کچھ ماہ پہلے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں جانے کا موقع مِلا۔ شمالی پختونخوا تو اب اپنے گھر جیسا لگتا ہے لیکن جنوبی علاقوں کی طرف جانے کا یہ پہلا اِتفاق تھا۔
ہمارا سفر پِشاور سے دوآبہ براستہ بڈھ بیر، متانی، درہ آدم خیل، کوہاٹ، استرزئی اور ھنگو تک کا تھا۔
پشاور شہر میں بارش کی وجہ سے حبس کا راج تھا۔ لیکن جیسے ھی ہم شہر کی حدود سے باہر نِکلے تو ٹھنڈی ہواؤں نے ہمارا اِستقبال کیا۔ پشاور سے باہر سب سے پہلا علاقہ “بڈھ بیر” کا آیا۔ یہ جگہ اپنے فوجی اڈے کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ اس سے آگے چھوٹے چھوٹے قصبے آتے رہے اور پھر “تورغر” کی پہاڑیاں شروع ہو گئیں۔
دِلفریب نظارے، خوبصورت پہاڑ، ٹھنڈی ہوا کا ساتھ اور پکی سڑک کا سفر یوں محسوس ھوتا تھا جیسے ہم ہنزہ یا گلگت کی جانب گامزن ہوں۔
اللہ کی شان خیبرپختونخوا کا جنوب بھی شمال ہی کی طرح حسین ہے۔ میں نے جب Google map دیکھا تو پتہ چلا کہ کچھ دیر بعد ہم قبائلی علاقہ جات کے علاقے “درہ آدم خیل” سے گزرنےوالے ہیں۔
درہ آدم خیل “اورکزئی ایجنسی” کا وہ حِصہ ہے جو پختونخوا کے اندر تک چلا گیا ہے۔ یہ درمیانے حجم کے پہاڑوں والا خوبصورت علاقہ ہے جو پورے برِاعظم ایشیاء میں “کلا شن کوف” بنانے کے حوالے سے مشہور ہے۔ اِس سے آگے ضلع کوہاٹ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں پُختہ سڑک اور اوپر سے ہلکی ہلکی بارش نے سفر اور بھی آسان کر دیا۔ کچھ دور پہاڑوں کو بادلوں نے چاروں اطراف سے گھیر رکھا تھا اور ایک خوابیدہ سا منظر قُدرت نے میری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔
میں تو محو ہو کر گاڑی سے باہر ہی دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک ایک سائن بورڈ پہ نظر پڑی تو دل تیزی سے دھک دھک کرنے لگا۔
یہ “کوہاٹ ٹنل” کا بورڈ تھا۔ 2003 میں بنائی کئی اِس سرنگ گو حکومتِ جاپان کے تعاون سے مکمل کیا گیا ہے تبھی اسے ”فرینڈشپ ٹنل“ بھی کہتے ہیں۔ یہ سرنگ کوہاٹ شہر سے ذرا پہلے آتی ہے اور واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے دیکھنے کی بہت پرانی خواہش تھی میری، اللہ تعالی نے وہ بھی پوری کردی۔
دلکش نظاروں کے بیچ ھنگو سے ہو کر ہم اپنی منزل دوآبہ پہنچ گئے۔ دوآبہ شہر، ضِلع ھنگو کی ایک سب تحصیل ہے جو مقامیوں کے مُطابق عنقریب تحصیل کا درجہ حاصل کرنے والا ہے۔
اِسکے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ دو ندیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے جس سے 70 کلومیٹر آگے ٹل اور 110 کلومیٹر کے فاصلے پر “کُرم ایجنسی” کا علاقہ “پاراچنار” ہے۔
دیگر پاکستانیوں کی طرح یہاں کے لوگ نہایت مہمان نواز اور خُوش مِزاج ہیں۔ ان کی سرشت میں اللہ تعالیٰ نے مہمان نوازی کوٹ کوٹ کہ بھری ہے۔ بوڑھوں سے لے کر نوجوانوں اور بچوں تک سب خندہ پیشانی سے مِلتے ہیں۔
بس آپ انکو پشتو میں “سنگے” کہہ دو ایک بھرپور مُسکراہٹ کے ساتھ “خیر دے” کہہ کر یہ آپکو جواب دیں گے۔
میں نے یہاں کبھی دو لوگوں کو آپس میں بدتمیزی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔
اِس علاقے میں بنگش قوم کی اکثرت ہے۔یہاں کے زیادہ تر لوگ “مُملکتِ قطر” میں ملازمت کرتے ہیں۔ یہاں کے تقریباً ہر گھر کا ایک فرد آپکو قطر، کویت، سعودیہ یا امارات میں ملے گا یہاں تک کہ 70 سال کے بوڑھے بھی اپنی جوانیاں قطر کی نذر کر چُکے ہیں۔ اور تو اور یہاں کی تقریباً ہر مسجد اور اُس میں رکھے گئے قُرآنِ کریم کے نُسخے بھی قطر کی طرف سے ہدیہ ہیں۔
میں نے پہلی بار بھنڈی، ہری مِرچ، اور ٹماٹروں سے بھرے کھیت اور املوک کے درخت اس علاقے میں دیکھے۔ یہاں زیادہ تر گرم مصالحے، ڈرائی فروٹ، کپڑے پھل اور سبزیوں کا کاروبار کیا جاتا ہے۔
یہاں سِکھوں کی بھی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ جو پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ جشن آزادی کا دن بھی میرا یہیں گزرا جسے یہاں کے لوگوں نے بہت جوش و جذبے سے منایا۔ اِتنا جذبہ میں نے پاکستان کے چھوٹے شہروں میں کم کم ہی دیکھا ہے۔
یہاں پہ لوگوں میں تعلیم کا بہت زیادہ رحجان ہے یہاں تک کہ پنجاب کے دیہی علاقوں سے بھی زیادہ۔ زیادہ تر نوجوان آگے چل کر ڈاکٹر، انجینیئر یا عالِم بننا چاہتے ہیں۔ جبکہ صحت کا نظام ناگفتہ بہ ہے۔
یہاں کی مشہور ترین خوراک لوبیا ہے جِسے پکا کر، اُبال کر، تل کر غرض ہر طریقے سے کھایا جاتا ہے۔ اِسکے علاوہ ” اوریجے”(جسے میں ڈیم والے چاول کہتا تھا)بھی کافی مشہور ہے۔ یہ ایک طرح کی کھچڑی ہے جِسے ایک بڑی ڈِش میں پہاڑی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے درمیان میں چوٹی پر ایک دائرہ بنا کہ اُس میں گرم گرم دیسی گھی بھرا جاتا ہے۔ یہ سارا منظر ایک چھوٹے ڈیم جیسا لگتا ہے۔ پھر چاروں جانب سے اِس میں شگاف ڈال کر گھی کو چہار جانب پھیلایا جاتا ہے۔ اسکو کھانے سے زیادہ اسکو دیکھنے کا مزہ ہے۔
یہاں کی موٹی روٹی پنجاب اور سندھ والوں کے حلق سے نیچے نہیں اُترتی۔ کھانے کے بعد قہوے کی بجائے چائے کا رواج زیادہ ہے۔ پھلوں میں یہاں کا صحت مند اور رسیلا “کالا انگور” اپنی مثال آپ ہے اور یہ ایک بڑے سائز کے جامن کے برابر ہوتا ہے۔
چاروں جانب پھیلی پہاڑیوں اور یہاں کے موسم نے اِس علاقے کا حُسن دوبالا کر دیا ہے۔
پختونخوا کے جنوبی اضلاع شمالی اضلاع کی نسبت کچھ پسماندہ ہیں۔ یہاں معیارِ تعلم تو کچھ بہتر ہے لیکن صحت و صفائی کی سہولیات ناکافی ہیں۔ دوآبہ کے لوگ اسپتال کے لیئے ٹل یا ہنگو کا رُخ کرتے ہیں۔
اکثر و بیشتر جگہوں پہ گندگی کے ڈھیر ہیں اُس کے باوجود بھی اس شھر میں خُوشیاں بہت ہیں اور لوگ مطمئن ہیں۔ بچے بالے شام کو پہاڑیوں پر کرکٹ اور والی بال کھیل رہے ہوتے یہں۔
آخر میں،میں آپ کو بتانا چا ہوں گا کہ یہ علاقہ بہت پُر امن ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہاں ڈرون حملے ہوتے تھے لیکن یہ بہت پُرانا قِصہ ہے۔ آج فاٹا اور پختونخوا کے یہ علاقے پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح پرامن اور محفوظ ہیں۔ اللہ غارت کرے پاکستانی میڈیا کو کہ جس نے اِس ملک کا مثبت چہرہ کبھی نہ پیش کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں