بیرون ملک وطن پرستی/مہر ساجد شاد

زیادہ ماضی میں نہ جائیں اسی صدی کے ابتدا میں ہم مختلف ممالک کے اپنے سفر میں اکثر جگہ پاکستانی دوستوں کا مہمان بھی بنتے رہے، آپ کسی ملک کسی بھی شہر گئے ہوں تو وہاں اپنے جاننے والے پاکستانی سے ملنے کا لطف ہی الگ ہوتا ہے وہ جذباتی ماحول بیان کرنا بھی آسان نہیں۔ بحرحال اسی تجربہ پر بات کرتے ہیں کہ تب بھی ایسے مواقع پر اکثر دوست اپنے پاس رات کے کھانے پر مدعو کرلیتے تھے، اکثر جو لوگ بغیر فیملی کے وہاں مقیم ہوتے ہیں اور دیگر کئی پاکستانیوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں رات کے کھانے پر بھی سب اکٹھے ہوتے۔ کراچی سے خیبر اور پنجاب سے آزاد کشمیر ملک کے طول وعرض سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں سے ملاقات ہو جاتی۔ اپنی دلچسپی ہر ایک سے اسکی کہانی سننے میں رہتی یوں سب کے ساتھ اچھا تعارف ہو جاتا۔ ایسی تمام نشستوں میں مجھے ہمیشہ پاکستانی ملے، سندھی بلوچ پنجابی یا پٹھان نہیں صرف پاکستانی، تعارف سے زیادہ کسی نے کبھی اپنی صوبائی عصبیت ظاہر نہیں کی۔ حتی کہ کسی نے کبھی مسلک یا سیاسی وابستگی کی بھی بات نہیں کی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہر بین الاقوامی سفر کے بعد اپنے اندر وطن کی محبت تازہ دم ہو کر مزید بڑھ جاتی، اول ان لوگوں کی وطن سے دوری اور تڑپ اور اپنے روزگار کا وطن میں میسر ہونا سب اپنے وطن سے پیار بڑھا دیتا۔

بیرون ملک پاکستانیوں کا یہ جذبہ اور سوچ 2010 تک میں نے اسی طرح محسوس کی۔ اسکے بعد اس میں بتدریج تبدیلی آتی گئی، سیاسی وابستگی کا اظہار بیرون ملک پاکستانیوں کے دماغ سے دل پر قابض ہوا اور پھر انکی رہائش گاہوں میں اس شدت سے پھیلا کہ اکثر جگہوں پر رہائش گاہیں اب الگ الگ سیاسی جماعتوں کے ڈیرے بن گئی ہیں۔
ہم نے وہاں برسوں کے تعلق اسی بنیاد پر ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کو میرا پاکستانی بھائی کہہ کر مدد پر کمربستہ رہتے تھے ہم نے انہیں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے دیکھا ہے۔ رہی سہی کسر مذہبی شدت پسندی نے پوری کر دی ہے، ہمارے جاننے والے گورے پاکستانیوں کے بارے میں اپنی رائے “امن پسند اور محنتی Peaceful& Hardworking “ کی رکھتے تھے اب وہ بھی انہیں “ناقابل اعتماد unreliable “ کہتے ہیں۔ بیرون ملک ایک اورمسلہ پاکستانیوں کا بھیک مانگنا ہے اس نے تو مجموعی قومی وقار کا جنازہ نکال دیا ہے، یہ بھکاری ان لوگوں کے لئے مشکلات کا باعث ہیں جو وہاں روزگار کیلئے مقیم ہیں اسی لئے اس مسلہ کا حل بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ریاست کے ساتھ مل کر نکالنا ہے۔

ہماری رائے میں روزگار کیلئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ بہت ظلم کیا گیا ہے انہیں سیاسی مقاصد اور مذہبی منافرت پھیلانے کیلئے گمراہ کر کے استعمال کیا گیا ہے بدقسمتی سے اب ان میں نفرت تعصب اور ضد اس درجہ پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اسکا اظہار کرنے کیلئے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
سیاسی رہنماوں ، انکی ناپسندیدہ شخصیات جن کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو جج ڈاکٹر مذہبی رہنما ہر کسی کو عوامی مقامات پر گالی گلوچ اور تضحیک کا نشانہ بنانا ایک رواج بن گیا ہے۔ ہندوستان جو ایک بڑا ملک ہے وہاں مذہبی لسانی اور علاقائی تقسیم ہم سے بہت زیادہ موجود ہے، وہاں کئی علیحدگی کی تحاریک بھی شدت سے چل رہی ہیں لیکن انڈیا سے باہر ان کا ہر باشندہ اپنے ملک کی عزت نیک نامی کے لئے ہر حد تک جاتا ہے۔ ان کا وزیر اعظم کسی ملک کا دورہ کرے تو وہاں موجود ہر انڈین اپنی بساط کے مطابق اس کے دورہ کو کامیاب بنانے میں اپنی پوری قوت لگا دیتا ہے تاکہ ملک زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر سکے ملک ترقی کر سکے، وہ سب شائننگ انڈیا کیلئے متحد نظر آتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بیرون ملک مقیم ہمارے کچھ پاکستانی لوگ اپنی سیاسی سوچ سے الگ کسی کو قبول کرنے کو تیار نہیں، مخالفین کے گھروں کے باہر مظاہرے، انکو عوامی مقامات ائرپورٹ ، ٹرین اسٹیشن حتی کہ ہسپتال میں بھی ہراساں کرتے ہیں گالی گلوچ کرتے ہیں۔ اگر ججوں کے فیصلے انکی سوچ کے مطابق نہ ہوں تو انکی تصاویر پر جوتے مارتے ہیں انکو گالیاں دیتے انکو عوامی مقامات پر ہراساں کرتے ہیں۔ مسجد نبوی میں پیش آنے والے ایسے ہی دلخراش واقعات آپ کو یاد ہی ہونگے۔

معاملات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ بنیادی حقوق کے قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکے بے دریغ بہت زیادہ استعمال پر ان ملکوں کے باشندے اور حکومتیں بھی سخت ناراض اور غصہ کی کیفیت میں ہیں۔ بہت جگہ اب ان لوگوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیرون ملک مقیم باشندہ اپنے ملک کا نمائندہ ہوتا ہے اس کی سوچ روئیے اور عمل کو دیکھ کر دنیا اس ملک کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر شخص کو اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی ہے لیکن یہ آزادی بھی اپنا ایک دائرہ رکھتی ہے اس دائرے کے باہر دوسروں کی آزادی ہے جسے تسلیم کرنا اور اس کا احترام کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
جہاں ملک و قوم کی عزت و وقار کی بات آ جائے وہاں فرد کی بات بہت پیچھے رہ جاتی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے کام کاروبار روزگار پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیئے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ بطور پاکستانی بھائی تعلق رلھنا چاہیئے، انہیں کسی بھی صوبائیت، لسانیت ، مسلکی تقسیم یا سیاسی گروہ بندی سے الگ ہو کر پاکستانی بننا چاہیئے اسی طرح وہاں ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا اور ملک کی بھی نیک نامی ہو گی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply