تاریخی کتب ان باتوں یا واقعات سے بھری پڑی ہیں کہ فلاں سیاست داں نے فلاں جنگ میں کیا رول ادا کیا، کیا اُس کی کوششوں سے جنگ رُک گئی اور کیا مزید جانیں تلف ہونے سے بچ گئیں، کس سیاست داں نے ثالثی کا رول ادا کیا۔کس نے جنگ کو مزید ہَوا دی ۔ اس طرح سیاست یا میڈیا کے رول پر ہمیشہ بحث ہوتی آرہی ہے۔ کیا میڈیا غیر جانب دار رہا ، کیا میڈیا نے دونوں فریقوں کی صحیح تصویر پیش کی ، کیا اس میڈیا نے مظلوم کی مظلومیت اور بے بسی کو دنیا یا دنیا کے حکمرانوں کے سامنے لایا۔ کیا میڈیا نے پروپیگنڈا چلا کے یا غلط خبریں چھاپ کر یا نشر کرکے جنگ کو اپنے نفع کی خاطر مزید ہَوا دی۔ یہ سب سوالات تقریباً ہمیشہ موضوع بحث رہتے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔
لیکن آج اکیسویں صدی کے ادب کی دنیا میں ایک اہم بحث یہ اٹھی ہے کہ ادبی نقاد کا جنگ کے دوران کیا رول ہونا چاہیے یا ایک ادبی نقاد کو کیا رویہ اپنانا چاہیے، جب لاکھوں بے قصور لوگ بمباری میں مارے جارہے ہوں۔ یہ اس نظریہ پر کاری ضرب لگاتا ہے کہ ادب اپنے عہد سے دور یا ماحول سے متاثر نہیں ہوتا، اور شاید اس سے وہ مقتدر طبقہ ناراض بھی ہوجائے جس کے نزدیک ادب محض تفریح طبع کا ذریعہ ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے۔
معروف ادبی نقاد و دانشور ایڈورڈ سعید نے کہا تھا کہ متن کا موجودہ عہد یا زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ متن کا ایک تاریخی پہلو ہوتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ایڈورڈ سعید کے مطابق‘ متن کے زندگی سے تعلق ’نے ادبی نقاد پر کئی اہم ذمہ داریاں عائد کی ہیں جن میں سیاسی ذمہ داری بھی ایک ہے مگر ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ موجودہ نقاد نے دنیا سے آنکھیں مو ند لی ہیں، یا وہ اس دنیا سے اپنے آپ کو ایک الگ مخلوق تصور کرتا ہے۔ایڈورڈ سعید مزید فرماتے ہیں کہ امریکہ میں اس وقت ادبی تھیوری نے متن کو عہد حاضر کے حالات و واقعات سے الگ کرکے رکھا ہے ، ان مادی احساسات سے اسے دور کردیا ہے جنہوں نے اس کو بڑی طاقت عطا کی تھی ۔
ایڈورڈ سعید نے ہی اپنی مشہور کتاب ‘ شرق شناسی’’ (Orientalism) سے ادبی تنقید کو ایک نیا رُخ عطا کیا اور دلائل سے واضح کیا کہ کس طرح مستشرقوں نے مشرقی یا افریقی اقوام کو غلط انداز میں پیش کیا۔ جن نظریات کے تحت انہوں نے ایسا کیا وہ کس حد تک جھوٹ پر مبنی تھے، اس کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما تھے یا کیا پروپیگنڈہ تھا۔اس تناظر میں اگر آج ادبی تنقید کے رول پر بات کریں تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ محض بورژوا وسامراجیت، سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ اداروں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ادب یاادبی تنقید کو اپنا غلا م بنالیا ہے، جو ادبی تنقید کا ایک گمراہ کن پہلو ہے اور جسے اب بعض بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں میں فروغ دیا جارہا ہے۔ اس کے تحت اب نا صرف کانفرنسوں میں بلکہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کے ایسے عنوانات چُنے جارہے ہیں یا ایسے عنوانات کو فروغ دیا جارہا ہے جس سے پروپیگنڈہ اور مفاد پرستی کی بُو آرہی ہے۔ مثلاََ
۱- ادب اور امن
۲- ادب میں محبت
۳- ادب اور تصوف
وغیرہ جیسے عنوانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادب کا کام محض تفریح طبع کا سامان فراہم کرنا رہ گیا ہے اور یہ کہ امن اور محبت کا تقاضا صرف مظلوم سے کیا جارہا ہے، جب اس سے اس کی شناخت چھینی جارہی ہے، اس پر بم برسائے جارہے ہیں، اسے بے گھر کیا جارہا ہے اور اسے بھوک اور افلاس کے گڑہوں میں دھکیلا جارہا ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں اُسے ہوبہو یا فوراً ادبی فارم یا ہیئت میں ڈھالنا یا اتارنا ، اسے کوئی ادبی شکل دینا چاہے وہ شاعری ہو یا ناول سب کے لیے ممکن نہیں اور شاید کہ ‘فن کے دعوے دار’ یہ بھی دعویٰ کریں کہ یہ فن نہیں۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ جب ہمارے سامنے لاکھوں لوگوں کا قتل کیا جارہا ہو، ان پر بم برسائے جارہے ہوں ، انہیں بے گھر کیا جارہا ہو، ہزاروں بچوں کو قتل کیا جارہا ہو، ہزاروں بچوں کو یتیم اور بے سہارا کیا جارہا ہو، ہزاروں بچوں کو بھوک اور افلاس کی نذر کیا جارہا ہو، اور سکولوں اور ہسپتالوں پر بم برسائے جارہے ہوں،اس پر ہم بات نہ کریں، اس پر کوئی مزاحمتی نظم یا کہانی نہ لکھیں، کیا ہم اس کا بھی حق نہیں رکھتے یا سامراجیت نے ہمیں اتنا سُست، مادی زندگی میں مصروف یا مجبور کیا کہ ہمیں اس سانحہ پر چند منٹ کے لیے سوچنے کی فرصت بھی نہیں۔ کیا اس کے لیے بھی ہمیں دہائیوں انتظار کرنا پڑے گا تاکہ دہائیوں بعد ہم کوئی ‘‘اچھا فن پارہ’’ تخلیق کرسکیں جو ‘‘ ادبی ٹھیکیداروں’’ کی نظر میں بڑا ہو اور انہیں پسند آئے۔ اگر ان ہولناکیوں کے دوران میں کوئی نقاد ایسا کہتا ہے تو ایسے نقاد کی اہمیت کسی پروپیگنڈسٹ سے زیاد ہ نہیں۔ ایسی درسی سرکاری یا کارپوریٹ تنقید سے نہ ادب کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ عالم انسانیت کو ایسے ادبی نقاد سے کسی بھلائی کی امید رکھنی چاہیے۔ بلکہ الٹا ایسی تنقید سے گمراہی پھیلنے کے زیادہ امکانات ہیں اور ہم نا صرف ادب بلکہ تاریخ کے ایک بڑے واقعے و سانحے کو حرف یا الفاظ میں محفوظ کرنے سے محروم ہوکر رہ جائیں گے ۔
اتنی بات تو طے ہے مظلوم سے امن کی اپیل کرنا ایساہی جیسے ہم کسی مفلس سے مالی مدد کی اپیل کریں ۔ یہ نا صرف ایک شرمناک بلکہ منافقت سے بھرا ہوا عمل ہے جو ایک مظلوم ومجبور کو مزید ظلم سہنے کی طر ف دھکیل دیتا ہے اور ظالم کے ظلم کا جواز پیدا کرتا ہے۔کیا آج کا نقادبھی اس کا مرتکب ہے کہ جب مظلوم کے لیے انصاف کے سب دروازے بند ہوچکے ہیں اور نقاد مظلوم سے امن کی اپیل کر رہا ہے، مظلوم کے سامنے شرائط رکھ رہا ہے، ایک مظلوم جس کے پاس کچھ بھی نہیں اس کو اس بات کے لیے مجبور کیا جارہا ہے کہ آپ جنگ اور خون ریزی کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے لیں۔ اس طرح ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جاتا ہے جس سے لگے کہ شاید اصل میں مظلوم ہی خطاوار ہے اور جو ‘ظالم’ ہے اور اس طرح ظالم کو ظلم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور یہ کہ یہ ظالم لوگوں بشمول بچوں، عورتوں ، بزرگوں اور جوانوں پر بم برسامنے پر مجبور ہے،۔ اور ظالم غریب اور اور مظلوم کے گھر بلڈوزور چلانے پر مجبور ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کی خود کی ساکھ خطرے میں ہے ۔ لیکن ایسے کھوکھلے بیانیے کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسا ہتھکنڈہ ہے جو فریب اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔
ایک دانشورنقاد کا معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ ادب کے قارئین کو یہ بتائیں کہ فلاں فن پارہ کیسا ہے لیکن یہ ضروری ہے نقاد موجودہ حالات سے صرف نظر نہ کریں، ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان سے مکالمہ کریں اور یہ بتائیں کہ ادب کو موجودہ حالات میں کیا رول ادا کرنا ہے یا کرنا چاہیے۔ کیا ایک ادیب جو سب کچھ دیکھ رہا ہے چپ رہے یا اپنے قلم کو مظلوم کے حق میں اٹھائے۔چپ رہنے سے لفظ کی حرمت جاتی رہے گی اور ادب اور کسی سستی تفریح میں کچھ فرق نہ رہ جائے گا۔
مشہور مصنف و دانشور فرانز فینن نے زبان و ادب کا مطالعہ نوآبادیت ،استعماریت اور سامراجیت کے تناظر میں کیا ہے، بلکہ ان کی تحریروں کے مطالعے کے بغیر ہم استعماریت یا نوآبادیت کی جارحیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ انہوں نے استعماریت کا مطالعہ نفسیاتی حوالے سے کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی تصانیف ‘‘ افتادگان ِ خاک’’ اور ‘‘ سیاہ جلد اور سفید مکھوٹے’’ کا مطالعہ ناگزیر ہے جن میں فینن نے مابعد نو آبادیت اور اس کے بھیانک نتائج پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ کس طرح سفید فام یا یورپی اقوام نے افریقی اقوام کو غلط رنگ میں پیش کیا اور ان افریقی اقوام پر روا رکھے گئے مظالم کے لیے جواز فراہم کیا ، فینن نے اس دہرے پن اور منافقت کا پردہ فاش کیا اور اس کے خلاف احتجاج بھی کیا ۔ وہ اپنی تحاریر سے اس سامراجی نظام کو منہدم کرتے ہیں۔ اس طرح فینن نے اپنی تحاریر سے آنے والے ادبی نقادوں کے لیے راہ ہموار کی۔ ادیبوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ظالم اور مظلوم کے فرق کو سمجھے اور ان سازشوں سے بھی بچیں جو سامراجی طاقتوں نے اسے زیر کرنے کے لیے روا رکھی ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ کوئی بھی ناول ، افسانہ یا نظم لکھنے یا پڑھنے سے کوئی جنگ نہیں رُک سکتی، کسی بھی ملک یا قوم پر بم برسنا نہیں رُک سکتے ۔ لیکن یہ کیا کم ہے کہ آپ دنیا تک اپنی بات پہنچارہے ہیں، آپ تاریخ کے ایک اہم واقعے کو الفاظ و تحریر کے ذریعے محفوظ کررہے ہیں۔ امریکی ناول نگار میکسین ہانگ کنگسٹن نے کہا ہے:
‘‘تحریر عدم تشددکا ایک عمل ہے، لیکن یہ بہت فعال ، بہت جارحانہ عمل ہے، لیکن آپ بم یا بندوقیں نہیں چلارہے ہیں ۔ صرف قلم کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک چیخ ہے تاکہ آپ کی آواز پوری دنیا میں سنی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ ابھی جنگ کو روکنے کے قابل نہ ہوں، لیکن الفاظ ماحول پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اور مستقبل میں بھی دنیا کو متاثر کرسکتے ہیں۔’’
موجودہ پُر فتن دور میں ادبی تنقید یا نقاد کا ایک بڑا رول یا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ تحریر کامطالعہ صحیح تناظر میں کرے اور ادب و تنقید کو الفاظ اور کھوکھلی اصطلاحات کے کھیل سے بڑھ کرایک بڑی ذمہ داری سمجھے۔ وہ خود بھی مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائے اور ادیبوں کو بھی صحیح راہ دکھائے کہ یہ لفظ ہی جس سے ایک ادیب تاریخ کے ایک بڑے حصے کو محفوظ کرتا رہتا ہے۔ ظالم کو الفاظ کے ذریعے اس کے ظلم کی تصویر دکھائی جائے کہ لفظ سے کوئی کارگر ہتھیا ر نہیں ۔
ادبی نقاد قاری کی رہنمائی اس صورت میں کرے گا کہ مظلوموں پر جو بم برسائے جارہے ہیں اس سے کس حد تک تباہی مچ رہی ہے، کتنے لوگ مر رہے ہیں، کتنے بچے یتیم ہورہے ہیں ، کتنے گھر اور سکول تباہ ہورہے اور یہ کہ اس تباہی کے پیچھے کون سی سیاست ہے ،کیا سامراجی طاقتیں ہیں، کون سے عناصر کارفرما ہیں اور تاریخ میں اس تباہی کو کس طرح دیکھا جائے گا اورآنے والے دور میں اس کے نتائج کیا ہوں گے اور اس مظلوم سماج پر اس تباہی کا کیا اثر ہوگا۔ یہاں پر نقاد ایک ادیب سے یہی تقاضا کرے گا کہ وہ جو دیکھ رہا ہے اس کی سچی تصویر پیش کرے اور لفظ کی حرمت کا خیال رکھے اور یہ ادب صرف لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ اس کا جو سماجی ، تاریخ و ثقافتی پہلو و مقصد ہے ایک ادیب اس مقصد سے دست بردار نہیں ہوسکتا۔ نقاد یہ بھی دیکھے کہ موجودہ دور کا ادیب ان بھیانک حالات کی صحیح طور سے عکاسی کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ نہیں یا کہیں وہ خود اس سازش کا حصہ تو نہیں جس سازش کے تحت مظلوم پر بم بر سائے جارہے ہیں اور اس کے گھر پربلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔یا اُسے قید ِبے گناہی (سزا) مل رہی ہے۔
ایک کہانی کار کی طاقت اس کی قلم یا اسکے الفاظ ہیں، جس سے وہ اپنی کہانی کی دنیا سجاتا ہے۔ وہ اپنی ان کہانیوں سے ظالم کو اپنا اصلی چہرہ اور اس کے ظلم سے مظلوم پر کیا بیتتی ہے اس کو دکھاتا ہے، جنگ ، ظلم و ناانصافی سے پیدا شدہ بھوک اور افلاس کی عکاسی کرتاہے۔ جنگ ، بھوک اور افلاس، ظلم و ناانصافی میں پسے ہوئے انسان کی کہانی، اُس کے جذبات و احساسات اور اُس کی مظلومیت کو اپنے ناول، افسانے یا نظم کا حصہ بنانا ایک ادیب کا بڑا کارنامہ ہے، جسے صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے اور جس کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
عہدِ جنگ میں جو ادب لکھا جاتا ہے وہ صرف الفاط کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ اس ادب کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے اس کی صحیح عکاسی ہو، جنگ کی ہولناکیاں اور تباہ کاریاں اس ادب کے ہر لفظ سے عیاں ہونی چاہیے۔سرکاری یا کارپوریٹ یا سرمادارانہ نظام کے اندر فروغ پانے والی تنقید سے اس کی توقع رکھنا عبث ہے بلکہ ایک باضمیر نقاد یا ادیب ہی ادب کو صحیح سمت دے گا اور قاری کی درست رہنمائی کرے گا۔ ادب یا تنقید کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ ہم جنگ یا اس جنگ میں شامل ظالم کی طرف کھڑے نہیں اور نہ ہم ظلم کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں بلکہ ہمارا ہر لفظ مظلوم کے لیے ہے۔ یہودی قوم کو دوسری عالمی جنگ کے دوران جن ہولناکیوں سے گزرنا پڑا، وہ ادب : ناول، یادداشت، نظم، افسانہ وغیرہ کے ذریعے ہی ہم تک پہنچا اور آج تک کتابوں میں محفوظ ہے۔ اس تناظر میں جاپانی مصنف اِرس چانگ نے بجا کہا ہے کہ ‘‘ ہولوکاسٹ کا بُھلانا دوسری بار قتل یا مارنے کے متردف ہے’ ۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں