بتایا ۔ ہم ابھی تلک اس خوشگوار حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنے راولاکوٹ میں ایسا غلط خلط کیوں کر ہوا۔۔۔۔ ؟؟؟ ۔۔
ہمارا جی چاہا کہ بٹنگی کے اُس پیڑ پر چڑھ کر اُن سانڈوں کا “بھیڑ”(لڑائی) دیکھیں جن کے کھُروں سے پوٹھی اور کھڑک کی قومی غیرتیں بندھی ہوتی تھیں۔ بھلے وقتوں میں جہاں سانڈوں کا میدانِ کارزار ہوتا تھا، وہاں اب ایک کھیل کا میدان ہے۔ جس کے پہلو میں اب پوٹھی بالا کے متوفّین کی نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اور ہاں جس راہِ راست پر برادری کے ڈھوُر ڈنگر چلا کرتے تھے ، اس پر اب ایک سیمنٹی سڑک بچھی پڑی ہے۔ اور جس پگڈنڈی پر گراں موہڑے کے ڈھور ڈنگر کھانسا کرتے تھے، اس پر اک دوجے کے پیچھے موٹرسائیکل ڈکراتے پھرتے ہیں ۔ لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خطّہ کے اسی حصّہ پر انگلش میڈیم اسکولوں کا ایک جنگل اُگ آیا ہے۔ چنانچہ وہاں کی کُکڑیاں تک موُئی انگریزی میں “ککراتی”پھرتی ہیں ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہیں، کیالینا دینا چاہتی ہیں؟۔۔۔۔۔انڈا یا براہ راست بچّہ ؟؟؟۔

بھلے وقتوں میں اسی مقام سے چند قدم کے فاصلہ پر “کیراکی” کا وہ چشمہ اُبلا کرتا تھا جو نالے کے ٹھیک وسط میں واقع تھا ۔ اس کے پانی سے گندھک کی خوشبو آتی تھی ۔ اس سے نہائیں تو سخت ترین”کھُرک”بھی ماٹھی ہوہو جاتی تھی۔ (شاید یہی وجہ تھی کہ یارِ غار منظور خانؒ عین عالم شباب میں اس کے کنارے آن آباد ہو گیا تھا۔ اُس کی کھُرک مکمل چُک گئی لیکن خطّہ ایک دن اس نایاب کھلاڑی اور یار بیلی سے محروم ہو گیا تھا۔۔۔۔ إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون ۔کیراکی کے اسی چشمہ اور نالہ پر ایک چوبی پُلیا ہوتی تھی جس پر سے گذرنے سے پہلے کھڑتل سے کھڑتل “بیطر”(خچر) ہی نہیں،چھاکے کا چھکڑا (ٹرکّ؟) بھی دعائے خیر پڑھ کر ٹائر دھرتا تھا۔ (لیکن بہشتن ببّولی ماٹی ٹھیک اس پُلیا کے نیچے بیٹھ کر”ساء چھوڑا”(دم لیا) کرتی تھیں۔ ہماری سمجھ میں یہ کبھی نہیں آیا کہ ماٹی جینے سے نالاں تھیں یا موت ماٹی سے ترساں ؟
آنسہ کیراکی کے پہلوُ میں ایک مہاشے “گھُمن”بھی رہتا تھا ۔ اس مقام پر راولاکوٹ اور پوٹھی کے نالے “اک مِک” ہو جاتے تھے۔ پھر یہ تفریق ممکن نہیں رہتی تھی کہ کون کس میں گھُلا،کس سے یوں ملا کہ:
من توُ شُدم توُمن شدی ، من تن شُدم توُ جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں ، من دیگرم توُ دیگری امیر خسرو
(اس خلط کے غلط نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس کے ایک طرف غازی ملّت سردار ابراہیم خان ؒجیسے راہنما اور دوسری سمت حضرت شیخ محمودؒ پرنسپل گورنمنٹ انٹر کالج جیسے اُستاد بسا کرتے تھے۔ اور جس معاشرے کو ایسے راہنما اور اُستاد میسّر ہوں ، وہ معاشرہ آسانی سے نہیں بگڑتا ۔۔۔۔ اسے کما حقہ بگڑنے کے لئے مدتـوں محنت کرنا پڑتی ہے۔ محولہ بالا نالہ “اوپر چڑھتے چڑھتے” قریب جا کر اُس نالی میں ضم ہو جاتا تھا، جو زمان بس کے اڈٗے تلے سے پھوٹتی تھی ،بھائیے کے چائے خانہ کو چُومتی تھی ، پھر متیالمیرے کی پگڈنڈی پر گھومتی جھومتی ، کہیں موج میں آکر “چھلّاں” مارتی کیراکی کے نالے سے مل ، کٹھّے تک پہنچ “رنگڑ”بن جاتی تھی۔ (ثابت ہوا بلندی سے گرنا نصیب ہو تو پتلی سی “دھار”بھی “چھنب”کی بہار ہو ہو جاتی ہے۔
صاحبو! آنسہ کیراکی کا قریب ترین پڑوسی اپنا “جبّر” تھا۔ اورجبّر کے وسط میں ایک قدرتی کھالا ۔ جبّر کے ورسا اور “ہڑالہ کڑالہ” کے عشّاق نے اپنا سا زور لگا کر دیکھ لیا ، کھالا بھر کے نہ دیا۔ چنانچہ حقیقی خصم خواجوں کے دو تین بطخے فقط تیمّم کی غرض سے اس میں ڈپکیاں لگایا کرتے تھے۔ جہاں جذبات اس قدر پاکیزہ ہوں وہاں شیطانی وسوسے بھی راہ نہیں پاتے۔ یہی وجہ تھی کہ تباہ کُن زلزلہ میں بھی مذکورہ کھالہ بدستور کیچڑ سے کماحقہ ہرا بھرا رہا۔ بھلے وقتوں میں معزّز خواتین بقدم خود بھینسوں کو نہلانے کی آڑ میں خود بھی ڈبکی شُپکی لگا لیتی تھیں ۔ پھر باقی دن کھالے کنارے منہ پھیر کر دھوپ سینکا کرتی تھیں۔ (پتلے کیچڑ میں نہانے کے اس عمل کو غسلِ صحت کہا جاتا تھا)۔ اسی ساکن “تتّے پانی” سے چند قدم کے فاصلہ پر “بنّی والوں کی راہ ” پڑتی تھی۔ اور اس راہ میں ایک پیڑ بٹنگی کا۔ اسی پیڑ تلے یار لوگ “بِیڑے” کھیلا کرتے تھے۔ اور ڈھوُر ڈنگر لوگوں کا کاہ پتر صاف ۔ اسی “میدانِ کار زار” کو ڈھا کر مادر پدر آزاد حکومت نے مشقی وہیڑے جتنا ا یک اسٹڈیم بنایا۔ اور اُسے ایک انتہائی شریف اور خدا ترس شخص سردار اشرف خان ایڈوکیٹ مرحوم کے نام کر دیا۔ (ثابت ہوا ہمارے معاشرے میں سیدھے سادے اور مرحوم بندے پر کوئی بھی سنگین “الزام ” تھونپا جا سکتا ہے۔ معاشرہ تالیاں پیٹے گا۔
صاحبو! سردار اشرف خان اسٹیڈیم کی اگواڑی سے کلوّٹی نسل کی ایک پُلیا محترم گھُمن کو تقریباً نظرانداز کر کے سرِعام اُس لاری اڈّے سے لپٹ جاتی ہے جہاں اڈّے کے سوا سب جائز ہے۔ اسی اڈّے کے عقب میں آزاد ریاست جموں و کشمیر کے بانی غازی ملّتؒ کی رہائش گاہ ہے۔ جس کی زیارت کو جائیں تو “چل پنڈی وائی پنڈی ہا” کے نعرے اور “جان دے اُستاد جان دیس” کے واویلے کان پھاڑتے ہیں۔ جناب شیخ محمودؒ کا گھر تو مستریوں کی دُکانوں کی اوٹ میں کہیں گم ہو گیا ہے۔۔۔۔ چل پنڈی وائی پنڈی آ۔۔۔
ہم نے اس مقام سے فقط آدھا کلو میڑ کے فاصلہ پر واقع اپنا گھر دیکھنا چاہا، نہیں دکھائی دیا۔ لگتا ہے ہماری قریب کی نظر کو بھی کسی کی نظر لگ گئی ہے۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں