گھوما پِھری (1)- کبیر خان

ہمارے پیروں میں بِلّی بندھی ہے نہ ہم بلّی کے پیروں سے ۔ لیکن کچّے دھاگے کا بندھن بھی ڈنڈا بیڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ چنانچہ جدھر نِوان اُدھر پانی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری دورے پڑنا یکلخت ختم ہوگیا ۔ ٹی اے ، ڈی اے کو گولی ماریں، لاس ویگس والا سوٹ کیس مع بیسیوں غیر ملکی اسٹکرز جس پہلو پر پڑا تھا،پڑا رہنے لگا۔رشتہ و پیوند میں بیاہ شادی بھی ایک آدھ سالانہ کی اوسط سے بپا ، عیدیں بھی خال خال ہی واقع ہونے لگیں۔ سال میں صرف دو۔ عجب “کچّو قالی” سی برسنے لگی۔ مواقع ناپید ہونے لگے۔ہر ماہ سوٹ کیس ، الماریاں کھول کپڑے لتّے کو دھوپ تپا کر واپس رکھنا پڑتا۔ بارِ الہ ! یہ کیا ہوا ؟ اب

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

اسی “کچّو قالی” میں محترمہ بیگم جان کو پھر “پھِرکی” کا دورہ پڑا۔ اُنہوں نےمرحوم میٹروپول کے پڑوس میں واقع دورے کرانے والی کراچی کی ایک فرم سے رجوع کر لیا ۔۔۔۔۔ “بھیّا ! غیر سرکاری دورے کے کتنے پیسے کم لو گے؟”۔ اُس نے دو دن سے دو ہفتے تک کا حساب کتاب کر کے سامنے دھر دیا۔

“اِتّے ڈھیر سارے۔ ۔؟” بیگم چکرا کر گرنے والی تھیں” پہلے تو اتنی اندھیر نگری نہیں تھی۔اب کیا ہوگیا۔۔۔؟ بھیّے ! ہم تو آپ کے پرانے گاہک ہیں ۔۔۔ یوں تو آنکھیں نہ پھیرو۔۔۔”

“میڈم ! مہنگائی پہلے بھی کم نہیں تھی لیکن پیسہ آپ کی جیب سے نہیں، سرکار کے کِیسہ سے نکلتا تھا۔ دوجے تب آپ اکیلی ہوتی تھیں ، اب شریک حیات شریکِ سفر ہیں ۔اور وہ بھی اس “ڈھیل ڈھول” کے۔ آنجناب کی ڈھلائی پر دوہرے سے زیادہ روپے اُٹھیں گے ۔ پرانی کسٹمر سمجھ کر کومپنی آپ کو دوہرا ڈسکاونٹ بھی دے دے تب بھی ایسے گھر والے کو ڈھونے پر دوگُنا خرچہ آئے گا۔ اور خیال رکھیں کہ آپ ہوائی جہاز سے سفر کریں گی، بحری بیڑے سے نہیں۔۔۔ “۔

اُس کی تقریر دلپزیر سن کر بہت کچھ سنانے کو من کیا لیکن ڈسکاونٹ کی امّید نے گونگا کر کے دھر دیا۔ کافی سے زیادہ بحث تمحیص کے بعد جو رعایت حاصل کی،وہ پیپر کپ میں کراچوی چائے کے دو گھونٹ اور اُتارے کے لئے ایک چُٹکی مسکراہٹ تھی۔ گھر کے راستے میں ہم “بیک آوٹ” کی راہ اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن بیگم نے ہمارے حوصلے بلند کرنے کے لئے “چیئراَپ”کی چُٹکی کاٹ ماری۔ جس سے پورا ہفتہ ٹیسیں پھوُٹتی رہیں۔(ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ چِیلوں جیسے پنجے اور ویسے ہی ناخن آج کل کی معزّز خواتین کے فیشن میں کیوں ہیں۔ فورکوں سے شریف گھر والوں کے منہ نسبتاً بہتر اسٹائل سے نوچے جا سکتے ہیں)۔

“تم تو جانتے ہوکہ میں تاج محل،سومنات اور گولڈن ٹمپل کے ساتھ ساتھ اجمیر شریف کی زیارت بھی کرنا چاہتی ہوں ۔ اور میں تمہارے جذبات سے بھی آگاہ ہوں کہ تم وہاں کی دیگ میں کڑچھا چلا کر زیادہ سے زیادہ ثواب دارین کمانا چاہو گے۔ لیکن یاد رکھو کہ آزاد کشمیریوں کو بھارت کا ویزا آسانی سے نہیں ملتا۔اس لئے جدھر کی راہ اور راہداری ملتی ہے ،پکڑو اور پتلی گلی سے نکل لو”۔ بیگم نے جس لب و لہجہ میں کہا،ہم پسیج گئے۔

” تم نے تھائی لینڈ کا نام تو سُنا ہوگا ،تمہارے “کھائی لینڈ” کا ہم رقبہ ہوگا۔ ککّو کی نکّی سے وٹّہ وگاو تو رنگڑ کی ڈاب میں جا بجے۔اتنا چھوٹا سامُلک موہڑا ، لیکن سیاحت میں بڑے بڑے براعظموں سے بڑا ۔ وہاں مہاتما بدھ کے کئی مجسمے ہیں۔۔۔۔، ایک سے بڑا ایک۔ ان میں ایک “خفتہ بدھا” (سلیپنگ بدھا) بھی ہے ۔جس کا قد بُت گلیور سے چار گُنا جاستی بتایا جاتا ہے۔ اُس کی ایک ایک اُنگلی سالم جہان خان جتنی ہے۔ تم اگر پورے قد سے سوئے ہوئے مہاتما بدھ کے پاوں مبارک کے مقابل کھڑے ہو جاو تو چیچی اُنگلی تمہارے بے ہنگم جُثے سے کم ازکم چار پوٹے بڑی ہوگی۔ اور اندرکی بات یہ کہ پورا مہاتما سونے کا بتایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیچی کا ناخن ہی اکھاڑ کر لے جانے میں کامیاب ہو سکو تو تم راولاکوٹ کے چوک سرداراں میں سونے کی پوری ہٹّی کھول کر بیٹھ سکتے ہو۔ یہ میں نے بائی دی وے کہہ دیا ہے ، باقی تم خود حساب کتاب کر لو ۔۔۔۔” ۔

“سُنا ہے مہاتما بدھ کی نیند میں خلل ڈالنا گناہ کبیرا ہے۔ اور تم جیسوں کی آنکھوں میں تُنک مرچ کا دھوڑا ڈالنا پُن کا کام۔نیز وہاں بیسیوں خفیہ کیمرے نصب ہیں ،جن کے ذریعہ تم جیسے زائرین باتمکین کی “دیکھ بھال” کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ زائرین باتمکین عروس البلاد کراچی کی بسوں میں ڈنڈوں سے اٹکے لٹکے ہی کھڑے سو شو لیتے ہیں ۔ ڈنڈا پکڑ کر سوجانا کوئی بُری بات نہیں لیکن بندر روڈ سے کیماڑی سفر کر تے ہوئے تمہارے خراٹوں میں بس کے فراٹوں کی ایک نہیں چلتی۔پریشر ہارن بچارا بھی یوں لگتا ہے جیسے کُتّے کھنگ کا شکار ہوا پڑا ہو۔ تمہیں خفتہ مہاتما بدھ سے کم از کم ایک کلو میٹر دوُر اسٹیچومافک کھڑا رہنا پڑے گا۔ سمجھے ؟”بیگم نے پیشگی فتوی جاری کر دیا۔ ہم پر ان تمام پیش بندیوں کا اطلاق حفظِ ماتقّدم تھا یا دور اندیشی کا مظاہرہ؟ معلوم نہیں ۔ لیکن سیر پر نکلی ہوئی بیگم کا ٹوہر ٹہکہ دیدنی تھا۔ موصوفہ ہماری عاقبت سنوارنے کے لئے اپنی ہم جنس راہنما کے انگریزی بیانات کا ترجمہ پہاڑی زبان میں ہمارے گوش گذار کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ ” تپّڑ یہاں تھپّڑ کو کہتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہاڑی بولی میں تھپّڑ لگایا جاتا ہےاور تپّڑ کھایا جاتا ہے۔ تم نے کھا کر دیکھا ہو گا۔۔۔ ، ذائقے میں کیسا ہوتاہے۔۔؟”

ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا

ضمنا” عرض کر دیں کہ ہماری بیگم جان جتنی پروفیسر ہیں ، اس سے کہیں زیادہ درگاہی واقع ہوئی ہیں ۔ (ملیر میں اُن کے نانا جی کا مزار ہے، جہاں سالوں سےسالانہ عُرس بپا ہوتا ہے۔ )ان کے نانا جی کے مریدان ہزاروں میں ہیں ۔ ہمیں بھی وہ مریدوانا چاہتی تھیں لیکن کسی نے کان میں کہہ دیا کہ اُن کے عقد میں آنے سے پہلے ہم مسلّمہ “بھگت کبیر ” تھے۔ اور اسی نام سے کسی کشمیری رسالہ میں “ہندوّتا” مچائے رکھتے تھے۔ بس اسی نقصِ خاص کے پیش نظر مہاتما بدھ کی درگاہ پر اُن کی نگاہِ کرم مسلسل ہم پر رہی۔ چنانچہ ہم اُس گائیڈ کو ٹھیک سے دیکھ سُن بھی نہ سکے جو ہمیں مہاتما اوربدھ مت کے فضائل سے کماحقہ آگاہ کرنے پر مامور تھی۔ (کل ہی بیگم سے نظریں چُرا کر ہم نے گروپ فوٹو میں اُسے دھیان سے دیکھا اور ذرّہ برابر نہیں پچھتائے)۔

صاحبو! ہم کسی کے دین مذہب کو ہیچ نہیں جانتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس کی سمجھ میں جو آتا ہے، وہ صدقِ دل سے اُسے اپنائے۔اور توفیق ہو تو دوسروں کے مذاہب کو بھی سمجھنے کے لئے پڑھ لینا چاہیئے۔ اس سے اپنے دین مذہب کی سمجھ آ سکتی ہے، اور بہت بہتر۔ (تقابل اور پرکھ بندے کی سمجھ بوجھ میں بہتری لاتی ہے۔)

تقدّس، احترام اور جستجو کا ماحول اپنی جگہ لیکن ہماری آنکھیں اُس گوتم بدھ کودیکھنا چاہتی تھیں جو ہمالیہ کی گود میں، مہا مایا (بہت بڑی بی) کی کوکھ سے جنما تھا۔ اس نسبت سے وہ ہمارا گرائیں مُلکی لگتا تھا۔ اور گرائیں مُلکی جہاں بھی ہو ،ہم اُس سے ملنا “لہا یروری”(اشّد ضروری) سمجھتے تھے/سمجھتے ہیں۔وہ آپ کو جانے نہ جانے ،آپ اُس کی مہک سے آشنا ہو جاتے ہیں ۔ لیکن ہم جس سے ملنا چاہتے تھے وہ اتنی گہری نیند سو رہا تھا کہ سانسوں کا زیروبم بھی کھُلی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اُسے دیکھنے کے لئےآنکھیں بند کرنا پڑتی تھیں۔ بس اُس کے چہرے پر پھیلا نروان اور اطمینان چُغلی کھا رہا تھا کہ وہ ہے۔ یہیں ہے، یہیں کہیں ہے۔

(آپ ماں سے بھلےمحروم ہو جائیں ، ممتا سے نہیں ہو سکتے۔ وہ ہمہ وقت ارد گرد سانسیں لیتی رہتی ہے ۔ہمہاری نِکّی بے جی کو گذرے کئی برس بیت چکے ہیں ، اُن کی نسواریں مہک کہیں بھی اک ہلکا سا تھپیڑا مار نکل جاتی ہے۔ اور ہم ۔۔۔۔”ٹُرگیا ماہی، ہتھّ پئی ماراں منجیاں تے”۔مہاتما کے چار چفیرے ویسی ہی مہک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم نے ہاتھ ہلا کر ممتا کی اس خوشبو کو ایک لمحے کے لئے پرے کیا اور اپنی راہنما سے پوچھا۔۔۔۔ “عقیدت مند سوتے ہوئے سونے کے مہاتما کو تھوڑا بہت چھیل کر نہیں لے جاتے۔۔۔؟ “۔

“تمہیں مغالطہ لگا ہے، مہاتما سراپا کانسی کے ہیں ۔ تم جیسے معزز ریسرچرز سنہری رنگ کے ملمع سے دھوکا کھا جاتے ہیں”۔ گائیڈ نے راولاکوٹ میں ہماری سونے کی دُکان پر کھُلنے سے پہلے ہی ناامیدی کا پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد وہ گائیڈ ہمیں زہر لگنے لگی۔ “تم اپنی ساری توجہ ہماری دھرم پتنی پر مرکوز رکھو، اُسے علم حاصل کرنے کا بڑا شوق ہے۔ ہمہارے لئے الف کا کِلّا ہی کافی و شافی ہے۔۔۔۔” ۔ہم نے کہا۔ اور اُس کی طرف سے “ٹہوُنگا” پھیر لیا۔ اس کے بعد اُس نے ہمیں پانی تک نہیں پوچھا۔ ہم نے بھی اپنے موبائل سے اُس کی ساری کلوز اپ تصویریں ڈیلیٹ کر دیں۔۔۔۔۔ ہور چوُپو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(ہمارا خیال ہے کہ اگر ہم گائیڈ مزکوریہ کی طرف سے کیا گیا انکشادوچار زائریں با تمکین کے کانوں میں انڈیل دیتے تو منٹوں میں ہت چھٹ کر ظہر کی جماعت جتنا رہ جاتا۔لمحوں میں بدھا کے مجسمو کی قلعی کھُل ڈُل جاتی)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply