ایک سانپ اور بزرگ کی کہانی/محمد سعید ارشد

قدیم ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے ادارے بہت کم ہوا کرتے تھے۔ لوگ ابتدائی تعلیم گھر اور مدرسے یا مندر میں سے حاصل کرلیا کرتے تھے۔ مگر تب کے ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے بس دو ہی آپشن ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے پہلا آپشن دور دراز علاقوں میں قائم تعلیمی مراکز ہوا کرتے تھے۔ ہندوستان چونکہ رقبے کے لحاظ سے ہمیشہ سے ہی ایک وسیع ملک رہا ہے اس لئے اعلیٰ تعلیمی مراکز بھی عمومی طور پر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر اور دور دراز علاقوں میں پُرسکون مقامات میں قائم کیے جاتے تھے۔ یہ تعلیمی مراکز چونکہ کافی دور ہوا کرتے تھے اس لئے دور دراز کے طالب علموں کو ان مراکز میں پہنچنے کیلئے سینکڑوں اور کئی دفعہ ہزاروں کلومیٹر لمبا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ تب سفر کے ذرائع بھی چونکہ محدود ہوتے تھے اس لئے طالب علموں کیلئے بھی اتنا لمبا سفر طے کر پانا تقریباً نا ممکن ہوا کرتا تھا۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کا دوسرا بڑا ذریعہ پڑھے لکھے، سمجھدار اور ذہین لوگوں کی صحبت ہوا کرتا تھا۔ طالب علم صاحب علم لوگوں کی صحبت میں کچھ عرصہ گزارتے، ان سے علم کے موتی حاصل کرتے اور واپس اپنے علاقوں کی راہ لیتے۔

ہندوستان کے ہی ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو روحانیت کا علم حاصل کرنے کی بہت چاہ تھی۔ اِس نوجوان کو اُس کے گاؤں کے معلم نے آگاہ کیا کہ یہاں سے تقریباً 150 کلومیٹر دور ایک شہر ہے جہاں ایک صاحب علم بزرگ رہتے ہیں۔روحانیت کے علم میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ اگر یہ نوجوان اس بزرگ کی صحبت اختیار کرلے تو وہ اپنے علم کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ نوجوان نے یہ سنتے ہی رخت سفر باندھا اور کچھ دنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد اس شہر میں پہنچ گیا۔ شہر میں پہنچ کر اس صاحب علم کا گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُس نوجوان کو رات ہوگئی۔

نوجوان نے رات گئے بزرگ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ باریش اور روحانی چہرے والے بزرگ نے دروازہ کھولا، نوجوان سے آنے کی وجہ دریافت کی۔ نوجوان نے ہاتھ باندھ کر انتہائی با ادب انداز میں اپنے آنے کا مقصد بتایا۔ بزرگ نے خندہ پیشانی سے نوجوان کو اپنے گھر میں رات گزارنے کی جگہ دی اور نوجوان سے کہا کہ کل صبح سے اس کی تعلیم کا آغاز ہو جائے گا۔اگلی صبح بزرگ نے اندھیرا رہتے ہی نوجوان کو جگایا اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ بزرگ نے نوجوان کو سختی سے تاکید کی کہ بزرگ کی جانب سے سر انجام دیئے جانے والے کسی بھی کام پر نوجوان کوئی سوال نہیں اٹھائے گا۔نوجوان نے حامی بھری اور بزرگ نوجوان کو لیکر جنگل کی طرف چل پڑے۔ جنگل پہنچ کر نوجوان کو معلوم پڑا کہ کچھ دن پہلے جنگل میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس کی وجہ سے جنگل کے بہت سارے درخت جل چکے تھے مگر جنگل کا ایک چھوٹا سا حصہ آگ سے بچنے میں کامیاب رہا تھا۔ بزرگ جنگل میں چلتے چلتے اچانک ایک درخت کے قریب رکے۔ درخت مکمل طور پر جل چکا تھا۔ اس درخت کی راکھ میں ایک سانپ ادھ موا پڑا ہوا تھا۔

بزرگ نے سانپ کو اٹھایا، سانپ کی سانسیں چل رہی تھی مگر سانپ کی حالت انتہائی نازک تھی۔ نوجوان یہ دیکھ کر جھٹ سے بول پڑا۔ ” استاد محترم! آپ اس سانپ کو اپنی جگہ پر رکھ دیں ورنہ یہ آپ کو ڈس لے گا۔” یہ سن کر بزرگ نے نوجوان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا تو نوجوان کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ اس نے تو بزرگ کے کسی بھی کام پر سوال نا اٹھانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ بزرگ سانپ کو لیکر قریب کی ندی کی طرف چل پڑے۔ ندی پر پہنچ کر بزرگ نے سانپ پر لگی راکھ کو دھویا، اس کے جسم کو سہلایا اور سانپ کا رخ سورج کی طرف کردیا۔ پانی سے دھونے پر سانپ کے جسم کو راحت ملی اور سورج کی روشنی سے اسے توانائی ۔ سانپ نے انگڑائی لی، اپنا پھن پھنکارا اور بزرگ کے ہاتھ پر ڈس لیا۔

شدید تکلیف ہونے کے باوجو د بھی بزرگ نے سانپ کو نہیں چھوڑا، وہ سانپ کو جنگل کے اس حصے میں لیکر آئے جو آگ سے بچا ہوا تھا۔ انہوں نے سانپ کو ہریالی والی محفوظ جگہ پر چھوڑا اور سانپ فوراً رینگتا ہوا جھاڑیوں میں کہیں گم ہوگیا۔ نوجوان سے یہ سارا منظر دیکھ کر رہا نہیں گیا اور بزرگ سے بولا، “استاد محترم! میں معذر ت خواہ ہوں مگر آپ کا شاگرد ہونے کے ناطے ،میں یہ پوچھنے پر حق بجانب ہوں کہ آپ سانپ کی فطرت سے واقف ہیں، پھر بھی آپ نے اسے وہاں سے اٹھایا اور محفوظ جگہ پر منتقل کیا، بدلے میں اس سانپ نے آپ کو ڈس لیا۔ تو آپ کو اس سب سے کیا حاصل ہوا۔”

بزرگ یہ سن کر مسکرائے اور بولے بیٹا میں جانتا تھا کہ تم اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ سوال ضرور پوچھو گے۔ تو سنو بیٹا یہ سانپ کا ڈسنا اصل میں سانپ کی جانب سے شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ کیونکہ سانپ کے پاس دینے کے لئے اس کے علاؤہ اور کچھ نہیں ہے۔ یاد رکھو ! سانپ کی فطرت رکھنے والے لوگ ہماری اصل زندگی میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ ہم اپنی زندگی میں برے وقت میں لوگوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں،اپنے ہاتھ زخمی کرکے ان کے راستے سے کانٹے پرے کرتے ہیں اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ مگر جب ان کا برا وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ سب سے پہلا کام جو کرتے ہیں وہ یہ کہ وہ ہمیں سانپ کی طرح ڈس لیتے ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہو تو اپنے دل کو سمجھا لینا کہ یہ ان کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے کیونکہ یہ لوگ ڈسنے کے علاؤہ ہمیں کچھ اور نہیں دے سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھار لوگوں کا ڈسنا ہمارے وجود کے ساتھ ساتھ ہماری روح کو بھی زخمی کر دیتا ہے اور ہمارے دل میں دوبارہ کسی کی مدد کرنے کی چاہ باقی نہیں رہتی۔ مگر بیٹا ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ خلق خدا کی خدمت اور محبت میں ہی اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی پنہاں ہے۔جس طرح میں نے تمہیں سوال کرنے سے منع کیا تھا۔ اسی طرح تم بھی بنا کسی مطلب کے لوگوں کی مدد کرتے رہنا۔ کیونکہ بیٹا انسان کسی کا احسان مانے یا نہ  مانے مگر اللّٰہ پاک نیکی کا بدلہ ضرور دیتے ہیں۔اس لیے ہمیشہ چپ چاپ لوگوں کی حتیٰ الامکان مدد کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ اللہ پاک ہم پر اپنی رحمت کا سایہ ہمیشہ برقرار رکھے۔ اور سب سے ضروری بات بیٹا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول ہمیشہ یاد رکھنا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے   بچو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply