راولاکوٹ کے” مولوی آل” /کبیر خان

راولاکوٹ بنیادی طور پر سخت کوشوں کی دھرتی ہے ۔ اور سخت کوش بھی وہ جو آسانی کو آسانی سے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔”ہول بلّا، ہلّہ گُلّا”، گتکہ، گولہ (شارٹ پٹ)،ملّہی ، رسّہ کشی، کبڈی، ہڑالہ کڑالہ، اور انّی چوہی تھپلہ جیسے مشکل کام ان کے کھیل رہے ہیں۔ لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس اوکھی دھرتی پر مُکّا بازی اور راگ پہاڑی ناپید کیوں رہا ہے؟۔ اپنے ہوش و حواس میں ہم نے اس مردم خیز دھرتی میں صرف دو گلے ایسے دیکھے جن سے مُرکیاں نکلتی تھیں ۔۔۔۔ایک اپنا بِلّو دادا، کہ “کُتّے کھنگ کھرک” بھی مُرکیوں میں خارج کرتے تھے۔ اور دوسرے محترم مولوی سیّد خانؒ، کہ کوئی بھی اجتماع ہو، راگ پہاڑی میں “نوجوانوں کو کفن بردوش رہنا چاہیئے” پڑھ کر پھونکتے تھے اور بوڑھے نعرہ تکبیر بلند کر کے کھڑے ہو ہو جاتےتھے۔ مولیناؒ نے اپنا یہ وصفِ خاص اپنے بھتیجے اور راولاکوٹ کے انتہائی ذہین طالب علم اقبال کو سونپا۔ اور وہ اسے زادِ راہ میں باندھ کر آسٹریلیا چلا گیا۔ (شنید ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے اسی خانوادے کے کچھ اور ہونہار بروے بھی وہیں پہنچ چکے ہیں ۔۔۔۔وہی خاندانی گیدڑسنگھی حاصل کرنے کو۔( واللہ عالم)۔

حضرت مولانا بیر خان ؒ کے اسی خانوادے میں قاری فیض ؒاور صادق خان شہید جیسے لوگ بھی گذرے ہیں۔ قاری صاحب اسکول ٹیچر تھے ۔اور اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں اُستاد کہتے ہوئے ہم جیسے کم علم بھی فخر محسوس کرتے تھے۔ پائلٹ ہائی اسکول راولاکوٹ میں ہمیں قاری صاحب کے چھوٹے بھائی صادق خانؒ کے جلیس ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ ایک اچھا طالب علم اور خطّہ کا بہترین آل راونڈر کھلاڑی ہونے کے باوجود، ربّ جانے اُس کے من میں کیا آئی کہ تختی ،بستہ اور ہاکی بلّا چھوڑ کر وہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ اور چھوٹی سی عمر میں وطن پر جان قربان کر کے وہاں چلا گیا جہاں کھیل کوُد کا رواج ہے نہ بزم ادب میں خوش الحانیاں بکھیرنے کا چلن۔ہم اپنے اسی کلاس فیلو کے حوالہ سے “مولوی آل” ؒکو جانتے ہیں ۔ صادقؒ شہید ہی نے ہمیں عزیزی فیّاض شاہد، محترم قاری فیض اور اقبال جیسے ذہین و فطین طالب علم سے ملوایا۔ (اگر وہ اعلی تعلیم حاصل نہ کرتا تو ہم آج ملک کے شاید سب سے بڑے خطّاط کے عہد میں جی رہے ہوتے) ۔

اس خانوادے کا ایک اہم نام اسلم ظفر ہے۔۔۔۔۔۔ پروفیسر اسلم ظفر۔ ایک عالم فاضل شخصیت، ایک دانشور ،ایک بہترین کھلاڑی، ایک بڑا اُستاد، ایک مصلح۔ اسلم ظفر اگر ہمارے ہم جماعت اور دوست صوبیدار صادقؒ شہید کے بردارِ بزرگ نہ ہوتے تب بھی ہمہارے لئے وہ پروفیسر اسلم طفر ہی ہوتے۔ ہم نے اسلم طفر کو ہاکی اور فٹ بال کے میدان میں”اُٹکتے بُرکتے”(اُچھلتے کودتے) بھی دیکھا، قاری فیض ؒ اور والد ماجد ؒ کی طرح منبر پر بھی دیکھا، سُنا اور پڑھا بھی۔ ہم صدقِ دل سے مانتے ہیں کہ علما کے اس خانوادے کے سب سے بڑے عالم ، مصلح اور فقیہہ پروفیسر اسلم ظفر ہیں ۔ اور اِس خطّہ کی عزت و آبرو بھی۔ ہم نے محترمی اسلم ظفر کو کھیل کے میدان میں بھی دیکھا۔ مگر کبھی دانستہ فاول مارتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ وہ خطّہ کے اُن دو چار کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو کھیل کو کھلاڑی کی طرح باعزت و باوقار سمجھتے ہیں ۔ ہمیں پروفیسر اسلم طفر کی شاگردی نصیب رہی نہ کھیل کے میدان میں اُن کی ہاکی سے ہاکی ٹکرانے کا شرف ۔اس کے باوجود اگر آج بھی کھیل کے میدان میں اُترنا پڑا تو ہم اُترین گے اسلم طفر کی طرح۔۔۔۔پورے وقار کے ساتھ ، اعتماد کے ساتھ۔

ہاریں یا جیتیں ، میدان سے نکلیں گے اعتبار کے ساتھ۔ (لیکن یہ طے ہے کہ ہم اسلم ظفر کی نقل نہیں کر پائیں گے۔۔۔۔۔ اسلم طفر کی نقل اسلم طفر کے سوا شاید ہی کوئی کر پائے گا۔ اس لئے کہ وہ اصل ہیں۔

ادب سے تھوڑے بہت تعلق کی بنیاد پر ہم پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں پروفیسر اسلم طفر علاقہ کے اُن محدودِ چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں شعر و ادب کو مکمل آداب کے ساتھ پڑھنے اور سمجھنے کا ہُنر آتا ہے۔ ہمیں اسلم ظفر سے فیض یاب ہونے کا شرف نصیب نہیں رہا لیکن دو بار اردو ادب کے حوالہ سے اُن کی گفتگو سُننے کا موقع حاصل رہا ہے۔ اگرچہ وہ کوئی بڑا جلسہ نہیں ، چھوٹی سی جلسی تھی۔ اور گفتگو بھی اسی سائز کی تھی۔ لیکن انتہائی مدلّل اور مکمل۔ٹوُ دی پوائنٹ۔ ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نقد و نظر لکھیں تو جگادری تجزیہ نگاروں سے کئی قدم آگے ٹھہریں گے۔

اسلم ظفر عالم فاضل ہونے کے باوجود ایک ہمدرد قاری بھی ہیں ۔ اُنہوں نے راقم آثم کی ایک تصنیف پر صرف ایک جملہ کہا تھا:

“برادرم ! اگر آپ “چِکّ دے کر”(ٹھکانے سے؟ ) لکھیں تو آپ کا جملہ اُٹھ سکتا ہے، اُڑ سکتا ہے”۔

ہم بیٹھ کر لکھ پائے نہ ہمارا جملہ اُڑ سکا لیکن پروفیسر اسلم ظفرکا جملہ ہمارے دل پر نقش ہے اور رہے گا۔

وہی مولانا پروفیسر اسلم طفر آج کل صاحبِ فراش ہیں ۔ ہم بردارِ اصغر ڈاکٹر صغیر خان کے ساتھ اُن سے ملنے گئے۔ ایک دھچکا لگا۔ وہ نحیف ہیں۔ اس کے باوجود تپاک سے ملے۔ جس پر آسٹریلیا سے آیا ہوا اُن کا بیٹا باقاعدہ ہکّا بکّا رہ گیا۔ اور اُس کی کیفیت پر ہم بھی۔ کچھ دیر میں سنبھلنے کے بعد اُس نے کہا۔۔۔۔۔”والد صاحب نے ہفتوں بعد آج اُس وقت اُٹھ بیٹھنے کی کوشش کی ہے جب میں نے آپ کی آمد کی اطلاع دی ہے۔ اور اب گفتگو کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ آپ۔۔۔۔”

وہ کیا کہنا چاہتا تھا یا اُس نے کیا کہا؟ ہمیں سنائی دیا نہ سجھائی دیا۔ ہمیں قاری فیض صاحب، صوبیدار صادق، عزیزی اقبال اور فیٗاض شاہد سمیت بہت سے مہربان یاد آئے۔۔۔۔ صاحبو! ہمیں اپنے دور کے بے حد مستعد اور متحرک “مولوی آل” بے طرح یاد آئے۔ کاش ہم جیتے جی اُن کی عزت افزائی کر پائیں ِجو ہماری عزت افزائی کے محتاج کبھی تھے نہ اب ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم دل کی گہرائیوں سے “مولوی آلوں” کے اس “ٹبّر”کے ممنون ہیں۔جس کی بدولت راولاکوٹ کی دھرتی پر سنڈوں اور کُتّوں کی لڑائی نہیں ،علم و ہُنر کی بات ہوتی ہے۔ ہم صدقِ دل سے دعا گو ہیں کہ اللہ پاک پروفیسر اسلم ظفر کو صحت تندرستی اور لمبی حیاتی عطا فرمائے (آمین)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply