ماضی کی سٹیج اداکارہ نرگس پر ان کے شوہر انسپیکٹر ماجد بشیر کے بہیمانہ تشدد کے واقعے کی اور ان کی ویڈیو نے ہر ذی احساس کو ہلا کر رکھ دیا ہے نرگس پر ماضی میں ایک قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا شوبزنس کی خواتین پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ابھی حال ہی میں سما ٹی وی اینکر عائشہ جہانزیب کا کیس بھی عوام کے سامنے آیا مگر بعد میں انہوں نے اپنے شوہر سے راضی نامہ کر کے پولیس کیس واپس لے لیا نرگس یا ان کی فیملی کی جانب سے ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کروائی گئی ہے تاہم ایک ویڈیو میں نرگس وزیراعلی پنجاب مریم نواز سے ملاقات کے دوران خود پر تشدد کے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں
ایک اور پاکستانی اداکار فیروز کا خان پر ان کی سابقہ اہلیہ علیزہ کی جانب سے تشدد کا الزام خبروں میں گردش کر رہا ہے شوبز کے افراد کے گھریلو تشدد کے واقعات تو منظر عام پر آ جاتے ہیں کہ وہ خواتین چونکہ خود میڈیا سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں کافی حد تک اس اعتبار سے خود اعتمادی بھی ہوتی ہے کہ خود پر ہونے والے مظالم کو عوام کے سامنے بے نقاب کر سکیں ۔ مالی اعتبار سے بھی عموما خودکفیل ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے شوہر پر منحصر نہیں ہوتیں۔ مگر پاکستان بھر میں شہری اور خصوصا دیہی علاقوں میں خواتین عام طور پر گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50 فیصد شادی شدہ خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ 90 فیصد نفسیاتی ذیادتی برداشت کرتی ہیں۔ نفسیاتی تشدد میں ایسی بدسلوکی شامل ہوتی ہے جس میں جسمانی تشدد کی بجائے جذباتی اور ذہنی نقصان پہنچایا جاتا ہے مثلا گالی گلوچ ، بے عزت کرنا، نیچا دکھانا، اپنے پارٹنر کو اہمیت نہ دینا، کم تر جاننا، اس کو اپنے کنٹرول میں رکھنا، اس کے ہر کام ہر حرکت پر نظر رکھنا، ذلیل کرنا وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ڈرانا دھمکانا کسی بات پر جذباتی بلیک میلنگ ، الزام تراشی، طنز کے تیر برسانا، نکتہ چینی، دوسرے لوگوں سے ملنے نہ دینا ، اس کی سوشل لائف کو بالکل محدود کر دینا مثلاً دوست یا سہیلی بنانے کی اجازت نہ دینا شامل ہیں۔ اپنی بیوی سے ضرورت سے زیادہ کام لینا یا گھر کے کاموں میں دن رات مصروف رکھنا تاکہ بیوی کو اپنی ذات کے لیے یا کسی سہیلی کا رشتہ دار سے بات کرنے کی فرصت ہی نہ ہو اور اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو اس پر کڑی نظر ہو تاکہ وہ ہر وقت خوفزدہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی تشدد بھی ہوتا ہے یعنی اس کو مالی ضروریات پورا نہ کرنا خرچہ اور نان نفقہ ادا نہ کرنا۔
پاکستان کے ایک دیہی مرکز صحت نے تولیدی عمر کی 490 خواتین کی سروے رپورٹ سے نتیجہ نکالا کہ 65 فیصد عورتیں گھریلو تشدد کا شکار تھیں گھریلو تشدد پاکستانی گھرانوں میں خاص طور پر دیہی برادریوں اور افغان مہاجرین میں پایا جاتا ہے۔
اگر اب تک کی تحریر سے آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے وہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے عورتوں پر تشدد کی شرح زیادہ ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے برطانیہ جیسا ملک جہاں پر قانون مضبوط اور شفاف ہونے کے باوجود ایسے جرائم عام ہیں۔ انگلینڈ اینڈ ویلز میں 2023 سے 2024 کے دوران پولیس نے گھریلو تشدد کی ایک لاکھ 97 ہزار وارداتیں ریکارڈ کیں جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں مگر 93 فیصد گھریلو تشدد کے واقعات کی شکار عورتیں ہیں ۔ یعنی سات فیصد مردوں پر ان کی بیویاں مارپیٹ کرتی ہیں مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ عورتوں کو ان جرائم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد فورا رپورٹ کرتے ہیں جبکہ 93 فیصد عورتیں جو اپنے پارٹنر یا شوہر کے ہاتھوں ظلم سہتی رہتی ہیں ان میں سے صرف 18.9 فیصد نے گزشتہ 12 ماہ میں پولیس کو رپورٹ کی ہے۔
وہ عوامل جو خواتین کو ایسی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں ان میں سب سے بڑھ کر مہنگائی ہے۔ عورتیں اس خوف سے رپورٹ درج نہیں کرواتیں کہ بعد میں وہ اپنے بچوں کی کیسے پرورش کریں گی ان کو کہاں لے کر جائیں گی۔ جو عورتیں پولیس اسٹیشن پر رپورٹ درج کروانے کی ہمت کرتی ہیں اور ان کے شوہر کو اگر پولیس گرفتار کر لے تو وہ ضمانت پر رہا ہو کر عام طور پر اگلے روز واپس آ جاتا ہے اور اپنی بیوی پر مزید تشدد کرتا ہے اور طلاق کی دھمکیاں دیتا ہے پولیس ایسی عورتوں کو عموماً گھر چھوڑنے کا مشورہ دیتی ہے۔ برطانیہ میں عورت چاہے پاکستانی ہو یا کسی بھی نیشنلٹی کی گھر چھوڑ کر اس کو ہوم لیس یعنی بے گھر ہونا پڑتا ہے جس میں کونسل کسی عارضی پناہ گاہ یا شیلٹر ہوم میں ان کو پناہ دے دیتی ہے اور بینیفٹ کے نام پر ایک معمولی خیرات ہوتی ہے جس سے صرف بنیادی سطح کے کھانا پینے کے اخراجات اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے۔ لہذا بہت سی خواتین خاموشی سے اپنے شوہروں کے مظالم سہتی رہتی ہیں اور گھر چھوڑنے کے بجائے شوہر کے ساتھ رہنا مجبوری میں ترجیح دیتی ہیں۔ مگر اس بد سلوکی کے ماحول میں وہ خود ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض تو خود کشی تک کی کوشش کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بچے جو اس گھٹیا ماحول میں پرورش پاتے ہیں ان کے ذہنی صحت اور تربیت پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے برطانیہ میں ڈومیسٹک وائلنس کے شکار افراد کے لیے کئی سپورٹ تنظیمیں موجود ہیں ڈومیسٹک ابیوز ہیلپ لائن 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے اگر اس پر رابطہ کریں تو وہ ایمرجنسی رہائش کا بندوبست کرتے ہیں اس کا نمبر 247 2000 0808 ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ہیلپ لائن موجود ہے۔ جس کا نمبر 1043 ہے۔ پاکستان میں کئی این جی اوز خواتین کی مدد کے لیے کام کر رہی ہیں جن میں عورت فاؤنڈیشن ، ڈپلیکس سمائل اگین فاؤنڈیشن، آشا اور آہنگ سرفہرست ہیں۔
جو خواتین مالی حالات کے تحت یا سسرال اور میکے کے دباؤ میں آ کر اپنے ظالم شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں یا لڑائی جھگڑے کے بعد راضی نامہ کر لیتی ہیں مثلاً اگر پولیس میں کیس درج ہے تو شوہر خاندان کے کہنے پر معافی تلافی کر لیتا ہے کہ کیس واپس لے لیا جائے اور آئندہ سے سدھرنے کا وعدہ کر لیتا ہے تو ایسی خواتین یہ بات پلے سے باندھ لیں کہ وہ بہت بڑی غلطی کرتی ہیں۔ ایک ایسا مرد جو فطرتاً گالی گلوچ والا ہو اور ہاتھ چھوٹ بھی ہو وہ کبھی نہیں سدھرتا جیسے کتے کی دم سو سال زمین میں دبی رہے تو واپس ٹیڑھی ہی نکلے گی۔ اسی طرح یہ معافی محض عارضی ہوتی ہے جونہی کیس واپس لیں گی وہ اپنی اصلی اوقات پر واپس آجائے گا لہذا گھریلو تشدد کی شکارخواتین ہمت کریں اور ان تمام ایجنسیوں کی مدد حاصل کریں ۔ یاد رکھیں شوہر خدا نہیں ہے نہ ہی وہ آپ کا اور آپ کے بچوں کا رازق ہے ۔ اصل رازق اور کفیل اوپر والا ہے وہ آپ کے لیے سارے سبب بنا دے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں