کمسنی کی سب یادیں ذہین سے محو ہونے ہونے کے باوجود 1915 میں پندھارپور پیدا ہونے والے مقبول فدا حسین کو اپنا جنم دن کئی حوالوں سے بلاواسطہ طور پر ساری زندگی یاد رہا۔حسین صاحب کچھ ماہ کم ایک سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔مگر ساڑھی میں چہرہ لپیٹے خاتون حسین کے ہر کینوس پر ماں کے روپ میں ہمیشہ کے لیے جاوداں ٹھہری۔
یادوں کے بھنور میں ماں کے جنازے کے علاوہ گھر سے اٹھنے والے ایک اور لاشے نے بھی حسین کو عمر بھر دل گرفتہ رکھا۔وہ جس کی انگلی پکڑ کر ایم۔ایف۔حسین نے گھر آنگن میں پہلا قدم بھرا تھا۔جو اپنی خشک اور لٹکتی ہوئی چھاتی سے حسین کو پہروں لپٹاۓ رکھتی۔حسین اپنی دادی کی غیر مشروط محبت کو آخری عمر تک فراموش نہ کرسکے۔
گھر میں غربت کے اندھیرے کو مٹانے میں ناکام رہنے والے حسین کے داداعبدل لالٹین بنا کر اپنے کنبے کے لۓ دو وقت کی روٹی مہیا کرتے۔وہ خاموشی کے ساتھ ایک ردھم میں لوہے کی چادر پر سارا دن ہتھوڑاچلاتے رہتے۔ان کا خاموش وجود گھر میں مہربان ساۓ کا احساس دلاتا۔جبکہ مقبول کے والد فدا حسین روزگار کے سلسلے میں اندور مقیم تھے۔
مقبول فدا حسین اخباروں اور کتابوں سے تصویریں تراش کر قلم کےذریعے ان کے چہروں کے نقوش میں رد و بدل کر کے مسرور رہتا۔
عبدل اپنے پوتے مقبول کے ساتھ ایک روز اندور جانے والی بس میں سوار بیٹے فدا حسین کے گھر پہنچا۔دادا اور پوتا سارا دن اندور کی سڑکوں پرگز بنے پھرتے۔جبکہ گھر میں حسین صاحب کی سوتیلی والدہ مہندی اور عطر کی خوشبو میں رچی ہوئی سارا دن میاں کی آمد کے انتظارمیں چوڑیاں کھنکھناتی ہوئی کام میں مصروف رہتی۔
اپنے دادا اور بہترین دوست کے رزق خاک ہونے کے بعد حیات کی طویل شاہراہوں پر حسین صاحب رنگ پچکاری کے سہارے دشوار سفر طے کرناچاہتے تھے۔جبکہ حسین کے والد ان کو درزی یا نقشہ نویس بنانے کے خواہاں تھے۔
باقاعدہ تعلیم کے لۓ حسین صاحب کو سوتیلے نانا کے پاس سید پور بھیجا گیا جو ایک مدرسے کے ناظم تھے۔صبح چار بجے سے حسین صاحب عشا کی نماز تک وقفے وقفے سے قرآن حفظ کرتے جبکہ فارغ وقت میں پھولوں کی کیاریوں کے قریب پتھروں اور ٹوٹے ہوۓ برتن کے ٹکڑوں سے نقش و نگار بنانے میں مصروف رہتے۔سید پور اور برودا کے دارالطلبا سکول میں کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد حسین صاحب واپس اندورآۓ تو پورا گھر سوتیلے بہن،بھائیوں کی آوازوں سے گونجتا تھا۔تمام عمر حسین صاحب اپنی چھوٹی بہن دلبر کی دلداری کر کے مسرور ہوتے رہے۔
حسین صاحب اب کسی بھی مکتب و مدرسے کی بجاۓ صرف رنگوں اورنقش ونگار میں دسترس پانا چاہتے تھے۔بیٹے کا شوق دیکھتے ہوۓحسین کے والد نے ان کو مبلغ پندرہ روپے کا کیمرا خرید دیا۔گلے میں کیمرا لٹکاۓ گھر میں کام کرنے والی خاتون کی بیٹی بتول کو حسین نےاپنے سائیکل کے ڈنڈے پر سوار کیا اور پیڈل مارتے ہوۓ نو لکھا باغ پہنچے۔کسی لڑکی کی جسمانی قربت دل میں طوفان برپا کیے ہوۓ تھی ،حسین نے اس روز پورا رول بتول کی تصویریں بنانے میں صرف کیا۔بتول کی یہ تصاویر کسی کو دکھانے سے حسین صاحب عمر بھرگریزاں رہے۔دوسرے روز حسین صاحب نے کیمرا اپنے دوست پربھاس کوتھمایا اور لینز کے سامنے جھاڑیوں سے خود برہنہ نمودار ہونے کے بعد پربھاس کو کہا اب بٹن دبا دو۔تمام دوست مدتوں یہ کسی نازک اندام حسینہ کی پشت کی تصویر سمجھتے ہوۓ آنکھوں کا وضو کرتے رہے۔ہربار یہ واقعہ سناتے ہوۓ حسین صاحب کے باریک ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ بھولے بسرے بچپن کی بازگشت معلوم ہوتی۔
غربت کے باوجود حسین کے والد خاندان میں میٹرک کرنے والے پہلے فردتھے۔وہ انگریزی معاشرت سے متاثر مغربی لباس پہنتے اور شام کو دوستوں کے ساتھ ٹینس کھیلتے۔حسین صاحب کو انگریزی سکھانےکے لۓانہوں نے اپنے دوست فرحت سے رجوع کیا۔حسین صاحب جلدانگریزی میں رواں ہو گئے۔حسین صاحب کے دوست یاور حسین انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔حسین صاحب کی درخواست پر کالج انتظامیہ سے خصوصی اجازت ملنے کے بعد وہ بھی اپنے دوست یاور کے ساتھ لیکچر کے دوران بیٹھ سکتے تھے۔حسین صاحب نے ایک روز دوسری کتابوں کی ورق گردانی کے بعد فرحت کی چمڑے کی ڈائری کھولی تواس میں کئی نیوڈ تصاویر چسپاں تھیں۔ان تصویروں کے دیکھنے کےبعد کئی روز تک سادہ اوراق پر حسین صاحب چہرے کے بغیر وجود کےابھار بنانے میں مگن رہے۔فلموں میں متحرک تصاویر کو سکرین پردیکھنا بھی ان کے من بھاتے مشاغل میں سے ایک تھا۔بچپن کے اس شوق کو برسوں کے بعد انہوں نے خود بھی فلمیں بنا کر پورا کرنے کی کوشش کی۔وہ مشرق ومغرب کے مشہور مصوروں کی تصویروں کی نقلیں بنانے کے علاوہ فلموں کے پوسٹر یا کسی ایک سین کو کاغذ پراتارنے کی مشق کرتے رہتے۔ریاستی سطح پر تصویروں کے مقابلے میں طلائی تمغہ ملنے اور اس وقت کے مشہور مصور این۔ایس بندرے کےکہنے پر حسین کے والد نے گھر کے ساتھ ان کو کمرہ بطور سٹوڈیو کرایہ پر لے کر دیا۔اب حسین صاحب کے شب و روز مصوری کی مشق کرنے کےعلاوہ اردو شاعری،کلاسیکی موسیقی اور ہندو میتھالوجی کے بارےکتابیں پڑھتے ہوۓ بسر ہونے لگے۔حسین صاحب لمبے چوغے کی بے شمار جیبوں میں رنگ اور برش بھرے سارا دن شہر کے مختلف مقامات کےاسکیچ بنانے کے لۓ سائیکل دوڑاتے پھرتے۔
1934 میں حسین صاحب نے بمبئی جے۔جے سکول آف آرٹس میں داخلے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔حسین صاحب کے کالج جانے سے پہلے ان کے والد کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔فن مصوری سیکھنے کی تمنا پروان چڑھنے سے پہلے تمام ہوئی، وہ ماں،باپ اورکمسن بہن بھائیوں کی پرورش کے لۓ روزگار کی تلاش میں بمبئی روانہ ہوۓ۔وقت کا گھڑیال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کاتبِ تقدیر کے لوحِ ازل پر لکھے فیصلے کی کوئی شق سنا کر گردش ایام میں گم ہو جاتا ہے۔
بمبئ آنے کے بعد حسین صاحب چھ آنے یومیہ پر فلم کے پوسٹر پینٹ کرنے والے فنکاروں کے ساتھ کام کرنے لگے۔وہ دن بھر مٹی کے تیل میں رنگ ملا کر کینوس کے سوتی کپڑے پر برش چلاتے اور رات کسی سڑک کنارے ہاتھ پر سر دھرے کروٹیں بدلتے رہتے۔حسین کھچڑی والے کے کھوکھے سے مسلسل ایک سی غذا کھانے کی وجہ سے وہ اکثر بیمار رہتے۔حسین کھچڑی والے کی والدہ تصویر بنوانا گناہ سمجھتی تھیں۔کھچڑی والے حسین نے مقبول فدا حسین سے کہا اگر تم میری ماں کا پورٹریٹ بنا دو تو ایک ماہ کے لۓ تمھیں دو وقت کا کھانا مفت ملے گا مگرشرط یہ ہے کہ میری ماں کو پتہ نہ چلے تم ان کی تصویر بنا رہے ہو۔پورٹریٹ کے بدلے ایک ماہ مفت کھانا حسین صاحب کی بطور مصورپہلی کمائی تھا۔
حسین صاحب تین ماہ میں سینما پوسٹر پینٹ کرنے سمیت لکڑی کےفریم بنانے سے لے کر کینوس لگانے تک سب کچھ سیکھ چکے تھ۔وہ اب انفرادی طور پر کام کرنے کے خواہش مند تھے۔اس زمانے میں نیو تھیٹرکلکتہ کے تحت بننے والی فلمیں سب سے منفرد ہوتیں۔حسین صاحب انکی فلموں کے پوسٹر اور سینما بورڈ بنانے کے لۓ منتخب ہوۓ۔کمپنی کی طرف سے ان کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ روایتی انداز کو یکسرنظر انداز کر کے پوسٹر پینٹ کر سکتے ہیں۔یوں حسین صاحب کو روزگار کے ساتھ ساتھ مصوری میں اپنے منفرد انداز کی نشو ونما کے مواقع میسر آۓ۔وہ فرصت کے اوقات مختلف عجائب گھروں میں رکھےنوادرات اور بتوں کے اسکیج بنانے کے علاوہ والد سے ملنے اندور بھی جاتے رہتے۔
باقاعدہ ملازمت ملنے کے بعد حسین صاحب بمبئی کی سڑکوں پر رات بسر کرنے کی بجاۓ محمودہ نامی شفیق عورت کے گھر بطور کرایے دار رہنے لگے۔فلم زندگی کے ملک بھر کے لۓ پوسٹر پینٹ کرنے کے دوران حسین صاحب نے محمودہ بیگم سے ان کی بیٹی فضیلہ کا رشتہ مانگا۔نکاح کی رسم چند کھجوروں کی ضیافت کے ساتھ سر انجام پانے کے بعد حسین صاحب،فضیلہ خاتون کا ہاتھ پکڑے ایک کراۓ پر لی گئی ایک کھولی کے لۓ روانہ ہوۓ۔کھولی میں فضیلہ کے نرم سانسوں کی آوازسنتے ہوۓ حسین صاحب سہاگ رات کے تحفے کے طور پر فضیلہ کے نام لکھے ہوۓ خط کے بارے تذبذب کا شکار تھے۔کیونکہ برسوں پہلے انہوں نے ایک ایسا ہی خط اپنے دوست کی بہن ثریا کے نام لکھا تھا۔جس کےجواب کے وہ برسوں منتظر رہے۔تقسیم کے ہنگاموں میں ثریا لاہور چلی گئی۔جب بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں حسین صاحب پہلی بارپاکستان آۓ تو وہ ثریا کے گھر بھی گۓ۔ثریا برسوں پہلے مٹی میں مل کے مٹی ہوچکی تھی۔ثریا کے بیٹے نے حسین صاحب کو اپنی ماں کی تصویر دی۔جسے دیکھتے ہوۓ وہ رات بھر رونے کے علاوہ اور کر ہی کیاسکتے تھے۔
پچہتر برسوں کا طویل سفر۔
ایک خط۔
اور بے شمار یادیں۔
مگر کھولی میں فضیلہ حسین اور سرمئی اندھیرے کے علاوہ صرف دو دھڑکتے ہوۓ دلوں کی صدا تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کی تقسیم ناگزیر تھی۔صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندو ،مسلم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا قتلِ عام کر کے شادیانے بجاتے پھرتے تھے۔جبکہ حسین صاحب قائد اعظم،چرچل اور لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہنما علی بہادر جنگ کی تقریریں ذوق و شوق سے سنتے ہوۓ فینٹسی فرنیچر کی فرم میں بچوں کے ساز و سامان پر ہندوستانی لوک کہانیوں کو مصور کرنے میں مصروف تھے۔اسی فرم سے دینا جناح نے بھی اپنے بیٹے کے کمرے کاسامان حسین صاحب سے پینٹ کروایا۔
ہندوستان کے قیام کے بعد دوسرے فنون لطیفہ کے علاوہ لوگ پھر سے مصوری کی طرف متوجہ ہوۓ۔تقسیم اور ہجرت کے المیے نے ہر سطح پر تخلیق کاروں کو متاثر کیا تھا۔47 کے پُر آشوب زمانے کو آزادی سےتعبیر کرتے ہوۓ نوجوان مصور پروگریسو آرٹسٹ گروپ(پیگ) نامی تنظیم کے تحت اپنے فن پاروں میں نویدِ نو کا پیغام دے رہے تھے۔وہ رنگ و مذہب کی تفریق کے بغیر اپنی تخلیقات میں انسانی فلاح اور امن کی شمع روشن کیۓ ہوۓ تھے۔
اسی سال بمبئ آرٹ سوسائٹی نے سی۔جے ہال میں حسین صاحب اور دیگر چند مصوروں کی تصاویر پر مشتمل نمائش کا انتظام کیا۔حسین صاحب نے اسی ہال میں تیس کے عشرے میں امرتا شیر گل کو دیکھا تھا۔جو چہرے پر تبسم اور آنکھوں میں شہوت کے دریا سمیٹے ہر کسی کو دعوت نظارہ دے رہی تھی۔حسین اس زمانے میں وہ ہمت کہاں سے لاتاجو امرتا سے گفتگو کے لۓ درکار تھی۔پیگ کے تحت حسین کی منتخب تصاویر کی نمائش پیرس اور راشٹر پتی بھون میں منعقد کی گئی۔
پچاس کا عشرہ فنی اعتبار سے حسین کے لۓ بہت اہم رہا۔کلکتہ اور بمبئی کے علاوہ دہلی میں ان کے فن پاروں کی نمائش کی گئی جس کا افتتاح جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین نے کیا۔حسین صاحب پروگریسو آرٹسٹ گروپ کے تحت ملک راج آنند کے گھر علی سردار جعفری،کیفی اعظمی،کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس کے ساتھ مجلسوں میں شرکت کرنے کی وجہ سے ترقی پسند سوچ رکھنے والے مفکروں سے متاثر تھے۔
چین کے دورے کے دوران انہوں نے کیمونسٹ نظام حکومت میں مذہب اور سیاست کے مختلف روپ دیکھنے کے علاوہ وہاں کے مشہور مصور چی۔پائی۔شی سے بھی ملاقات کی۔چی کی تصور Thousand horses سےحسین اس قدر متاثر ہوۓ کہ زندگی بھر ان کے ہر کینوس پر گھوڑے کے خدوخال کسی نہ کسی صورت تخلیق کے سانچے میں ڈھلنے لگتے۔
یورپ میں جدید مصوری کی تحریک سے فنون لطیفہ کے سب شعبے متاثر ہوۓ۔حسین جدید مصوری کے میرِ کارواں پکاسو کی بجاۓ پال کیلے سے متاثر تھے۔پچاس کی دہائی میں مبلغ تین ہزار کی پینٹنگز خریدنےوالے حیدر آباد کے بزنس مین بدری ویشال آخری دم تک حسین صاحب کے فن کے طلبگار اور سرپرست رہے۔حسین صاحب رقم ملتے ہی اڑن کھٹولے میں فن و ادب کے مرکز پیرس جا اترے۔جہاں اس وقت ہزاروں مصور کمال فن پانے کی آرزو میں کوشاں تھے۔حسین سین کنارے رواں دواں زندگی کے درمیان نگار خانوں میں مصوری و مجسمہ سازی کے شاہکار دیکھنے میں مگن رہتے۔
پراگ میں حسین صاحب کی مترجم دھیمے مزاج کی ماریا نامی دوشیزہ کم سخن ہونے کے علاوہ مختلف تہذیبوں اور ادیان عالم سمجھنے کے لۓ ہر وقت کوشاں رہتی۔وہ حسین سے ہندو میتھالوجی کے بارے پوچھتی اور حسین مغربی موسیقی اور فلسفے کے رموز جاننے کی سعی کرتے۔دونوں کی قربت جلد محبت میں بدلنے لگی وہ ایک دوسرے کو دیکھ کرگلابی جاڑوں میں پڑنے والی دھوپ کی حدت محسوس کرتے۔پہلی ملاقات کے ایک سال بعد حسین 1956 میں ائیر انڈیا کے لۓ ایک وسیع کینوس پینٹ کرنے دوبارہ پراگ گۓ۔وہ رنگ کینوس پر بھرتے اور آنکھوں کے ذریعے دل میں ماریا کے نقش بنانے میں مصروف رہتے۔جدائی کی پہلی منزل قریب تھی مگر حسین سے لوگوں کے لۓ رفاقتوں میں دوریاں گردش پا کا مؤجب بنتی ہیں۔پراگ سے بمبئی پہنچنے کے کچھ دن بعدوہ پالم کی طہران گاہ سے چیک جانے والے طیارے میں سوار تھے۔وہاں منعقد ہونے والی نمائش کی سب تصویریں حسین صاحب،ماریا کو دان کر کے مسرور تھے۔کچھ عرصے بعد ماریا شادی کرنے کے بعد مستقل طورپر سوئٹزلینڈ جا بسی۔حسین صاحب ثریا کے بعد ماریا کے ساتھ بیتےلمحوں کی انگلی تھامے زندگی کے میلے میں گم ہوۓ۔ماریا کے محبت ناموں کو حسین نے اپنے دوست پال کی موجودگی میں بحرہ عرب کےسپرد کیا۔جسکی موجوں میں رواں دواں وہ پریم پتر شائد آج بھی حسین و ماریا کی ناتمام محبت کے جلترنگ بجاتے ہوں گے۔
سفر کربلا سے حسین کی مضطرب روح نے قرار پایا۔افغانستان کے دورے میں حسین کی ملاقات آسیہ سے ہوئی۔دونوں کو اس بات کا یقین تھا کہ جلد بچھڑنا ہی ان کا مقدر ہے مگر وہ چند روزہ ساتھ کو یادوں کی دیوار پر ہمیشہ کے لۓ رقم کرنے کے خواہش مند تھے۔انہی دنوں ہندوستان میں سفارتی ذمے داریاں نبھانے والے میکسیکو کے مشہور شاعر پاز بھی سرکاری وفد کے ساتھ افغانستان آۓ ہوۓ تھے۔پاز کی شاعری کے دلدادہ حسین ان کو ہندوستان میں قیام کے زمانے سے جانتے تھے۔کابل میں حسین نے پاز کو اپنی انگریزی نظمیں سنانے کے علاوہ انکی شاعری کے مجموعے کو بھی مصور کیا۔
1966 میں کابل و بغداد سے ہندوستان واپسی پر اٹھارہ سالہ نمرتا سے ملاقات نے حسین کے سب کس بل نکال دئیے نمرتا کے قرب کی لگن اورجستجو میں حسین ایک بگولے کی مانند سرگرداں رہتے۔وہ ان کہی باتوں کو تصویروں کے پیراۓ میں بیان کرتے ہوۓ روز اسے خط لکھتے۔اسکی آواز سننے کی آرزو میں وہ پہروں ٹیلی فون کی گھنٹی کے منتظررہتے۔انڈین فلم انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر حسین نے اسی برس گاۓ،چھتری اور لالٹین جیسی ساکن اشیا کو کردار کے طور پر منتخب کرکے ایک تجرباتی فلم بھی بنائی جسے بین الاقوامی انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔
نیویارک سے 1968 میں چھپنے والی کتاب نے حسین کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ وہ پہلے ہندوستانی مصور تھے جن کے بارے کسی بین الاقوامی پبلیشر نے رنگین تصاویر پر مشتمل جہازی سائیز کی کتاب چھاپی۔نہرو گاندھی خاندان کئی نسلوں سے حسین صاحب کے فن کا قدردان تھا۔حسین نے پنڈت نہرو کے کہنے پر ان کا پورٹریٹ بنایاتھا،اندرا گاندھی کے عہد حکومت میں حسین صاحب کسی بھی وقت وزیراعظم ہند کے ساتھ نجی طور پر ملاقات کر سکتے تھے۔مگر حسین نے آزاد شہری ہونے کے ناطے ایمرجنسی کے اقدام کے خلاف پینٹینگز کی ایک پوری سیریز بنائی۔جن دنوں حسین دل کے عارضے میں مبتلا دہلی کے ایک ہسپتال میں مقیم تھے وزیر اعظم راجیو گاندھی بغیر پروٹوکول کے اُن کی بیمار پرسی کے لۓ آۓ۔
پیرس کی مشہور زمانہ São Paulo biennale نمائش میں حسین اورپکاسو کی تصاویر کو ایک ساتھ آویزاں کرنے کے فیصلے کے بعد ہندوستان اور بیرونی دنیا میں حسین کی مقبولیت اور مانگ میں اضافہ ہوا۔دنیا کے دو مشہور نیلام گھروں میں ان کے فن پاروں کی سب سے زیادہ قیمت لگائی گئی۔نمرتا اس سفر میں حسین کے ہمراہ تھی مہابھارت اور رامائن پر مشتمل پینٹینگز کے ساتھ وہ ایک شام خوشبواور روشنیوں میں نہاۓ ہوۓ پیرس پہنچے۔ہندوستانی سفیر کی اناپسند شخصیت کے سامنے عظیم مصور کیسے سرنگوں ہوتا۔حسین صاحب نے پیرس میں ہندوستانی سفارتخانے میں رہائش رکھنے کی بجاۓ وہاں کی معروف کاروباری شخصیت اور فنون لطیفہ کے سرپرست ریبونڈ کے بنگلے میں رہنے کو ترجیح دی۔ریبونڈ نے اپنے سماجی تعلقات کو استعمال کرتے ہوۓ پورے یورپ میں حسین کے فن کو متعارف کروایا۔پیری کارڈن سے بھی حسین کے تعلقات ریبونڈ کی وجہ سے استوار ہوۓ۔اسی کی دہائی میں پیری کارڈن نے نیویارک میں حسین کی پینٹیگز کی نمائش کا اہتمام اس اشتہار کے ساتھ کیا کہ اس شومیں کوئی بھی فن پارہ براۓ فروخت نہیں ہو گا۔یہ اشتہار پڑھنے کے بعدلوگوں کی کثیر تعداد نے گیلری کا رخ کیا۔
عمر عزیز کی ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد حسین کا اضطراب،ناموری اور فن تو اپنے کمال کو پہنچا مگر ڈھلتی ہوئی عمر کے کچھ اپنےتقاضے بھی ہوتے ہیں۔وہ بدن کی رفاقتوں کے علاوہ روح کے ساتھی کےبھی متلاشی تھے نمرتا اور ماریا عمرِ گزشتہ کی حکایتیں تھیں۔ناہیدکے نازک ہونٹ،ستواں ناک اور جسم کے دلفریب خدوخال کے علاوہاردو،انگریزی اور ہندی پر اس کی دسترس سے بھی حسین صاحب متاثرتھے۔وہ بمبئی کے سماجی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت تھی۔اس کے شوہر ایک معتبر عہدے پر فائز تھے حسین صاحب کے لۓ ناہید نےاپنے گھر میں ایک الگ کمرہ مختص کر رکھا تھا۔نیت شوق بڑھاوا دیتی تو حسین صاحب کینوس اور برش چھوڑ کر ننگے پاؤں ناہید کے بنگلےکی طرف چل پڑتے۔
ساری زندگی رنگوں سے کھیلنے والے حسین کے اندر بسی تنہائی درد کےخراج کی طلبگار تھی۔وہ ایک روز عہد رفتہ کی اداس اور نامکمل داستان سنانے والے شہر کلکتہ کے غریب ترین علاقے کے انتہائی سادے سے کمرےمیں کسی کے منتظر تھے۔چند لمحوں بعد سفید ساڑھی میں ملبوس آہستہ خرام فرشتہ صفت عورت نے حسین کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔وہ درددل رکھنے کے علاوہ غریب پرور بھی تھی پوری دنیا کے لوگ اس کی عظمت کے سامنے سر نگوں رہتے۔حسین اس کی آنکھوں میں بسے کرب کو چہرے کے نقوش میں ڈھالنے کا خواہش مند تھا۔اس نے بارہا مدرٹریسا کے دکھ اور اداسی کو تصویروں میں ڈھالنے کی کوشش کی مگرہر بار بے چہرہ خاتون نیلے بارڈر والی سفید ساڑھی کے ساتھ کینوس پر ظاہر ہوتی۔شائد مدر ٹریسا جیسے لوگ اپنی ذات کی شناخت سے بےپرواہ ہو جاتے ہیں وہ عرفان کی اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ہم جیسوں کا ادراک رسائی بھی حاصل نہیں کر سکتا۔حسین نے دینا بھرمیں مدر ٹریسا سے اپنے محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے سفید ساڑھی میں ملبوس دوسروں کے بارے فکر مند اور گم سم سی نازک اندام بوڑھیا کی بے چہرہ تصاویر کی نمائش کا ا نعقاد کیا۔
مگر بجھتے ہوۓ چراغ کی لاٹ نے ابھی بلند ہونا تھا۔حسین ہسپتال سے ڈاکٹروں کی اجازت کے بغیر ننگے پاؤں ساتھ والےسینما گئے۔سکرین پر سنہری کام والی نیلے رنگ کی ساڑھی پہنے مسکراتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ مادھوری دیدی تیرا دیور دیوانہ پر محو رقص تھی۔نیچے گلےیعنی (Low neck) والے بلاوز کی وجہ سے مادھوری کی پشت پر پڑنےوالے بھنور دیکھ کر دیور کے دیوانے ہونے سے پہلے ہمارے مقبول فداحسین نے دل کو گم ہوا پایا اور ایسے معاملوں میں وہ گھر کا راستہ بھولنے میں بھی بھلا دیر کیوں لگاتے۔مادھوری کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوۓ دلگیر سا بوڑھا مقبول بھی ہر اس جلسے اور ایوارڈ کی تقریب میں پہنچ جاتا جہاں مادھوری ڈکشٹ موجود ہوتی۔
ٹی وی اور پریس کے فوٹوگرافر دونوں کے تعاقب میں رہتے جبکہ اخبارات اور جرائد دونوں کی عمروں میں تفریق کی وجہ سے روز طنزیہ سرخیاں لگاتے۔تحیر عشق کی فضا،تخلیق کے مراحل سے پہلے ہی خبرکا روپ اختیار کر چکی تھی۔
حسین سب باتوں سے بے پرواہ گجگامنی کی کہانی لکھنے میں مصروف رہے۔مختصر دورانیے کی اس فلم میں مادھوری کی مدد سے حسین نے ہندوستان کی عورت کی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
مادھوری شادی کے بعد پیا سنگ امریکہ جابسی۔اس کے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد حسین اسے ملنے گئے۔مادھوری اور اس کے شوہر رام نےحسین کو عزت اور محبت سے نوازا جبکہ حسین اُن کو اپنے چودہ کےقریب فن پاروں سے نواز آۓ۔
ہر طبقے اور ہر عمر کی عورت کے ساتھ حسین صاحب کے تعلقات۔ کی داستانیں برسوں خبروں کا مرکز رہیں مگر فضیلہ بی نے نہ کبھی تردیدکی اور نہ ہی اس بارے کسی سے پوچھا۔وہ گرہستی میں مگن اپنے آٹھ بچوں کو یہی درس دیتیں کہ تم تمام عمر باپ کی عزت کرو گے۔حسین صاحب وسیع کنبے اور رشتہ داروں کی فوج ظفر موج کے کفیل تھے،انہوں نے اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کے سب بچوں کو نہ صرف دبئی میں فلیٹ خرید کر دئیے بلکہ ان کی تزئین و آرائش بھی خود کی۔اس سے برسوں پہلے وہ دہلی میں سنگ خشت کو ترتیب سے ہمکنار کرنے کے بعد کئی گھر ڈئیزاین کر چکے تھے۔
مہا بھارت میں ہند وتوا کے جذبے نے جنوں کا رنگ اختیار کیا تو حسین صاحب کی چند تصاویر کو شدت پسندوں نے مذہبی بنیادوں کی وجہ سے اپنے عقیدے کی بے حرمتی قرار دیا۔حسین کے گھر توڑ پھوڑ کے علاؤہ ان کے فن پاروں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔وہ جلا وطنی پر مجبور کبھی لندن اور کبھی دبئی رہنے لگے۔لندن میں ان کا قیام مغل اعظم کے تخلیق کار کے۔آصف کے بھتیجے کے شاندار فلیٹ میں ہوتا جہاں ان کےسیکرٹری کے فرائض ایک پاکستانی لڑکا سر انجام دیتا۔
ہندو تہذیب کا دلدادہ،ہندوستان کو جنت نشان کہنے والے وسیع القلب حسین نے مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اک روز ملک لندن میں آخری سانس لی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں