ظلم کا نظام/نصیر اللہ خان

یہ ظلم کا نظام کب تک چلتا رہے گا؟ کب حقیقی آزادی کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچیں گے؟ انتظار حسین پنجوتا ایڈووکیٹ کے ساتھ جو ظلم ہوا، جس طرح رات کی تاریکی میں اس کو پولیس نے اٹھایا، پولیس جس طرح ان سے انٹرویو لے  رہی ہے کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ صوبائی تعصب کو  ہوا دینے کیلئے مضحکہ خیز سوالات کیا معنی رکھتے ہیں؟۔ پولیس والے نے نام پوچھا نام کیا ہے اس نے کہا” انتظار” تو پولیس والے کہتے  کہ انتظار حسین ہیں” کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
کیا ریاست پھر بھی اس کے لئے تاویلیں پیش کرے گی؟ یہ فسطائیت کی انتہا ہے۔ قائد عمران خان، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، عمران ریاض، ارشد شریف مرحوم، مراد سعید اور دیگر حقیقی آزادی کے قیدیوں کے حق میں آواز اٹھانا وقت کا اہم تقاضا بن چکا ہے۔

ملٹری ٹرائل کے انتظار میں سینکڑوں کارکنان کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑ رہی ہیں۔ ریاستی ادارے کبھی پُرامن دھرنے پر اوپن فائر شروع کردیتے ہیں اور کبھی ملک کی شاہراہوں کو قید خانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ ریاست اور اس کے اہلکار قانون اور آئین کی پاسداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں، جبکہ عوام غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ علاقائی تعصبات اور مذہبی گروہ بندی نے شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، اور مذہبی جنونیت نے قوم کو ذہنی مفلوج کر دیا ہے۔ تعلیم، صحت اور عدالتی نظام زوال پذیر ہیں۔ رشوت اور سفارش کا کلچر رائج ہو چکا ہے، اور سیاست کرپشن کے بغیر ناممکن  ہو  چکی ہے۔ بنیادی حقوق کی کوئی گارنٹی نہیں، اور نہ ہی مال و جان محفوظ ہیں۔ پالیسی پر تنقید کرنے والے کو فوراً غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

ملک کا مسئلہ صرف ایک نہیں، بلکہ بڑی جماعتوں کے بھیس میں چور اور لٹیرے براجمان ہیں۔ سول اور ملٹری دونوں طرف کرپشن اور فرعونیت کا غلبہ ہے۔ اعلیٰ عدلیہ بے بس ہے اور شہریوں کے حقوق کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ وکلاء برادری کئی گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کہیں آئی ایل ایف ہے، کہیں ایم ایل ایف، کوئی سیاسی ہے تو کوئی غیر سیاسی۔ یہ تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ بار کونسل کی آواز بھی بٹ چکی ہے۔ پاکستان بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن خوف زدہ ہیں۔ دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وکلاء ڈبل گریجویٹ اور معاشرے کی کریم ہیں، لیکن ڈاکٹرز، انجینئرز اور مزدور تک بھی اپنی آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں، اور جو بھی طاقتور آواز اٹھاتا ہے اسے غائب کر دیا جاتا ہے۔

جب ہائی کورٹ لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیتی ہے تو انہیں کبھی ایک دن، کبھی دوسرے دن مار پیٹ کر چھوڑا جاتا ہے۔ یہ سب ایک تماشا بن چکا ہے؛ میمز بنتی ہیں، مذاق ہوتا ہے، کچھ آنسو بہتے ہیں اور پھر معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ جو اس سب کے ذمہ دار ہیں، ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ ججز جو آواز اٹھاتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، اور طاقتور آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہاں قانون، آئین، پارلیمنٹ اور عدالت موجود ہیں، لیکن حقیقت میں یہاں کچھ بھی نہیں سوائے فسطائیت، جبر اور استحصال کے۔

عالمی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں نے اس ملک کے بے گناہ عوام کو اپنی مرضی کے غلاموں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم گروہوں میں بٹے ہوئے، ایک منتشر قوم بن چکے ہیں، اور معیشت تباہ حال ہے۔ ہم شدید مشکلات کا شکار ہیں اور حقیقی آزادی کے منتظر ہیں۔

جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو، اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے؛ اس میں اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ، عدلیہ، اور انتظامیہ سب شامل ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بے گناہ افراد کو سزا دی جا رہی ہے، جبکہ مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ ایک معصوم کی جان لینا سنگین ظلم ہے اور قاتل کو بے نقاب کرنا ریاست کا فرض ہے، جو انصاف کو یقینی بنانے کے بجائے اس کے بنیادی اصولوں سے منہ موڑے ہوئے ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران اپنی لوٹی ہوئی دولت اور اقتدار کو بچانے میں لگے ہیں، جبکہ عوام اور وکلاء اپنے حقوق سے محروم ہو چکے ہیں۔ حالیہ واقعہ، جس میں انتظار حسین پنجوتا اور دیگر معصوم افراد کو نشانہ بنایا گیا، ثابت کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ملک کو جنگل   بنا دیا ہے۔

پی ٹی ایم کے جرگے میں بے گناہ لوگوں کی شہادت اور ریاستی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ اس ریاست میں انصاف اور آئین کی باتیں کرنا اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ عام شہری اور مزدور بے یارو مددگار ہیں اور انہیں انصاف کا کہیں میسر نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ طاقتور حلقے عوامی حقوق کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم اس ظلم اور جبر کے خلاف کھڑے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین و قانون کا نفاذ یقینی بنایا جائے، اور ہر شہری کو انصاف فراہم کیا جائے تاکہ یہ ملک امن اور حقیقی آزادی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply