پنجاب کو پرانی حویلیوں، کچے راستوں، سرسوں دے ساگ اور دھوتی کُرتے کے علاوہ بھی دیکھنے اور دکھانے کے لیے ترلہ ہے۔
پنجاب میں سکولوں میں پنجابی بولنے پہ پابندی ہے۔باقی صوبوں کے برعکس یہاں پنجابی بطور مضمون بھی نہیں پڑھایا جاتا۔میڈیا پہ خبروں سے لے کے ڈراموں تک سارا مواد ودیشی زبان اردو میں ہوتا ہے۔یہاں تک کہ پنجابی گلوکار اور فنکار بھی ودیشی زبان ہی بولتے ہیں۔جن کی روزی روٹی پنجابی سے جُڑی ہے وہ بھی اردو ہی بولتے ہیں۔اتنے “اردوئی معاشرے” میں ایک عام پنجابی بچہ اردو ہی بولے گا۔
عام بندے نے سکول،دفتر، بنک یا شاپنگ مال میں کبھی پنجابی سُنی ہی نہیں۔اس نے پنجابی جب بھی سُنی وہ اپنے دادی دادے سے سُنی یا شاید پولیس تھانہ واحد دفتر ہے جہاں پنجابی بولی جاتی ہے۔ایسے میں عام بچہ نہ تو دادا کی جنریشن سے کنیکٹ کرپاتا ہے نہ وہ تھانے کے مُنشی سے کنیکٹ کرسکتا ہے۔سو اس کے نزدیک پنجابی یا پرانے بُڈھوں کی زبان ہے یا گلالم گلوچ کرنے والے سرکاری ملازم کی۔بچہ نئے زمانے کا ہے،وہ نئے لوگوں کو آئیڈیالائز کرتا ہے،وہ نئے زمانے کے خواب دیکھتا ہے۔یہ لوگ اس کا ریفرنس گروپ ہی نہیں ہوتے۔
ریفرنس گروپ مارکیٹنگ کا ایک کنسپٹ ہے۔یہ ایک ایسا گروپ ہوتا ہے جس سے عام لوگ کنیکٹ کرنا چاہتے ہیں،اس گروپ جیسا دکھنا چاہتے ہیں،اس گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔بڑی کمپنیز ماہرہ خان یا فواد خان کے منہ پہ کریم اور فیس واش اس لیے لگاتے ہیں کہ نئی نسل اپنا چہرہ فواد خان جیسا چاہتی ہے،وہ ماہرہ خان والا لائف سٹائل چاہتی ہے۔ایسے میں جب آپ پنجاب کے نام پہ پرانی حویلیاں، کچے راستے، پنکچر سائیکل، کھوتا ریڑھی دکھاتے ہیں تو کون پنجاب سے کنیکٹ کرنا چاہے گا؟ کس نسل کے لیے کھوتا ریڑھی والا ریفرنس گروپ ہوسکتا ہے؟کس کے لیے مٹی کے ڈھے چکے مکان آئیڈیل ہو سکتے ہیں؟
جب ہم پنجاب کے نام پہ لگاتار جہالت، غربت اور پسماندگی دکھاتے رہیں گے تو آہستہ آہستہ پنجاب سے کنیکٹ کرنے والے کم اور کم تر ہوتے جائیں گے۔اگر پنجاب کا کوئی جوان سافٹ وئیر انجینئر بن جائے یا آئی ٹی میں مہارت حاصل کرلے تو وہ ہماری کھوتا ریڑھی سے کیوں کنیکٹ کرے گا؟وہ پنجابی جو پڑھ کے بہت بڑے سرکاری عہدے پہ بیٹھ گیا،وہ پنجابی جو لاہور کی ماڈرن ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنے گھر سے بڑی سی جاچانی گاڑی پہ سوٹڈ بوٹڈ ہوکے اپنے شیشے کے بنے دس منزلہ دفتر میں جاتا ہے وہ کیوں آپ کے دکھائے گئے پنجاب سے اسوسی ایٹ کرے گا؟
ہیں تو یہ بھی پنجابی،مگر یہ خود کو پنجابی اس وجہ سے ظاہر نہیں کرپاتے کہ آپ نے پنجاب کو محض پسماندگی کی علامت بنا کے رکھ دیا ہے۔آپ کے نزدیک پنجاب کا کوئی حال یا مستقبل ہے ہی نہیں،سارا پنجاب ماضی میں ہے۔سارا پنجاب سو سالہ پرانی عمارتیں،لالٹینیں، پرانے بھانڈوں میں ہے۔
میں پنجابی بے شک خود کو بہت بڑا قوم پرست کہتا رہوں مگر میں نے عربوں جیسا قوم پرست کوئی نہیں دیکھا۔مغرب میں قوم پرستی ماضی کی کہانی ہوچکی۔معاشرہ اتنا ماڈرن ہے کہ آپکو کبھی کوئی وطن پرستی کی بات کرتا نہیں ملتا۔وہاں وسائل اور مسائل ہی الگ طرح کے ہیں،بلکہ ایک خاص حد سے زیادہ وطن پرستی یا نسل پرستی قانوناً جرم ہے۔عرب معاشرہ اس حوالے سے بہت الگ ہے۔
سکول،سرکاری دفتر، نجی محفلوں سمیت ہر جگہ وہ اپنا لباس پہنتے ہیں،اپنی زبان بولتے ہیں،اپنے وطن پہ مان کرتے ہیں،خود پرستی کی حد تک اپنی قوم کو اقوام عالم سے بہتر جانتے ہیں،مگر وہ یہ سب کرتے ہوئے دکھاوا نہیں کرتے۔یہ سعودی عرب کے ساتھ وطن پرستی کے نام پہ ریگستان،پرانے گھر یا اونٹ نہیں دکھاتے۔وہ اپنی مشہوری میں نیا ریاض دکھاتے ہیں،جدہ کی بیچ دکھاتے ہیں،ابھا کی دُھند سے ڈھکی چوٹیاں دکھاتے ہیں۔ہاں یہ سب دکھانے کے ساتھ وہ اپنے لباس میں ہوتے ہیں،اپنی زبان بول رہے ہوتے ہیں،اور ہمیشہ مستقبل،کل اور دو ہزار تیس کی بات کرتے ہیں۔
میرا بھی خواب ہے،کوئی ایک پنجابی ہو،وہ پنجاب کے دل لاہور سے اُٹھے،سوہنڑا سوٹڈ بوٹڈ ہو کے،آٹھ دا کروڑ کی گاڑی پہ بیٹھ کے کارپوریٹ دفتر جائے۔وہ سیلز ٹیم سے پنجابی میں رپورٹ طلب کرے،پنجابی میں میٹنگ ہو،اور پنجابی میں وہ دو ہزار چالیس کی پلاننگ کریں۔شام میرے ٹی وی پہ ایک پنجابی پروگرام چلے،اسکا ماڈرن سیٹ ہو،وہ میرے بچوں کو پنجابی میں سیلف ہیلپ پہ لیکچر دیں،وہ میرے جوانوں کو ہارورڈ بزنس ریویو کا پنجابی ترجمہ سنائیں، وہ مستقبل کی بات کریں،وہ زمانے سے جڑنے کی بات کریں۔
میرا ایک خواب ہے،ایک ماڈرن ،امیر دوشیزہ ڈی ایچ رایا میں مجھے ملے،اور اپنا تعارف پنجابی میں کرائے۔میرا ایک خواب ہے میں سو ملین کی کاروباری ڈیل کرنے جاؤں اور فریق دوم میرے ساتھ پنجابی میں بات کرے۔
میرا خواب ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں