کسی چیز کی اصل اور اصل کی حالات و واقعات کے پیش نظر اثر پزیری دو مختلف معاملات ہیں۔ اصل دراصل کچھ نہیں ہے۔ اصل مغلوب ہے۔ یہی وجہ ہے تہذیب مذہب اور دیگر فورس مشینریز جب ثقافتی و سماجی و اقتصادی و تاریخی ادوار سے گزرتی ہیں ناگزیر تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں۔ اگر بہتر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں تو انسانوں کی کامیابی ہے اور اگر انسانوں نے نہیں سیکھا تو ناکامی ہے۔ ہم بہترین ہیں اور خدا صرف ہمارا ہے جو آج بھی سن رہے ہیں اور جس وجہ سے جنگ اور نسل کشی ہو رہی ہے بھی انسانیت کی ناکامی ہے۔ اب بھلے قبضہ بھی ہو جائے انسانوں کی واپسی ممکن نہیں ہے اور ان کا جذباتی نقصان ایک الگ نقصان ہے۔ روایات جو دراصل کبھی وقت کا تقاضا تھیں اور جدیدیت ہی کی شکل تھیں موجودہ جدیدیت (جدید روایات) یا تقاضوں کو متاثر (influence) کرتی ہیں اور یہ اثر آہستہ آہستہ فطری بنیادوں پہ زائل ہونے لگتا ہے اس لیے اگر کوئی چیز قائم ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے اسے بہرحال لچکیلے پن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے جس کے بہرحال نتائج ہیں۔ قائد کی تعریف و توصیف ہی لچکیلا پن ہے (flexibility to the greatest extent possible)۔ ارتقائی سفر انتہائی فطری بنیادوں پہ قائم ہے اور جس سے انکار دراصل ممکن نہیں ہے۔ یہ سفر دھوپ میں رہے تو ایک نتائج ہیں اور بارش میں ہو تو دوسرے نتائج ہیں اور اگر اس سفر میں بارش اور دھوپ دونوں کا شمار ہے تو بھی سفر بہرحال جاری ہے اور اگر بارش میں چھتری بھی نہیں ہے تو بھی نتائج ہیں اور اگر اس سفر میں بہار خزاں سردی گرمی سب شامل ہے تو بھی نتیجہ اٹل ہے اور نتیجہ ڈھونڈتے ہوئے عوامل ڈھونڈنا بھی شعور ہے چونکہ عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں