مولانا رومی نے فرمایا ” زخم وہ جگہ ہے جہاں سے روشنی تم میں داخل ہوتی ہے”۔
دکھ اور تکالیف ہمارے اندر صبر کا جذبہ بیدار کرتی ہیں۔ لیکن “آ بیل مجھے مار” کی طرح غیر صحت مند طرز زندگی کے ساتھ بیماریوں کو دعوت دینا حماقت ہے۔ آپ ایک ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے روپ میں انمول ہیں۔ اپنی حفاظت کریں۔
بریسٹ کینسر کی آگاہی کے حوالے سے آپ لوگ اس مہینے میں مختلف خبریں سن رہے ہوں گے پاکستان کی بات کریں تو ہر سال چھاتی کے کینسر کے 90 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں
اور ہر سال تقریبا 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے وفات پا جاتی ہیں۔
پچھلے 20 سالوں میں لاکھوں پاکستانی خواتین اس مرض کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔
اس دکھ کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا
اے حرف تسلی ترے مشکور ہیں لیکن
یہ خیر ہے کہنے سے ذرا آگے کا دکھ ہے
لوگوں کی زندگیوں میں امید کا پٹرول ڈالنے کا کام انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے پاکستان میں وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بریسٹ کینسر کی آگاہی کے حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا میں بھی اس پروگرام میں شریک تھا شرکاء کی گفتگو سنتے ہوئے میں محسوس کر رہا تھا کہ عام پبلک اس
گمبھیر مسئلے کے بارے میں بہت کم جانتی ہے ایف پی سی سی آئی کے اس پلیٹ فارم پر منسٹر وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف سندھ شاہینہ شیر علی کی گفتگو سننے کے قابل تھی ان کی آواز میں موجود درد کو محسوس کیا جا سکتا تھا جب انہوں نے یہ بتایا کہ پاکستان میں ہر سات میں سے ایک خاتون اس موذی مرض کا شکار ہے تو حال میں موجود سینکڑوں لوگوں کے چہروں پر موجود تفکر واضح طور پر نظر آرہا تھا منسٹر صاحبہ نے سال میں دو بار باقاعدگی سے چیک اپ کی اہمیت پر زور دیا
بریسٹ کینسر کی اگاہی کے حوالے سے ہونے والے اس سیشن میں جن لوگوں نے اظہار خیال کیا ان میں سے شمسۂ جبین، قرۃ العین، منتھا اظہر، ڈاکٹر فرح باری، ڈاکٹر فرح اقبال، ڈاکٹر زبالہ یاسر، ڈاکٹر طیبہ مہناز، ڈاکٹر تسنیم کوثر اور انجینیئر ذہین فاطمہ شامل ہیں
ایس ایس پی شہلا قریشی، اے آئی جی پی جینڈر کرائم ہیومن رائٹس سندھ نے اس خطرناک بیماری کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔
منتظمین میں تنویر احمد صاحب اور اسلم نیر بن
اپنی ٹیم کے ساتھ نمایاں طور پر نظر آئے اپنی فیلڈ میں نمایاں مقام رکھنے والی
ان شخصیات کی گفتگو سے عکس کردہ کچھ پوائنٹس آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھی جائے کہ کن چیزوں سے بریسٹ کینسر نہیں ہوتا پرفیوم لگانے سے کینسر نہیں ہوتا ٹائٹ بریزر کا پہننا بائیوپسی کے عمل سے گزرنا اس مرض کا ماں سے بیٹی کو لگ جانا یہ سب فرضی باتیں ہیں کینسر ان وجوہات کی وجہ سے نہیں پھیلتا
اس بیماری کی ابتدائی درجے پر تشخیص انتہائی ضروری ہے۔ امریکن کینسر سوسائٹی نے اپنی ریسرچ میں بتایا کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی لیول پر تشخیص صحت یابی کے امکانات کو تین گنا سے بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ اس ریسرچ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اس مرض کے بارے میں وسیع پیمانے پر آگاہی پھیلانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کینسر کا علاج ممکن ہے پاکستان کی کچھ نامور بہادر خواتین کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں جنہوں نے بہادری سے اس مرض کا مقابلہ کیا
مشہور اداکارہ نادیہ جمیل نے کینسر کا شکار ہونے کے بعد طویل جدوجہد کی علاج کے عمل سے گزریں۔ ان کے سر کے بال بھی غائب ہو گئے آج صحت یاب ہو کر کینسر کی سفیر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ سینیئر اداکارہ عظمی گیلانی اور اسماء عباس نے استقامت سے اس بیماری کا مقابلہ کیا اور آج مکمل طور پر صحت یاب ہیں ایک اور سینیئر ادکارہ نائلہ جعفری چھ سال تک کینسر سے جنگ کرنے کے بعد اپنے رب کے پاس چلی گئیں۔ لیلی واسطی کو شادی کے فورا بعد اس مرض کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی مکمل ریکوری کے بعد خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔
چھاتی کے کینسر کی علامات کی بات کریں تو ان چیزوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے
1. چھاتی کے آس پاس گلٹی ہوتی ہے درد محسوس نہیں ہوتا پھر بھی چیک کروا لیا جائے۔
2.
چالیس
سال سے زائد عمر کی خواتین لازمی طور پر اپنا میڈیکل چیک اپ کروائیں بڑی عمر کی خواتین میں رسک فیکٹر بڑھ
جاتا ہے. لیکن نوجوان لڑکیوں میں بھی یہ مرض پایا جاتا ہے
3. اگر ماہانہ پیریڈذ 13 سال کی عمر سے پہلے شروع ہو جائیں یا 50 سال کی عمر کے بعد بھی جاری رہیں
4. پہلا حمل 35 سال کی عمر کے بعد ٹھہرنا اور اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانا آپ کو خطرے کے قریب کر دیتا ہے
5.
مانع حمل سبز ستارے والی گولیوں کا لمبے عرصے تک استعمال یعنی تقریبا تین سال تک ان گولیوں کا استعمال خطرناک ہے. ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ وقفے کے لیے آپ گلی محلوں میں بیٹھنے والے ڈاکٹرز سے مشورہ نۂ کریں بلکہ اسپشلسٹ ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ آپ کو ایسی دوائی لکھ کر دیں گے جس کے سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوں گے
6
اگر فیملی میں لوگوں کو کینسر ہے تو گھبرانے کی بات نہیں لیکن اس بات کے چانسز 15 فیصد تک ہیں کہ اس فیملی کی کسی خاتون کو کینسر کا مرض لاحق ہو جائے
7
بڑی عمر میں پیریڈز بند ہو جانے کے بعد ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی لمبے عرصے تک کروائی جائے
8
زیادہ وزن ہو جانا واک اور دیگر ایکسرسائزز نہ کرنا، مرغن غذا
9
شراب پینا، سگریٹ پینا یا کوئی اور نشہ کرنا
اس بیماری سے بچنے کے لیے خواتین یہ پروٹوکولز فالو کرسکتی ہیں
1.
مہینے میں ایک بار آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود اپنی چھاتی کا معائنہ کریں
غور سے دیکھیں ایک بریسٹ دوسرے سے مختلف تو نہیں
بریسٹ کے اوپر ساتھ میں یا بغل میں گلٹی یا کوئی اور تبدیلی تو نہیں
2
اپنے بریسٹ کی سکن کو دیکھیں. وہ کینو کے جیسی تو نہیں یہ بھی دیکھیں که دونوں بریسٹ ایک ہی لائن میں لٹک رہی ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے
3
آپ کی بریزر میں بلڈ تو نہیں آتا
ایسی کوئی بھی علامت ہو تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں. کینسر کا مریض توجہ چاہتا ہے . محبت ایسا وٹامن ہے جو مریض کی قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے
مشہور کتاب دی نیکسٹ ڈور میلنیئر کے مصنف تھامس سٹینلے یاد آگئے اپنی اس کتاب میں انہوں نے کامیاب لوگوں کی30 خوبیاں بیان کیں ان میں سے دوسرے نمبر پر جو خوبی بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ ان تمام کامیاب لوگوں کو اپنی فیملی کی سپورٹ تھی فیملی کے ساتھ زبردست طریقے سے یہ لوگ جڑے ہوئے تھے یہی فیملی بانڈنگ امید کا زبردست سورس ہے جسے ہم گلے ملنے کی تھیراپی بھی کہہ سکتے ہیں ۔
مشہور فلسفی جوائس میئر کہتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ سب سے بڑا تحفہ جو آپ اپنے خاندان اور دنیا کو دے سکتے ہیں وہ آپ کا ایک صحت مند جسم ہے”۔
ڈینس ویٹلی کہتے ہیں کہ وقت اور صحت دو قیمتی اثاثے ہیں جنہیں ہم اس وقت تک پہچان نہیں سکتے اور ان کی تعریف نہیں کرتے جب تک کہ وہ ختم نہ ہو جائیں”۔
امید کا یہ پیغام کینسر کے مریضوں کے لیے نئی روشنی لے کر آتا ہے اور اللہ تعالی سے ان کے تعلق کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے الفاظ میں
مرا کوئی بھی نہیں کائنات بھر میں ندیمؔ
اگر خدا بھی نہ ہوتا تو میں کدھر جاتا
شیخ سعدی ایک بادشاہ کی کہانی بیان کرتے ہیں جس کو ایک دانشور نے مشورہ دیا کہ وہ خود کو ایسے افراد سے گھیرےجو مشکل وقت میں اسے سہارا دیں یہ کہانی اس بات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے کہ انسان کو کمیونٹی اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بریسٹ کینسر کے مریضوں کے لیے خاندان اور دوستوں کی حوصلہ افزائی اہمیت رکھتی ہے۔
ہمیشہ اپنے آپ کو یاد دلائیں
آپ ایک ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے روپ میں انمول ہیں۔ اپنی حفاظت کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں