کسی بھی شخصیت کو سمجھنے ،پرکھنے ، اس کے افکار و نظریات کو جانچنے کے لیے اس کے عہد سے باخبر ہونا ناگزیز ہے۔
اُس عہد میں کیا تہذیب غالب تھی؟ اس عہد کے لوگوں کا قلبی و روحانی میلان کس طرف تھا۔اس عہد کے بادشاہ و امراء کیسے تھے۔کن حالات میں کیسے اپنے مقصد و مراد کو پانے کےلیے کوششیں کیں۔
لہذا اس عظیم فقیہ و عارف مصلح و مجدد زماں کے بارے میں لکھنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ اس عہد کے بارے میں کچھ سطور لکھوں تاکہ اُس زمانے کی ضروریات سے قارئین واقف ہوں۔
نویں صدی ہجری طوائف الملوکی کا دور تھا۔ہر لحاظ سے بدنظمی ابتری ،سیاسی انتشار ، لاقانونیت کی فضا قائم تھی۔ مغلوں ،تاتاریوں،تیموری خاندان کی یورشوں ،فقہی و کلامی مکاتب کی تقسیم بندی ،جدی پشتی بادشاہوں کے ظلم و ستم کے عہد میں “قائن “نامی دور افتادہ گاؤں سے سید محمد بن محمد عبد اللہ”٧٩۵_٨٦٩ ” نامی اک جوان اٹھتا ہے۔جو مرور زمانہ کے ساتھ سید محمد نوربخش قھستانی، لحصوی کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے۔
امام محمد غزالی (۴۵٦۔۵٠۵)کی آپ بیتی “المنقذ من الضلال”پڑھنے کے بعد مصلح کبیر امام انقلاب سید محمد نوربخش رح اور امام غزالی کے درمیاں اک عجیب مماثلت نظر آتی ہے۔دونوں علوم عقلی و نقلی کے ماہر ، دونوں کو علوم ظاہری سے فراغت کے بعد بھی وہ اطمینانِ قلبی حاصل نہیں۔دونوں جستجو و طلب حق کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔اک نظام الملک کے دربار میں نہایت اعلیٰ مقام و منزلت ،عزت و شہرت ،جامعہ نظامیہ کے صدارت پانے کے باوجود وطن ،حلقہ احباب،عزت و شہرت سب کچھ چھوڑ کر دمشق کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔مسلسل دس سال گوشہ نشینی و تزکیہ نفس کے مراحل طے کرنے کے بعد فلسفہ یونان و منطق کی جڑوں پر کلہاڑی رکھتے ہوئے “احیاء علوم الدین”کے نام سے سلوک و تصوف، اخلاق اسلامی کو اک نئی جہت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اِدھر امام نوربخش رح “قائن “نامی گاؤں سے نکل کر مختلف شہروں،قصبوں کی خاک چھانتے ہوئے ،مختلف استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے ہوئے علم و دانش کی خوشہ چینی کرتے ہوئے موجودہ افغانستان کے شہر ہرات پہنچ جاتے ہیں۔کسی اللہ والے سے اتفاقاً ملاقات ہوجاتی ہے۔اُس سے حضرت خواجہ اسحاق ختلانی رح کے بارے میں معلوم ہو کر سیدھا خواجہ اسحاق ختلانی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔جو شخص عرصہِ دراز سے مرشد و مربی کی تلاش میں سرگرداں ہو، اُسے اور کیا چاہیے۔درِ خواجہ اسحاق ختلانی پر پہنچتے ہی زندگی بھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔اپنے مرشد سے روحانی فیوضات و خرقہ حاصل کرنے کے بعد “ان اللہ امرنی ان ارفع الاختلاف “انا مامور برفع البدعة”کے نعرے بلند کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔اور اس وقت کے طاقت ور ترین بادشاہوں کے خلاف برسرپیکار ہو کر اپنی خلافت و امارت کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میری طبیعت پر عجب کیفیت طاری ہے۔غم و خوشی کی ملی جلی کیفیت سے دل پھٹا جارہا ہے۔اس عہد کے مناظر اور عصر حاضر کے نوربخشیوں کے حالات آنکھوں کے سامنے رقصاں ہو کر طبعیت اُداس کررہے ہیں۔وہ عہد بھی کیا عہدِ زرین تھا۔جب بدخشاں سے لے کر ماوراالنہر کے کنارے تک اس مصلح و مجدد کے متوالے تھے۔تیموریوں کے درباروں سے لے کر عامة الناس کے دلوں تک امام نوربخش رح کے مریدین کا نفوذ و رسوخ تھا۔ جب ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے جاتے تھے۔تنگ و تاریک زندانوں میں بند کیے جاتے تھے۔پھر بھی اعلاء کلمہ حق ،ابطال باطل ،احقاق حق،قرآن و سنت کی بالادستی ،بدعات و خرافات کی قلع قمع کرنے سے ذرہ بھر پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔یہ سچ ہے کہ کسی بھی نظریے کو پنپنے کےلیے کسی بھی مذہب و مسلک کی بقا کےلیے ہر دور و ہر عہد میں کچھ شخصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔جو علم ،عمل ،اخلاق اور ہنر کے لحاظ سے اپنے عہد میں لائق و فائق ہو۔جو اپنے تن ،من ،دھن اپنے مقصد و مراد کےلیے قربان کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں