یہ جولائی کی ایک دوپہر تھی سورج آسمان کے وسط میں اپنی پوری قوت کے ساتھ آگ برسا رہا تھا ۔ گاؤں کے لوگ کاموں سے تھکے ہارے پسینے میں شرابور اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ سورج کی شدت سے بچنے کے لیے کوئی سرپر چادر لیے اور کوئی ٹوپی لیے گھروں کو گرمی کی لمبی دوپہرمیں آرام کے لیے جا رہے تھے۔
امجد پسینے میں ڈوبا ہوا انٹرویو سےمایوس گھر آیا اس کی ماں نے روٹی پانی پوچھنے کے بعدجس سوال کی امجد کو امید تھی وہی پوچھ لیا۔ بیٹا کیا بنا انٹرویو کا نوکری مل جاۓ گی اس بار؟اس سوال کی امجد کو جیسے عادت ہوگئی تھی وہ جب بھی کسی انٹرویو سے واپس آتا اس کی ماں اس سے یہی سوال پوچھتی۔امجد ہربار کی طرح اس بار بھی ماں کو مایوس نظروں سے دیکھنے لگا۔ ہونا کیا تھا اماں!وہی جو برسوں سے ہوتا آرہا ہے ” سفارش اور رشوت”اور ماں کی طرف یوں دیکھنے لگا کہ وہ اس سے کہے کہ نہیں بیٹاایسا نہیں ہےیہ صرف تمہاری سوچ ہےاس نظام میں اس ملک میں کوئی خرابی نہیں ۔لیکن ماں نے کچھ نہیں کہا۔
وہ متفق تھی امجد سے کہ اس نظا م میں خرابی ہے۔یہ نظام ہی ہے جس نے ہماری زندگی کی مشکلات میں ا ضافہ کر دیا ہے۔یہ نظام رکاوٹ ہے زنجیر ہے ذہین اور محنت کش طالب علموں کے رستے میں۔لیکن وہ خاموش رہی کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا کم ہمت پڑجاۓ۔وہ ماں تھی اپنے بیٹے کو یوں بے بس دیکھنا اسے تکلیف دےرہا تھا۔امجد کا یوں ناامید ہونا، مایوسی کے الفاظ اس کی ممتاکو تکلیف دے رہے تھے ۔ لیکن وہ چپ رہی اپنے بیٹے کے لیے کہ اسے مزید دکھ نہ ہو۔
بغض اوقات جب کوئی دکھ کےوقت ہماری ہاں میں ہاں ملاتا ہے ۔ہمارا ساتھ دیتا ہےتو درد یا دکھ کم ہونےکے بجاۓاوربڑھ جاتا ہے۔امجد کی ماں نے بھی یہی کیا۔امجد کی ہاں میں ہاں ملانے اور اس سےاتفاق کرنےکے بجاۓوہ چپ رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹااس سے یہ جواب سننا نہیں چاہتا تھا۔وہ ز بان سے تواس نظام کو قصوروار ٹھہرا رہا تھا لیکن اس کے دل میں کچھ تھاجو اس کے برعکس تھا۔
اور امجد نے دل گرفتہ اندازمیں اپنی بات جاری رکھتے ہوۓکہا کہ آج پھر ایک لڑکا جو نہ ذیادہ ذہین تھا اور نہ جس کی تعلیمی قابلیت اچھی تھی وہ سیلکٹ ہو گیا۔آج پھر محنت کے مقابلے میں رشوت اور سفارش جیت گئی۔پھرخود ہی اپنی باتوں سے تھک کر اور مایوس ہوکر کہ ا س کی ما ں اسے کوئی جواب نہیں دے رہی تھی امجد نے کہا۔
اماں !آپ کھانا لگا دیں مجھے بھوک لگی ہے۔
ماں کھانا لے آئی اور اس کے سامنے رکھنے لگی تو امجد کہنے لگا ۔
اماں!اب تودل کرتا ہے کے نوکری کے پیچھے بھاگنا ہی چھوڑ دوں ہم غریبوں کی قسمت میں نوکریاں کہا ں اور کہیں سے پیسوں کا بندوبست کرکے کاروبارشروع کردوں۔کاروبار کا سنتے ہی اماں جو اتنی دیر سے خاموش تھی کہنے لگی کاروبارشروع کردوں، کہا سے شروع کرے گا کاروباراور کہا ں سےپیسوں کا انتظام کرے گا۔ ابھی تک و ہ پچھلے قرض ختم نہیں ہوۓ۔ابھی صبح ہی وہ بخشولالاآ یا تھا اپنے قرض کی وصولی کے لیے کہ اگر اس مہینے پیسے نہ دیے تو اگلے مہینے سود سمیت دو گنی رقم دینی ہوگی ۔اور قرضوں تلے دبانا چاہتا ہے تو ہمیں ۔گھر میں فاقے پڑے ہیں فاقے۔بیمار باپ کی دوائیوں کے لیے تو پیسے ہیں نہیں تمہارے پاس ،جو ان بہنوں کے جہیز کا بھی کچھ بندوبست کرے گا یا پھر ساری عمر قرض ہی ادا کرتے چلیں گے ۔یہ باتیں سنتےہی امجدمایوسی سےماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا اماں !میں مزدوری کرتا توہوں اور نوکری کی تلاش بھی کرتا ہوں ۔
اماں نے غصے سے کہا مزدوری سے کیا ہوتا ہے۔ گھربھی مشکل سے چلتا ہے۔ اور اوپر سے تمہارے باپ کی دوائیوں کا خرچہ، جوان بہنوں کی جہیز کی فکر یہ سب کہاں سے ہو گا۔
یہ باتیں سنتے ہی امجد اٹھ کر جانے لگا اسے جاتے دیکھ کر ماں نے کہا !کہاں جا رہا ہے کھانا تو کھا کے جا ۔امجد غصے سےبولا بھوک نہیں رہی ۔امجد کو غصہ اپنی ماں پہ نہیں تھا بلکہ اس نظام پر تھاجس کے تخت محنت کرنے والے پیچھے ہیں اور سفارشات اور اثر و رسوخ والے لوگ آگے سے آگے نکلتے جا رہے ہیں ۔
کچھ دنوں بعد ماں کی ضد اور کہنے پر امجد پھر سے ایک انٹرویو کے لیے جا رہا تھا اس عزم کے ساتھ کہ یہ اس کی آخری کوشش ہوگی اور اسے یقین تھا کہ اس بار بھی ناکامی ہی ہوگی ۔اس فیصلے اور عزم کے ساتھ وہ کمپنی میں داخل ہوا اور ایک ہال میں چلا گیا جہاں پہلے سے بہت سارے لڑکے انٹرویو کے لیے موجود تھے ۔سامنے دیوار پر گھڑی میں ابھی 10 بجنے میں کچھ وقت باقی تھا دیواروں کے آگے کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور اس میں افسر کے کمرے میں جانے کے لیے راستہ کھلا چھوڑا گیا تھا ۔امجد کونے میں خالی نشست پا کر وہاں بیٹھ گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔وہاں موجود نوجوان لڑکوں میں سے اکثر کے چہروں پر ایسی ہی مایوسی تھی جس طرح امجد کے چہرے پر تھی جیسے اسے بھی کوئی مجبوری ماں کی ضد ،بہنوں کے جہیز کی فکر ،باپ کی دوائیوں کاخرچہ اور دن بدن سود کی وجہ سے بڑھتا ہوا قرض یہاں لانے پر مجبور کر گئے تھے اور اسے بھی یہاں سے خالی ہاتھ جانے کا یقین تھا ۔اور کچھ نوجوان ایسے پرجوش اور خوش تھے جن کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان لوگوں کو تو ابھی سے نوکری کی نوید سنا دی گئی ہو ۔ایسے نوجوانوں کو دیکھ کر امجد کو خیال آیا کہ یہ یا تو پہلی دفعہ کسی انٹرویو کے لیے آئے ہیں یا پھریہ وہی ہیں اٖثرورسوخ والے جس نے آج کی بازی جیتنی ہے اور جس کی وجہ سے ہماری محنت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے ۔
امجد کے ساتھ والی نشست پر ایک دبلا پتلا دراز قد نوجوان جس کی عمر تقریباً تیسں بتیسں برسں ہوگی ۔وہ بھی ان نوجوانوں میں سے ایک تھا جن کی آنکھوں سے مایوسی جھلک رہی تھی لیکن یہ مایوسی امجدکی آنکھوں سے جھلکنے والی مایوسی کی طرح نہیں تھی بلکہ اس مایوسی میں ایک مبہم امید تھی کہ اگر ناکام ہو گیا تو بھی اگلی بار اور بار بار کوشش کرنی ہے ۔اور ایک عجیب تاثر کہ ناکامی صرف نظام کی وجہ سے نہیں کبھی کبھار ہماری اپنی وجہ سے بھی ہوتی ہے ۔حامد نےامجد کو مایوس اور خاموش پا کر اس سےگفتگوکا آغازکیا۔
حامد:السلام علیکم
امجد: وعلیکم السلام
حامدنے اپنا تعارف کروایا ۔۔اور امجد نے حامد کی طرف یوں دیکھا جیسے وہ ایسے اس گفتگو کو مزید نہیں بڑھانا چاہتا لیکن حامد نے اس کی نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے گفتگو جاری رکھی اور کہا ۔
تمہاری تعلیم کیا ہے؟
امجد:ایم اے انگلش۔ اور خاموش ہوگیا۔
کیا خیال ہے ہو جاؤ گے سلیکٹ انٹرویو میں ؟
اور یہ سوال ایسا تھا کہ جیسے حامد نےامجد کی مایوسی کو بھانپ لیا ہو ۔امجد نہ چاہتے ہوئے بھی اس گفتگو سے دور نہ نکل سکا تو اس نے بھی تھوڑی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔
امجد :تمہارا کیا خیال ہے ہو جاؤں گا سلیکٹ ؟
اور حامد نے بڑے پر یقین انداز میں ایک صاف رنگ اور درمیانے قد والے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ اس ہال میں موجود لڑکوں میں سوائے اس لڑکے کے کوئی سلیکٹ ہوگا ۔امجد نے بڑےمودبانہ انداز میں حامد سے کہا :اور آپ کو کیسے پتہ کہ یہ لڑکا سلیکٹ ہوگا ؟
حامد: اب تو کافی تجربہ ہو گیا ہے اس لیے انسان کو بھی پہچان لیتا ہوں جس کو پہلے سے ہی نوکری کی نویدسنا دی گئی ہو ۔حامد نےامجد کو اپنی طرف متجسس نگاہوں سے دیکھتے پاکر اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا ،دیکھ نہیں رہے کہ باقی اکثرکی آنکھوں میں مایوسی ہے ۔ہاں کچھ پر امید بھی ہے لیکن بے فکر اور مطمئن نہیں لیکن یہ لڑکا سب سے بے فکر اور مطمئن ہے۔امجدنے مزید تجسس ظاہر کرتے ہوئے کہا ،کہ بے فکر تو اس ہال میں اور بھی لوگ ہیں اور سامنے دو تین لڑکوں کی طرف جو قہقہے لگا کر باتیں کر رہے تھے اور یوں لگتا تھا کہ ان لوگوں کونہ نوکری ملنے کی کوئی خوشی ہوگی اور نہ ہی یہ ناکامی کی صورت میں دل شکستہ ہوں گے کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا،امجد اور ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے فکر تو ان لوگوں کو بھی نہیں بلکہ یہ تو اس نوجوان سے زیادہ خوش ہیں ۔امجد نے بات جاری رکھتے ہوئے صاف رنگ اور درمیانے قد والےلڑکےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ اس لیے مطمئن ہو کہ اسےاپنی قابلیت پر یقین ہو۔
حامد: مانتا ہوں کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں باقی لوگوں میں بھی بے فکر اور مطمئن لوگ ہیں لیکن اس لڑکے کا اطمینان کچھ اور ہے ،کچھ الگ اور کیا تمہیں نہیں یقین ہے اپنی قابلیت اور محنت پر ؟امجد نے حامد کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہو کہ یہ سوال تو میں نے کبھی خود سے کیا ہی نہیں ۔کیا میری ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنی قابلیت اور اپنی محنت پر یقین نہیں ہے ؟کیا مجھےاپنی ذہانت پر یقین نہیں ہے ؟لیکن اگر مجھے اپنے آپ پر اور اپنی محنت پر یقین نہ ہوتا تو میں انٹرویو دینے نہ جاتا ۔امجد خود سےدل ہی دل میں یہ سوالات کرنے لگا اور خود ہی جواب کا متلاشی بن گیا ۔لیکن نہیں، قصور تو اس نظام کا ہےجس میں محنت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جس میں پہلے ہی سے یہ انتخاب کیا جاتا ہے کہ کس نے آگے جانا ہےاور کس نے در در ٹھوکریں کھانی ہے اس نظام میں سفارش اور رشوت کی وجہ سے محنت کی اہمیت کم ہو گئی ۔سود کی وجہ سے امیر لوگ امیر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب طبقہ قرض کے بوجھ تلے دب رہا ہے ۔اس نظام میں اس ملک میں محنت کرنے والوں اور غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔لیکن نظام چلانے والے بھی تو ہم ہیں کیاہم میں کچھ غلط ہے؟
امجد جیسے خود سے محوکلام ہو گیااور خود سے سوالات کرنے لگا کہ کیا ہم میں خود اعتمادی نہیں ہے یا یہ بنایا ہوا نظام ہماری راہ میں رکاوٹ ہے ہماری پاؤں میں زنجیر ہے ؟
ہم ملک اور نظام کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی خود کو جانچاہےکیا ہم کبھی خود سے ہم کلام ہوئے کہ ہم میں کیا کیا برائیاں ہیں ؟امجدکے ذہن میں جیسے سوالات کا سیلاب آگیا انہی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے اور خودسےدور بھاگنے کے لیے وہ فورا کھڑا ہو گیا اور ہال سے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا سڑک پر نکل آیا بے مقصد سڑک پر چلتے ہوئے سوچ میں ڈوب کر خود سے سوال کرتے ہوئے کیا ہمیں خود کو بدلنا چاہیے یا نظام کو ؟
خرا بی ہم میں ہے یا اس نظام میں ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں