صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے ، جو سوشل میڈیا صارفین لئے بہت بڑا سبق رکھتی ہے:
“صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا لوگ اس کی تعریف کرنے لگے (کہ کیا اچھا آدمی تھا) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ: واجب ہو گئی۔
پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا کہ: واجب ہو گئی۔
اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ: کیا چیز واجب ہو گئی؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی ، تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو”۔
کل ایک لکھاری کی موت پر بڑا شور ہوا ، بہت زیادہ تنازع بنا ، اکثر لوگوں نے برائیاں نکال نکال کر پیش کیں ، گستاخیوں کو سامنے لایا گیا تو ذہن میں ایک ہی بات کوندی کہ ہم لوگ جو اپنے پیچھے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چھوڑ جاتے ہیں یہ ہمارے نامہ اعمال میں مزید بہتری یا مزید خرابی کا بھی تو ذریعہ بن سکتے ہیں ، تو کیوں نا ہم اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ کر جائیں کہ لوگ ہمارے لئے کم از کم برائی کے گواہ نہ بنیں اور گناہِ جاریہ کا سلسلہ نہ باقی رہے۔
یہ بات لکھنے والوں کیلئے زیادہ اہمیت کی حامل اس لئے ہے کہ گزرے ہوئے معاملے میں بھی ایک لکھاری ہی موضوعِ بحث بنا رہا ، اس لئے جو بھی لکھیں ، جب بھی لکھیں تو اس کیلئے کم از کم پیمانہ وہی قائم کر لیں جو اچھے زمانے میں اخباروں کیلئے رکھا جاتا تھا کہ:
وہی بات اور آرٹیکل قابلِ اشاعت ہوا کرتے جن کو لکھاری اپنے گھر والوں کو پڑھوا سکے ، اگر آپ کی یا میری تحریر میں ایسا مواد ، ایسا انداز یا ایسے الفاظ کا چناؤ ہوتا ہے جس کو پڑھ کر ہمارے گھر والوں کی پیشانی پر بل پڑ جائیں یا ان کا فشار خون بڑھ جائے ، یا ان کو افسردگی کا شکار کر دے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ، اور قابلِ توجہ امر ہے جس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں