آزادی؟-محمد ہاشم

لفظ آزادی کا لغوی معنی  ہے کہ آپ کسی بھی بیرونی دباؤ، اثرو رسوخ اور سہارے سے آزاد ہوں۔ سیاسی تشریح کے مطابق وہ آزاد وخودمختار ریاست جو بیرونی دباؤ کے بغیر اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھے، اور کسی استعمار کے تسلط کے بغیر اپنے روزمرہ معاملات کو خود اختیاری سے سرانجام دے سکے۔

آج کا دن گلگت بلتستان کے خطے کی آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہوئے ساڑھے سات دہائیوں سے زیادہ ہونے کو ہیں، لیکن جس آزادی کی تشریح اوپر کی گئی ہے، وہ والی آزادی تو محض خواب ہے۔

جس خطے کی اسمبلی کے منتخب سپیکر کو ایک تیسرے درجے کا پولیس آفیسر اسمبلی میں داخل نہ ہونے دے، جس خطے کے منتخب وزیر اعلی کو برآمد شدہ بیوروکریسی کا ایک آفیسر دن کی روشنی میں آنکھیں دکھائے ان کی کون سی آزادی ہے؟

ساڑھے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ایک میڈیکل اور ایک انجینئرنگ یونیورسٹی نہیں حاصل کر سکے تو پھر کون سی آزادی؟
جس خطے میں سب سے زیادہ پن بجلی پیدا کرنے کے مواقع ہونے کے باوجود وہاں کا مرکزی شہر اور گردونواح نلتر وادی میں بارش ہو تو ہفتوں تک اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہوں، وہاں کون سی آزادی؟

جہاں سب سے زیادہ میٹھے پانی کے ذخیرے ہونے کے باوجود آبادی کی بہت بڑی تعداد صاف پانی سے محروم ہو، ان کے لئے کون سا جشن؟

جہاں لوگ اپنے عزیز و اقارب کو بیماری میں اسلام آباد اور لاہور کے ہسپتالوں میں لے کے پھرتے ہوں اور اپنی جمع پونجی لٹا کے خالی ہاتھ اور اکثر تابوت میں بند لاشوں کو لے کر واپس آتے ہوں ان کے لئے یہ کیسی آزادی؟

جہاں کی مائیں روز صبح شام اپنے بچوں کے لئے آنسو بہاتی ہوں، جو میلوں دور اپنے روشن مستقبل اور تعلیم کے حصول کے لئے اوائل عمری میں پنجاب کے شہروں کی خاک چھانتے ہوں، ان کو اس آزادی کی کیا خوشی؟

جہاں اس جدید دور میں انٹرنیٹ کی حالت اس قدر بے کار ہو کہ وڈیو کال کرنے والے کی شکل منٹوں سکرین پہ پھنسی رہے اور آواز میں نارمل انسان بھی ہکلاتا ہوا سنائی دے، اور مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ بجلی کے بند ہوتے ہی انٹرنیٹ سگنلز بھی لڑکھڑا کے گر جاتے ہیں۔ جہاں فون ملانے کے لئے اونچے ٹیلوں اور گھر کی چھتوں پر چڑھنا پڑے ،وہ کہاں سے گائیں آزادی کے یہ نغمے؟

ہم نے تو اس خطے کے لئے ہمیشہ سونے کی چڑیا کا لقب سنا تھا لیکن یہ کیسی سونے کی چڑیا ہے کہ دنیا نے پہاڑوں پر ریلوے لائینیں بچھا دیں ،اور ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ چلاس تتہ پانی پر بائی پاس پل کب اور کہاں بنانا ہے۔

ایک بارش ہوگئی اور سینکڑوں گاڑیاں ہزاروں خاندان کوہستان کی چٹیل پہاڑوں کے درمیان پھنس گئے۔

جہاں ہم اس خطے کی خوبصورتی کا سوئٹزرلینڈ سے مقابلہ کرتے نہیں تھکتے وہاں یہ بھی تو دیکھیں کہ بنیادی انتظامی ڈھانچے کا کیا حال ہے؟ سڑکوں کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ استور غذر اور نگر جیسے جنت نظیر خطے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ کارگاہ، بگروٹ، داریل، تانگیر اور حراموش جیسی کئی خوبصورت وادیاں, امرت جیسے پانی سے بھری حسین جھیلیں اور برف پوش پہاڑ دنیا کی پہنچ سے صرف اس لئے دور ہیں کہ نہ وہاں تک پہنچنے کا کوئی مناسب راستہ ہے اور نہ ہی وہاں پر کوئی بنیادی ضروریات زندگی کی دستیابی ہے۔ انفراسٹرکچر کے لئے پالیسی سازی کا شدید فقدان ہے اور کام میں شفافیت کا یہ عالم ہے کہ ٹھیکیدار کو روڈ بنانے کے بعد یاد آتا ہے کہ پائپ تو ڈالنا ہی بھول گئے۔ جگلوٹ سکردو روڈ خدا خدا کر کے دو سال قبل ایکسپریس وے بنایا گیا اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے خوب ڈھول پیٹے گئے لیکن دو سالوں میں اس روڈ کی بھی قلعی کھل گئی اور آج جگہ جگہ کھنڈرات کا نظارہ ہے۔

یہاں کے معدنیات کے ساتھ کون کیا کر رہا ہے، کس کو بیچا جا رہا ہے کون پیسے بنا رہا ہے، عوام کو کچھ علم نہیں اور ان کا گھر لوٹا جا رہا ہے۔
جنگلات کی کٹائی کا یہ عالم ہے کہ اب تو چراگاہوں میں بھی میلوں بعد ایک آدھ درخت نظر آتا ہے اور شدید سرد ترین علاقہ ہونے کے ساتھ معاشی بدحالی نے سردی سے بچاؤ کے لئےعوام کو جنگلات کے کٹاؤ جیسے جرم کی طرف راغب کئے رکھا۔

ہونا تو یہ چاہیے  تھا کہ پانی جیسی نعمت کا پن بجلی گھروں میں استعمال کر کے اس قدر بجلی پیدا کی جاتی اور عوام کو ترغیب دیتے تاکہ وہ سردی سے بچاو کے متبادل اور جدید طریقے اپناتے۔

یہاں کی خوبصورتی بلاشبہ جنت نظیر ہے لیکن جہاں انفراسٹرکچر برباد ہو، سڑکیں کھنڈرات ہوں انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہو، حکومت کے نام پہ ایک تماشہ ہو اور پالیسی سازی کے لئے لانگ ٹرم پلاننگ کا وجود ہی نہ ہو تو وہاں کی خوبصورتی میں سیاحت جیسا اہم اور  زرمبادلہ پیدا کرنے والا ذریعہ نہیں پنپ سکتا ہے۔

ان سب محرومیوں میں جہاں بہت سارے عوامل کار فرما ہیں، وہاں سب سے اہم وجہ یہاں کے باسیوں میں شعور، اتفاق اور وژن کی کمی ہے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں واحد متفقہ اور موثر احتجاج گندم کی سبسڈی کے لئے کیا گیا ہے۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ یہاں کے باسی مستقبل کی بہتری کی بجائے کل کی روٹی کے لئے فکر مند ہیں۔
اور ثقافت کے نام پر ہم نے ہر آنے والے مہمان کے سامنے ناچنا سیکھا ہے۔

نئی نسل کو چاہئے کہ اپنے آباواجداد کی طرح پنجاب سے آنے والے ہر بابو کو وائسرائے سمجھ کے ان کے آگے چغہ اور ٹوپی شانٹی پہن کے ناچنا بند کریں اور اپنے اندر خو داری پیدا کریں۔ رقص ہماری ثقافت کا ایک حصہ تو ہوسکتا ہے لیکن ثقافت کی واحد پہچان بلکل نہیں۔ مہمان نوازی میں اور چاپلوسی میں ایک باریک لکیر کا فرق ہے اور اس لکیر کو پہچانیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے اندر خودداری، اتفاق اور یگانگت کو بیدار کریں۔ آنے والے سالوں، دہائیوں اور صدیوں کی بہتری کے لئے آواز اٹھائیں تاکہ آنے والی نسلیں تمہیں اچھے ناموں سے یاد کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply