جدیدیت سے مراد رائج الوقت اعتقادات، معروف نظریات، تسلیم شدہ اقدار اور رسمی روایات کو رد کرنا اور ان کے متبادل میں نئے اعتقادات، نظریات، اقدار اور روایات کی داغ بیل ڈالنا ہے۔ یعنی ان تمام روایات کی نفی و تردید ہے جو تخلیق کار کے نزدیک انفرادی و اجتماعی بدحالی و پستی کے باعث ہیں، اور ان کی جگہ نئی روایات کو تشکیل دینا ہے، جو خارج سے متاثر ہو کر تخلیق کار کے داخلی تجربے کے تحت تخلیق ہوں۔ جدیدیت کی تعریف دانیال طریر نے یوں کی ہے :
” جدیدیت کی روح، بنے بنائے، طے شدہ، مانے گئے، عرصہ دراز سے رائج، شعور و احساس میں اپنے لیے مستقل مقام رکھنے والے اقداری و اعتقادی نظام کے استرداد میں پوشیدہ ہے۔“
دانیال طریر صاحب اردو ادب میں جدیدیت کی پہلی مثال غالب کے کلام میں دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق غالب نے روایتی نظام (جس کی پیروی غالب سے پہلے کے تمام اردو شعرا کرتے آ رہے تھے) سے رو گردانی کی، اپنے وقت کی مقدس روایات کی بیخ کنی اور نئی روایات کی تعمیر خود اپنے ذاتی تجربات سے کی، جس کی وجہ سے غالب میں انانیت کا پہلو دوسرے شعراء کے بنسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے، جو فقط غالب کے ساتھ ہی مخصوص ہے اور جسے دانیال طریر نے ’انفرادی انا‘ کا نام دیا ہے۔ یہ انا پسندی اپنی ذات پر مکمل اعتماد اور اپنی ہستی کی کاملیت پر یقین کے ردِعمل میں ہی ظاہر ہوتی ہے، جو جدیدیت کے لیے پہلا قدم ہے۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہ سہی غفلت ہی سہی
غالب کی اسی خود شناسی نے انھیں نفی کرنے کی طاقت بخشی، جس کے ذریعے وہ وجودیت کی بنیادوں پر استوار نفیِ خودی کے ساتھ ساتھ تمام مروج اقدار اور روایات کی نفی کرتا ہے۔ روایات، چاہے فکری ہو یا فنی غالب ان کو چھوڑ کر خود کے لیے نیا نظام متعارف کراتا ہے اور اس نظام کی مکمل پیروی کر کے وہ اردو ادب میں جدیدیت کی روایت اس وقت قائم کرتا ہے جب یہ تحریک وجود میں بھی نہیں آئی ہوتی۔
غالب کے لیے روایات و نظریات سے آزادی انھیں مزید ذمہ دار بناتا ہے۔ کیونکہ جدیدیت صرف اسی تخلیق کار کو اپنی دامن میں جگہ دیتی ہے، جو کسی بھی قسم کے نظریے سے آزاد ہو کر صرف اور صرف اپنے فن کے ساتھ ذمہ دارنہ سچا رشتہ قائم کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے غالب ایک آزاد تخلیقی تجربے کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار تخلیق کار بھی ہے۔ یعنی جہاں ان کی تخلیق خالصتاً ذاتی و داخلی تجربے پر منحصر ہے وہاں اس کا انتخاب تمام نوع انسان کے لیے ہونے کا ذمہ دار بھی ہے۔ یہ ذمہ داری ان کے انتخاب (تخلیقات) کو ’Anthropocentric‘ بناتی ہے۔
جس کے لیے انھیں مروج ’Theocentric‘ تصور کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ اور ان کی آزادی تمام مذہبی روایات سے بھی آزاد ہے۔ دانیال طریر انھیں مذہبی نظریات کی پابندی میں مجبور ہونے کے بجائے مختار قرار دیتے ہیں۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
مذہبی جدیدیت کا یہ رویہ غالب کو اپنے خارجی گرد و پیش میں اجنبیت کے ہالے میں لپیٹ لیتا ہے، جس کے بعد کوئی بھی مذہبی نظریہ ان کے نزدیک ایک ذاتی تصور بن جاتا ہے۔ جس کے ذریعے وہ بہت سے مذہبی روایات و اعتقادات پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جن کے بدلے میں وہ اپنے ذاتی تصورات کا خواہش مند ہوتا ہے۔
دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازِ خمار نہیں ہے
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
رومانوی تحریک کے زیرِ اثر جدیدیت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں معنی، اعلیٰ و اولیٰ طاقت اور انسان کے مقام کا تعین رومانوی اور مابعدالطبیعیاتی حقائق کے ذریعے سے کی جائے، جو مابعد جدیدیت کے نزدیک ایک ناممکن کوشش ہے۔ اس کا ادراک صرف تجربیت کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور تجرباتی ادراک کے لیے ضروری ہے کہ تشکیک و استفسارات کا سہارا لیا جائے، جو غالب کے ہاں مختلف جگہوں پر مختلف رنگوں میں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی خدا کے وجود کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو کہیں اس کی تخلیقات پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
یہی تخریب و تعمیر غالب کو ایک دوراہے پر لا کے کھڑا کرتا ہے یعنی وہ کلاسیک اور جدید کے درمیانی خط پر کھڑا ہے، جس کی وجہ سے وہ، بقول ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی، آخری بڑے کلاسیکی اور پہلے بڑے جدید شاعر ہیں۔ وہ کلاسیکی شاعر ہوتے ہوئے ان کلاسیکی روایات، جو کسی تجرباتی تخلیق کے قابل نہیں، کی تخریب و تردید کرتا ہے۔ پھر نئے روایات کو معرضِ وجود میں لاتا ہے اور خود کو جدید شاعر ثابت کر کے دوسرے شعرا کے لیے جدیدیت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں