اپنا کم/اعظم معراج

1990ء کی بات ہے کہ میری امی اور چھوٹے بھائی سردار امجد معراج کو میری بیمار نانی کی عیادت کے لیے کراچی سے پنجاب جانا ہوا۔لاہور اسٹیشن پر ٹرین سے اترنے کے بعد منڈی مرید کے، جوکہ جی ٹی روڈ پر ہی لاہور سے تقریباً آدھے پونے گھنٹے کی مسافت پر آباد ایک چھوٹا شہر ہے، پہنچنے کے لیے جب یہ دونوں ماں بیٹا بس میں سوار ہوئے تو ان کو ایک بزرگ جوڑے کے ساتھ سیٹ ملی۔جوپہلے سے وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹرین کا ڈیڑھ دن کا سفر ان دونوں ماں بیٹے کے حلیوں سے عیاں تھا۔اور ہاتھوں میں سفری بیگ اس بات کو اور پکاکررہے تھے کہ یہ مقامی مسافر نہیں ۔بلکہ بذریعہ ریل یہ لاہور پہنچے ہیں۔اور بس کے ذریعے اپنی اگلی منزل کو جارہے ہیں۔ ایسے مسافر عموماً دوسرے مسافروں کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔

سلام دعا کے بعد پہلا سوال یہ ہی ہوتا ہے کہ ’’کتھوں آئے او؟‘‘ کہاں سے آئے ہو؟ اور کہاں جارہے ہو؟
ساتھ بیٹھی خاتون نے فوراً یہ روایتی سوال کر ڈالا کہ کہاں سے آئے ہو اور آگے کہاں جانا ہے؟
امی نے بتایا کہ ہم کراچی سے آئے ہیں اور منڈی مرید کے جارہے ہیں۔
بڑی اماں نے فوراً اپنے بارے میں بھی بتایا کہ ہمیں کامونکی جانا ہے اور ہم لاہور اپنے بیٹے کے پاس آئے ہوئے تھے۔اب واپس جارہے ہیں۔
امی نے بتایا کہ میری ایک خالہ کامونکی میں رہتی ہے۔لہٰذا تعلقات ذرا اور دوستانہ ہوئے۔
بڑی اماں نے اور کریدا کتنے بچے ہیں۔کیا کرتے ہیں،کراچی میں کہاں رہتے ہو۔ کتنے دن اِدھر رہوگے۔ کب یہاں سے گئے تھے۔کون ہو یعنی جٹ، بٹ، راجپوت وغیرہ وغیرہ۔
امی نے بتایا کہ ہم مسیحی ہیں ۔اور ’’بچے اپنا ای کم کردے نیں‘‘ بچے اپنا ہی کام کرتے ہیں۔
اپنے کام سے امی کی مرادتھی کہ میرے بچے نوکری نہیں کرتے بلکہ اپنا بزنس کرتے ہیں۔امی بتاتی ہیں کہ بڑی اماں کا یہ سننا تھا کہ مسیحی ہیں اور اپنا کام کرتے ہیں، اور جو کچھ دیر پہلے امی کے ساتھ بڑی فرینڈلی ہورہی تھی ایک دم جیسے سکتے میں آگئی اور لمحوں میں اس نے فیصلہ کیا اور اپنے ساتھ بیٹھے اپنے میاں کو کہنی کے اشارے سے اٹھایا اور بغیر کچھ الوداعی کلمات ادا کئے دونوں اُٹھ کر آگے والی سیٹوں پر جاکر بیٹھ گئے۔امی اور بھائی حیران تھے کہ ان بڑی اماں کو کیا ہوا ہے۔امجد نے امی سے پوچھا آپ نے تو کچھ نہیں کہا امی بیچاری اپنی صفائی دینے لگی کہ نہیں بیٹا میں نے کیا کہنا تھا۔پتہ نہیں ان کو کیا ہوا ہے۔اچھی بھلی باتیں کرتی کرتی اچانک اُٹھ کر چلی گئی ہیں۔امجد نے پھر ازراہ مذاق کہا نہیں امی آپ نے ضرور کچھ کہا ہوگا کیونکہ امی اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے اکثر لوگوں کو ناراض کرلیتی ہیں ۔امی نے پھر کہا نہیں بیٹا! مجھے کیا کہنا تھاٗبس اچانک ہی اُٹھی ہیں اور چل دی ہیں۔
بھائی نے امی سے پیار اور ڈرے انداز میں ایک مرتبہ پھر کہا(تُوساں کجھ تے کیا ہوئے گا) آپ نے کچھ تو کہا ہوگا؟ تو امی نے کہا بیٹا اس نے حال احوال پوچھا۔ آپ کون ہو، کہاں سے آئے ہو،کس کے پاس جارہے ہو؟اور کراچی میں بچے کیا کرتے ہیں۔امی نے کہا میں نے اس سے کہا ہم مسیحی ہیں ادھر بچوں کے ماموں کے گھر جارہے ہیں، میری والدہ بیمار ہیں ان کی عیادت کے لیے جارہی ہوںاور کراچی میں بچوں کا اپنا کاروبار ہے۔ بیٹا باقی سب تو اس نے ٹھیک طریقے سے سنا لیکن جب میں نے کہاکہ بچوں کا اپنا کاروبار ہے (بچیاں دا اپنا کم اے)تو شاید حسد سے اُٹھ گئی یہ والدہ کی معصومیت تھی۔تو بھائی جو تھوڑا دنیاداری کو سمجھتا ہے قہقہہ لگایا اور کہا ماں جی یہ حسد نہیں یہ ہمارے کاروبار سے نفرت ہے، تو امی نے کہا کیوں؟ادھر اسٹیٹ ایجنسی کے کاروبار کو برا کام سمجھاجاتاہے۔ بھائی نے پھر قہقہہ لگایا اور کہا کہ نہیں ماں جی بات یہ ہے کہ پہلے تو ہم مسیحی اور دوسرا آپ نے کہا اپنا کام ہے تو پھر تو سمجھو مہر لگ گئی کہ ضرور(اپنا کم اے)اپنا کام ہے سے مراد صفائی ستھرائی کا کام ہے۔پھر امی نے کہا اچھا جی۔اس کی اپنی حالت دیکھو کپڑوں میں سے بوآرہی تھی۔اور پھر امی نے آہ بھر کر کہا کہ پتہ نہیں ان صفائی والوں سے نفرت کیوں کی جاتی ہے۔اور اس طرح کے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر یہ بیچارے نہ ہوں تو اس معاشرے کا کیا حال ہو۔پھر امی نے بھی اس سچویشن کو انجوائے کرتے ہوئے بھائی سے کہا کہ واہ جی واہ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ یہ ایسا کرے گی تو میں اس کو پہلے یہ بتاتی کیو نکہ اس کے پاس سے جو بدبوآرہی تھی میری اس سے جلدی جان چھوٹ جاتی۔
جی ٹی روڈ پر چلتی بس کے اندر امجد اور امی بڑی اماں کے رویے کو یاد کرکے ہنستے اور محظوظ ہوتے تھے۔ باہر جی ٹی روڈ پر لگے دیسی کیکر بس کی کھڑکیوں سے سن گن لے کر معاملے کو سمجھتے اور دُکھ کرتے۔ ان رُکھوں (درختوں) کے اجداد نے شیرشاہ سوری کے سڑک بنانے سے پہلے سے یہاں کھڑے جھومتے تھے۔ انھوں نے آریائوں کو ان خاک نشینوں کے باپ دادا کو سندھ سے مار بھگاتے اور ان کے اجداد کو جنگلوں میں زیست کرتے ان درختوں کے جھنڈوں میں چھپتے اور زندگی گزارتے پھر ان میں سے کچھ کو سندھ سے ہند کے انتہائی جنوب ،مشرق دلدلی علاقوں کی طرف بھاگتے اور بھوک، افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کو دھرم کے جال میں پھنس کر ذلتیں اُٹھاتے دیکھا تھا۔ پھر اُنھوں نے ان نئے آنے والے آریائوں کو اپنے پہلے سے آئے ہوئے بھائی بندوں کو نیست و نابود کرتے دیکھا۔ پھر انہی کچے راستوں سے کبھی ہن کبھی موریا کبھی باختری کبھی ترک کبھی منگولوں، مغلوں اور کبھی افغانوں کو سندھ کو تاراج کرکے ہند کی طرف بڑھتے دیکھا۔ کبھی موریا مغلوں اور فرنگیوں کے دورِ اقتدار میں سندھ اور ہند کو ایک ہوتے دیکھا لیکن ان سب ادوار میں یہ خاک نشین یہیں پر ہی زیست کرتے تھے اور ہزاروں سال کی پستی سہتے تھے۔
پھر ان درختوں نے کبھی بدھا کو کبھی تومارسول (خداوند یسوع مسیح کا شاگرد) کو کبھی مغلوں ترکوں اور کبھی عربوں کے ساتھ آئے صوفیوں کو ان کے زخمی جسموں پر محبت کے پھاہے رکھتے دیکھا۔ لیکن ان کے ہزاروں سال کی محرومی اور پستی کو طویل المعیاد بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش بذریعہ علم اور مسیحی تشخص دینے کی سعی کرتے۔ فرنگیوں کے ساتھ آنے والے مسیحی صوفیوں (مشنریوں) کو دیکھا۔ پھر ان درختوں نے سندھ اور ہند کو الگ ہوتے دیکھا اور یہ صدیوںہزاریوں بلکہ ازل سے سندھ واسیوں کو اس نئی مملکت کا ساتھ دیتے اور اپنے ازلوں سے پرانے دیس کو نئے جغرافیے اور سرحدوں کے ساتھ انتہائی مسرت کے ساتھ اپناتے دیکھا۔ پھر اس کی تعمیر اور دفاع میں شب و روز مصروفِ عمل دیکھا۔ لیکن آج چلتی بس میں بڑی ماں کا یہ رویہ دیکھ کر انھیں لگ رہا تھا کہ ان کی ہزاروں سال کی پستی ابھی ختم نہیں ہوئی یہ نفرت اور حقارت جو دھرم کے نام سے ان کے نصیبوں میں لکھی گئی تھی اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ دیسی کیکر اس بات پر خوش تھا کہ زرعی یونیورسٹیوں کی پیداوار سفیدے اور پاپولر (ایک قسم کا فارمی درخت) کے لمبے بے فیض نا چھاں نہ پھل (نہ سایہ نہ پھل) والے درختوں نے اپنے لم ڈھینگ قدوں کی وجہ سے بس کے اندر کا فکری المیہ نہ دیکھا اور نہ سنا تھا۔
اور وہ جو ان درختوں کو فارمی، جعلی اور دوغلے ہونے کا طعنہ دیتا تھا اگر وہ یہ سب دیکھ لیتے تو اس کے دھرتی کا بیٹا ہونے کے فلسفے کی دھجیاں بکھیر دیتے اور اس کے دکھ میں اور اضافہ کرتے کہ دیکھو مٹی کے بیٹوں سے دوسرے مٹی کے بیٹوں کا صرف مذہب علیحدہ ہونے کی وجہ سے سلوک ورنہ پیشہ تو ان کا بھی سفید پوشوں بلکہ حکمرانوں کو اپنے گرد گھمن گھیریاں لگوانے والوں جیسا ہے (ایک اسٹیٹ ایجنٹ کے آگے پیچھے حکمران اور متوقع حکمران دونوں گھومتے ہیں)۔ پھر یہ معصوم سی بڑی اماں کیوں اُٹھ بھاگی اس کے ذہن کی گہرائیوں میں یہ فلسفہ لکھ دیا گیا ہے کہ اگر مسیحی ہے تو ضرور صفائی ستھرائی کے پیشے سے ہی ہوں گے۔
پھر پنجاب واپسی پر جب امی اور امجد نے یہ واقعہ ہمیںآکر سنایا تو اب جب کبھی میں اور امجد اکٹھے ہوں اور ہمیں کوئی بتائے کہ میں اپنا کام کرتا ہوں تو ہمیں فوراً یہ واقعہ یاد آجاتا ہے جو امی اور امجد کے ساتھ پیش آیا تھا۔اب بھی جب کبھی مجھے امی اور امجد کی زبانی سنا ہوا یہ واقعہ یاد آجاتا ہے، تو میں سوچتا ہوں کہ بیچارہ مائیکل غلط نہیں تھا کہ اسے اپنا کام صرف صفائی ستھرائی ہی لگتا تھا اور نہ ہی پہا فرمان کا مائنڈ سیٹ غلط تھا۔کہ ہمارا تو بس یہ ہی کام ہے بلکہ ہزاروں سالوں سے یہ چیز ان کے دماغ میں بٹھا دی گئی ہے کہ تمہارا یہ ہی کام ہے ۔

تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی اعظم معراج کی کتاب دھرتی جائے کیوں پرآئے سے ایک اقتباس 

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنا کم(اپنا کام )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply