“روز مرہ کی نفسیات” ایک فکری شعور/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

خدا نے کائنات میں انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے۔اسے سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کی حس عطا کر رکھی ہے۔جن معزز خواتین و حضرات کے پاس تخلیق، تحقیق اور تنقید کا توڑا ہے ان کا شیرازہ اس چراغ کی مانند ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی مہیا کرتا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ دنیا میں جیسے جیسے علم کی روشنی پھیلتی گئی اسی تیزی کے ساتھ علوم کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔پھر وقت ذرائع اور ریسرچ نے ان کی مزید شاخوں کو علوم میں تبدیل کر دیا۔یہ سلسلہ تواتر و تسلسل کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے۔انسان کی مسلسل تحقیق و جستجو نے اسے منفرد مقام عطا کیا ہے۔اوج ثریا پر فائز کیا ہے۔بدلتی رتوں اور آبادی کے خاطر خواہ اضافے نے بنی نوع انسان کے لیے کچھ نئی راہیں بھی کھولی ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا وقت نکال کر اپنی دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر روز نت نئی دریافتوں اور ایجادوں کے بارے میں آگاہی ملتی ہیں۔ اگر ہم اپنی سو سالہ پرانی تاریخ کا جائزہ لیں تو دنیا کے حالات کچھ اور تھے۔جب کہ عصر حاضر میں جو سہولیات میسر ہیں۔ماضی میں ان کا فقدان تھا۔انسان سائنسی ایجادات کے بارے میں سن کر حیرتوں کے جہان میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ویسے یہ دنیا بھی کمال کا امتحان ہے جہاں انسان کو طرح طرح کے تجربات و مشاہدات کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔
تب کہیں جا کر وہ شواہد و حقائق کو منظر عام پر لاتا ہے۔قدرت نے ہر انسان کو طرح طرح کی نعمتیں اور صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں۔ وہ انہیں بروئے کار لا کر ترقی کے اہداف و مقاصد حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف مزاج و عادات رکھتا ہے۔ وہ مختلف شعبہ جات سے وابستہ ہے۔مثلا کوئی سائنس کا طالب علم ہے۔کوئی طب کی تحقیق میں مصروف ہے۔کوئی انجینرنگ کے فن دکھا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے۔کوئی علم و ادب کی ترویج میں سرگرم ہے۔طبی اور زرعی ماہرین خوراک اور میڈیسن کے ذرائع میں شب و روز مصروف ہیں۔الغرض ہر انسان کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے۔ وہ اپنے درخشاں مستقبل کے لیے پریشان ہے۔جدوجہد کی چکی میں پس رہا ہے۔ان سب حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد اگر علم نفسیات کے متعلق یہ بات کہی جائے کہ یہ ایک شفاف اور ہنگامی بنیادوں پر معلومات فراہم کرنے والی انوکھی سائنس ہے۔ جو ذہن اور کردار کا مطالعہ کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی ہے۔ تاریخ ادب میں جن ماہرین نفسیات کا نام زبان زد ہوا۔ان کے نام مندرجہ زیل ہیں۔ مثلا بقراط ، ارسطو ، جان لاک ، ڈیکارٹ ، فرانسس گلٹن ، ولیم وونٹ ، سیگمنڈ فرائڈ، ولیم جیمز ، کارل یونگ ، الفریڈ اڈیلر ، جان واٹسن ، زین پیازے اور کیرن ہرنائی قابل ستائش نام ہیں۔انہوں نے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے جبلت اور ماحولیاتی اثرات کا بغور مشاہدہ کر کے نفسیات کی صاف صاف تصویر پیش کر دی ہے۔ اس وقت کرہ عرض پر اربوں انسان قیام پذیر ہیں۔ہر انسان اپنے اندر الگ الگ خصلت رکھتا ہے۔”جیسے ہر پھل اپنے ذائقے اور تاثیر میں منفرد ہے اسی طرح ہر انسان اپنی عادات اور کردار میں الگ الگ ہے”۔ ایک ماہر نفسیات کو نہ جانے کتنے دشوار راستوں پر سفر کر کے علم نفسیات کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔حالات کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔منفی محرکات کو شکست دینا پڑتی ہے۔وسائل کی تلاش کرنا پڑتی ہے۔تب کہیں جا کر انسان اپنے ارادوں اور جذبوں میں کامیاب ہوتا ہے۔علم نفسیات چونکہ ایک وسیع مطالعہ سائنس ہے جس میں قلب و ذہن کی پوشیدہ حرکات کی پیمائش کرنا پڑتی ہے۔ولیم ہاروے نے “سائیکالوجی” لفظ استعمال کر کے ایک نئے جہان کی تلاش میں گم کر دیا ہے۔اگرچہ وقت کا عصا انصاف کی درست تاریخ لکھتا ہے۔ حقائق کا شجرہ تیار کرنے کے لیے معاشرے کے رسم و رواج اور اخلاقی امراض کی نشاندہی کرنا پڑتی ہے۔ تب کہیں جا کر درست اعداد و شمار کا تعین ہوتا ہے۔
دنیا میں اس وقت بھی ہزاروں لوگ سائیکالوجی کی مہارتیں سیکھنے میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ ان تربیت یافتہ ناموں میں ایک سنہرا نام صادقہ نصیر بھی ہے۔جس نے اپنے فن، شعبے، علوم اور مضمون کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔اس کی ریاضت اور محنت اس بات کی گواہ ہے کہ ان کے قلب و ذہن سے علم و ادب کے پھوٹنے والے چشمے بہتوں کے ذہنوں کو سیراب کرتے ہیں۔ ہم سب ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ان کے مضامین تحقیقی نچوڑ کا عمدہ ثمر ہیں۔ انہی مضامین کی روشنی میں انہوں نے
“روز مرہ کی نفسیات” ایک فکری شعور کا چراغ روشن کیا ہے۔وہ اپنے اندر صفات کا ذخیرہ رکھتی ہیں۔ مصنفہ کی شخصیت کے پروں میں شاعرہ ، ادیبہ ، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری کی روح زندہ ہے۔ ان کے فن و شخصیت کو چار چاند لگانے والے وہ مضامین ہیں جن کی تازگی ، ٹھنڈک اور راحت محسوس کی جا سکتی ہے۔اگرچہ دنیا میں ہر چیز اپنے اندر مثبت اور منفی پہلو رکھتی ہے۔یہ سوشل میڈیا کی کرم نوازی ہے کہ اس نے لاکھوں میل دور رہنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ایک دوسرے کی دلچسپی اور غیر دلچسپی کے بارے میں آگاہی فراہم کی ہے۔ مصنفہ کے ساتھ میری ملاقات کا سبب یہی سوشل میڈیا ہے جس نے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع عطا کیا ہے۔ خیر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قلم قبیلہ اپنے ہم عصروں کی تلاش کر لیتا ہے۔میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے صادقہ نصیر کے مضامین کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کی سب مضامین قابل رشک ہیں جو اپنے اندر فکری شعور کی ان گنت دلیلیں رکھتے ہیں۔انہوں نے بغیر رنگ نسل اور مذہب کے نفسیاتی عوارض کو چابک دستی کے ساتھ صفہ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ ان کے لفظوں کا چناؤ آسان ہے۔ قاری کی دلچسپی بڑھاتا ہے۔ مثبت سوچ کی غذا مہیا کرتا ہے۔ ادبی جہان میں ایک نئی کرن کا اضافہ ہوا ہے۔کتاب کے مطالعہ کے بعد مجھے لکھتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے ان کے ہاتھ ادب کی مہندی سے رنگے ہیں۔ ذہن فکری شعور کی عکاسی کرتا خیالات کو قلم بند کرتا ہے۔دل انسانیت کے درد سے دھڑکتا ہے۔ انہوں نے پاکستانی بیٹی ہوتے ہوئے علم نفسیات کو جس حقیقت، اثر قبولیت اور انسانیت کی ترجمانی کرتے ہوئے نفسیاتی امراض کی نشاندہی کی ہے۔
وہ متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ عملی مشق سے بھی بھرپور ہیں۔انہوں نے جس تحقیق ، محنت اور ریاضت سے کتاب کو پایا تکمیل تک پہنچایا ہے۔یہ ان کا حوصلہ ، فراخ دلی اور انسانیت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لہذا ان کے متعلق یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ وہ ایک ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن بھی ہیں جن کی رگوں میں پاکستان کی دھرتی کا خون دوڑتا ہے۔کینیڈا میں مقیم ہونے کے باوجود بھی وہ پاکستان سے محبت کرتی ہیں۔روز مرہ کی نفسیات 21 ابواب پر مشتمل کتاب ہے جو قائرین کے دلوں پر گہرے نقوش مرتب کرتی ہے۔ ان کا لکھا ہوا ایک ایک مضمون نفسیاتی عوارض کی کھل کر نشاندہی کرتا ہے۔
مثبت رحجانات کے فروغ میں اہم پیشرفت کرتا ہے۔
دوسروں تک علم پہنچانے کے لیے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے ضبط تحریر شورو آگاہی کا معتبر طریقہ ہے جو تاریخ کہ ساتھ ساتھ سرھار کا کام بھی دیتا ہے۔اس ضمن میں مصنفہ نے خود خار راستوں پر چل کر اپنی قائرین کے لیے ایک ہموار راستہ بنایا ہے ۔شعور اور لاشعور کے درمیان فرق واضح کر کے عوام الناس کے ہاتھوں میں حکمت و معرفت کی کنجیاں عطا کر دی ہیں۔ اگر ایک صحت مند انسان ان کی تخلیقی، تحقیقی اور نفسیاتی کاوش سمجھ لے تو اسے نفسیاتی عوارض سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔بلکہ وہ ان خامیوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور نالائق حرکات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرے گا جس نے اس کے ذہن کو جکڑ رکھا ہے۔
بلکہ وہ دوسروں کو بھی ان بدروحوں سے آزاد کروانے کی کوشش کرے گا۔میں فاضل مصنفہ کو ان کی لازوال تخلیق پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے جس عقیدت و محبت کے ساتھ ماہر نفسیات ہونے کا حق ادا کیا ہے۔وہ قابل فخر کاوش ہے۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ انہوں نے زندگی کی باریک رگوں کی سرجری کر کے نہ صرف ذہنی بیماریوں کے جراثیم تلف کیے ہیں بلکہ بیمار جسم کو تندرست رہنے کی عادت بھی ڈال دی ہے۔میں ان کی اصلاحی فلسفے کو انسانیت کا پرچم قرار دیتا ہوں جس کے سائے میں اکٹھے ہو کر اس بات کا اقرار کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے معاشرے میں جن بیماریوں، الجھنوں، قباحتوں اور ذہنی امراض کو ہو بہو دیکھا۔انہیں اپنے فرض میں شامل کر کے ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ معاشرہ امن اور محبت کی راہ پر گامزن ہو سکے۔کتاب کے عنوان جس قدر گہرے اور منطقی نوعیت کے ہیں۔انہیں پڑے بغیر روح اطمینان کا سانس نہیں لے سکتی۔آخر میں اس ماہر نفسیات کے لیے اس دعا اور ایمان کے ساتھ کہ جب تک ان کی سانسیں وجود تن ہیں وہ علم و ادب کی ترویج اور اور نفسیاتی عوارض کو اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کم کرنے میں ہر ممکن کوشش کرتی رہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply