روح کی آواز۔جاوید ایاز خان

یہ ۲۵ جولائی ۱۹۵۵ء کی ایک تاریک اور گرم ترین رات تھی۔ کوٹ ادو کی تنگ گلیوں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں گرمی اور حبس جب اکٹھے ہو جائیں تو قیامت کا سماں ہوجاتا تھا۔ لوگ اپنی چھتوں پر بھی جاکر ہاتھ کے پنکھے جھل جھل کر گزارہ کرتے تھے ۔تب پورے شہر میں بجلی کا نام ونشان تک نہ تھا ۔لوگ کس طرح یہ راتیں بسر کرتے تھے شاید ہماری نئی نسل آج اس کا تصور بھی نہیں کر پاےُ گی ۔میرے دادا مرحوم ذکر کیا کرتے تھے کہ نئی نئی ہجرت کی باعث تنگدستی کا یہ عالم تھا کہ چراغ جلانے کے لیے تیل تک خریدنے کی استعداد نہ تھی۔ طاقوں میں سرسوں کے تیل کے دئیے جلا کر گزارہ ہوتا تھا ۔البتہ گلی میں میونسپلٹی کی مدہم پرانی لالٹین کے جلنے کی روشنی گھر تک آرہی ہوتی تھی ۔پورے گھر میں صرف ایک لالٹیں تھی جو ایمرجنسی کے لیے محفوظ تھی ۔ان برے حالات کا تصور تمام عمر ہی ان کے لیے نہایت تکلیف دہ رہا ۔جس کا وہ اظہار برملا فرماتے تھے اور بتاتے تھے کہ اس رات جب تم پیدا ہوےٗ تو یہ عالم تھا کہ دائی کو دینے تک کو کچھ پاس نہ تھا عشاء کی نماز پڑھ کر ذرا اونگھ آئی تو خواب میں اپنا شہید پوتا اعجاز خالد نظر آیا (جو ۱۹۴۷ء میں تحریک آزادی میں ہندوں کے ہاتھ شہید ہوا تھا )جو کہہ رہا تھا اٹھو بڑے آبا میں آگیا ہوں ۔وہ یکدم بیدار ہوے تو دادی جان نے کہا فوری دائی کا انتظام کریں بچے کی ولادت وقت سے پہلے ہی متوقع ہے گھر میں سواے ُ چھوٹے بیٹے سرفراز خان کے کو ئی موجود نہ تھا اسے ساتھ لیا اور لالٹین ہا تھ میں لے کر گھر سے نکلے متعلقہ دائی کے گھر سے پتہ کیا تو وہ گھر پرموجود نہ تھی دوسری دائی کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔نئے نئے مہاجر ہونے کی وجہ سے سرائیکی دائیاں مہاجروں کے اور مہاجر دائیاں لوکل لوگوں کے گھر جانے سے گریز کیا کرتی تھیں ۔ اتنے میں سامنے کے ڈیرے سے پسینے سے شرابور بنیان اور تہبند میں ملبوس ایک نوجوان نکلا اور نہایت ادب سے سلام کیا اور بولا خاں صاحب خیر تو ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں؟ جب بتایا تو بولا آپ گھر چلیں میں ابھی انتطام کرتا ہوں اور اسی حالت میں اپنے گھر سے گھر والی کو ساتھ لیکر دائی کو بلانے وارڈ نمبر ۱۴ کی جانب سرفراز خان کے ہمراہ چل پڑا اور تھوڑی دیر بعد دائی نور بی بی کو لیکر آگیا یہ نور بی بی بعد میں ہمارے خاندان کی مستقل دائی بن گئی تھی ۔یہ نوجوان اور اس کی بیوی صبح تک دادا جان کے ساتھ گھر پر موجود رہے ۔یہ عظیم شخص کو ئی عام آدمی نہ تھا یہ غلام محمد عرف پٹھانے خا ن تھے جو اپنی اہلیہ سمیت سخت گرمی میں پسینے سے شرابور دادا جان کی مدد کے لیے موجود تھے ۔جو بعد میں بین الااقوامی صوفیانہ کلام اور فوک گلوکار پٹھانے خان کے نام سے شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچے۔مگر مجھے جب ملتے تو اپنے بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہوے ُ یہ ضرور کہتے کہ میں تو تمہاری پیدائش سے ہی تمہارے ساتھ ہوں ۔ہم سب محلے کے بچے انہیں چاچا پٹھانے خان کہہ کر پکارتے تھے ۔میری زندگی میں ان کے اس خاص کردار کی وجہ سے مجھے ان سے دلی لگاو ُ ہو گیا ۔آج میں اس عظیم انسان کو خراج تحسین پیش کرنے جا رہا ہوں جو ایک اچھا انسان۔محبت کرنے والا بزرگ اور سادگی اور خلوص وایثار کا پیکر تھے اپنی دھرتی اور وسیب سے محبت سے سرشار اور اپنے فن کے لیے زندگی وقف کر دینے والا صوفی منش انسان پٹھانے خان بےشک اس ملک کا بہت بڑا سرمایہ تھا ۔ہم اکثر ان کے ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ کچے ڈیرے پر انہیں ریاض کرتے دیکھتے رہتے تھے ۔ ان کی وہ یادیں آج بھی میری زندگی کا حصہ ہیں ۔ذرا بڑے ہوے تو محلے میں سب سےء پہلے دوست ہم چار بچے تھے ۔جن میں میرے علاوہ چاچا پٹھانے خان کے فرزند محمد اقبال عرف بالی (جو آج کل اقبال پٹھانے خان کے نام سے اپنے والد کے فن کو زندہ رکھے ہوے ہیں ) عزیز الرحمان بامن عرف مرحوم ( جو بعد میں سپاہ صحابہ کے سلار اعلیٰ پنجاب بنے ) شکیل احمد خان مرحوم میرے کزن تھے۔ شاید یہ محلے کا شرارتی ترین ٹولہ تھا سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔اس لیے ہماری شرارتوں سے تنگ آکر ہم سب کو ساتھ کے پرائمری سکول نمبر ۲ میں داخل کرادیا گیا اور ہم سکول فیلو بھی بن گئے۔طویل شرارتوں اور آوارہ گردی کی راہ میں چچا پٹھانے خان ہمیشہ آڑے آتے کبھی سخت گرمی میں ہمیں نہر سے پکڑ لاتے تو ہلکی پھلکی ڈانٹ ضرور پڑتی ۔کبھی دھوپ میں باہر آوارہ گھومنے سے روکتے تھے ۔ لیکن وہ جب بھی اپنے بیٹے اقبال کو جیب خرچی کے لیے پیسے دیتے تو ساتھ ہونے پر مجھے بھی اتنے ہی پیسے دیتے تھے ۔ پچھلے دنوں کوٹ ادو جانا ہوا تو پرانے دوست اقبال پٹھانے خان سے پٹھانے خان چوک میں بڑے عرصے بعد ملاقات میں اپنی پرانی یادوں ،شرارتوں اور اپنی نالائقیوں کو دوہرایا ساتھ ساتھ بزرگوں کی محبتوں اور شفقتوں کو شمار کرتے رہے ۔اس زمانے میں بیاض اکیڈمی اور بزم فکر فن کے زیر اہتمام مشاعروں کو عروج حاصل تھا ۔ہمارۓ چچا بیاض سونی پتی مرحوم کی جانب سے میری اور میرے دوستوں کی یہ ڈیوٹی تھی کہ میں ہر مشاعرے میں چاچا اپٹھانے خان کو لیکر جانا ہوتا تھا۔ پٹھانے خان مرحوم چچا بیاض خان کی غزلوں کے دیوانے تھے ہر مشاعرے میں عارفانہ کلام کے ساتھ ساتھ ان کا کلام بھی ضرور پیش کرتے تھے۔چچا نیاز کوکب مرحوم کے ساتھ ان کی بےشمار تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔پورا بچپن ان کی شفقت میں گزرا پھر تعلیم اور ملازمت نے دوریاں پیدا کردیں لیکن جب بھی کوٹ ادو جانا ہوتا ان کی زیارت ضرور کرتا اور ان کی دعاوں سے مستفید ہوتا تھا ۔ وہ مجھے کبھی چاۓ پلاۓ بغیر نہ جانے دیتے تھے ۔بنک میں میری ترقی کے بارے میں خبر سن کر بہت خوش ہوتے اور فخر کرتے تھے ۔سچ پوچھیں تو میں نے عاجزی وانکساری کا پہلا درس ان کی ذات سے ہی لیا ہے ۔

پٹھانے خان کی زندگی کے بارے میں بےشمار مضامین شائع ہو چکے ہیں ۔ان کی آواز اور لہجے کی انفرادیت اور صوفیانہ گائیکی نے انہیں پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور کردیا ہے ۔بیرون ملک سے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے ایسے ایسے لوگ بھی آۓ جو سرائیکی یا اردو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے مگر وہ پٹھانے خان کی آواز کے سحر میں گرفتار تھے ۔آج بھی ان کا گایا ہوا صوفیانہ کلام ہمارے وسیب اور ملک کا عظیم سرمایہ شمار ہوتا ہے ۔صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور بے شمار ایوارڈ و اعزازت ان کی موسیقی اور آواز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔وہ درویش صفت فنکار اپنی ذات میں مکمل ایک دنیا تھے۔وہ دنیا بھر میں کوٹ ادو کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی شناخت بن چکے تھے ۔ان کے مداحوں کی ایک بہت بڑی تعدا د پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں آج بھی موجود ہے ۔ان کی مشہور کافی “میڈا عشق وی توں میڈا یار وہ توں “کو پاکستان اور ہندوستان کے مایہ ناز گلوکاروں نے بھی گایا ہے جو ان کے لیے ایک خراج تحسین ہے ۔سرائیکی زبان میں کافی کو ایک منفرد اسلوب اور انداز دینے پر ان کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

پُر سوز آواز، دلگیر انداز اور اپنی منفرد طرز کے مالک فوک گلوکار پٹھانے خان کو مداحوں سے بچھڑے چوبیس برس بیت گئے ہیں۔اب بھی جب میں اپنی آبائی گلی سے گزرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ابھی وہ سامنے سے نمودار ہو جائیں گے اور مجھے سینے سے لگا لیں گے ۔سرائیکی وسیب کی پہچان پٹھانے خان 1926 کوپنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی بستی تمبو والا میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام محمد خان تھا۔ وہ شروع ہی سے خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے ۔پھر انکی محنت اور ریاضت نے ان کی آواز کو چار چاند لگا دئے تھے ۔انہیں غزل، کافی، لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا،پٹھانے خان کو عارفانہ کلام کی گلوکاری میں ملکہ حاصل تھا۔ پٹھانے خان نے اپنی سریلی آواز سے کئی دہائیوں تک خواجہ غلام فرید اور شاہ حسین کی کافیاں، بابا بلھے شاہ اور مہر علی شاہ سمیت صوفی شعرا کا کلام گا کر امن و محبت کا پیغام عام کیا۔ پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے۔جنرل ایوب خان ،جنرل یحییٰ خان ، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق بھی استاد پٹھانے خان کی دل میں اترنے والی آواز کے معترف تھے۔ اور ایوان صدر میں مدعو کرتے تھے ۔مگر اس درویش کی عاجزی میں کبھی فرق نہ آیا ۔پٹھانے خان کی آواز میں درد کے ساتھ ساتھ بے پناہ کشش بھی تھی ۔ اسی لیے ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، چینہ ایں چھڑیندا یار ، کیا حال سناواں دل دا ،کوئی محرم راز نہ ملدا ، الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔ پٹھانے خان نے سرائیکی کے ساتھ ساتھ اردو کلام بھی کمال گایا۔ ان کی گائی ہوئی غزل ’’اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو‘‘زبان زد عام ہے۔اس غزل کو کوئی دوسرا گانا بھی چاہے تو ممکن نہیں ہے ۔ پٹھانے خان کی خدمات کےاعتراف میں انہیں 1979 میں صدارتی ایوارڈبرائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ پٹھانے خان 74 برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 9 مارچ 2000 میں اپنے آبائی شہر کوٹ ادو ہی میں اپنے چاہنے والوں کو اداس کر کے راہی عدم ہوگئے۔ ان کے فن کے سحر میں مبتلا ان کے مداحوں نے کوٹ ادو کے قدیم بازار کو ان کے نام سے منسوب کر دیا ہے اور اب وہ پٹھانے خان بازار کہلاتا ہے۔انہیں بھی اپنے شہر اور اپنے وسیب اور یہاں کے لوگوں سے بہت زیادہ محبت تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے دادا جان ،اباجان اور چچا بیاض خان سے انہیں بڑا لگاؤ تھا جب داداجان فیاض خان کا انتقال ہوا تو روتے ہوۓ کہتے تھے کہ میں تو آج یتیم ہوا ہوں ۔ایک دفعہ قلعہ ڈیراور میں روہی میلے کا اہتمام ہوا تو اپنے بیٹے منیر خان کے ہمراہ تشریف لاۓ اور مجھے شرف ملاقات حاصل ہوا میں نے پوچھا چچا جان آپ جب بھی ہمارے ساتھ بات چیت کر رہے ہوتے ہیں یا بولتے ہیں تو آپکی آواز وہ نہیں ہوتی جو آپکے کلام پڑھنے کے دوران ہوتی ہے تو کہنے لگے یہ میری آواز ہے اور وہ میری روح کی آواز ہوتی ہے ۔صوفیانہ کلام کی آواز تو میرے دل سے نکلتی ہے ۔بےشک پٹھانے خان ایک گلوکار نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے ۔ان کی آواز ہوا اور خوشبو کی طرح سرحدوں کی قید سے آزاد ہے ۔فرانس میں جاکر اپنی آواز کا جادو جگانے والے پٹھانے خان سے ملنے یہ غیر ملکی لوگ کوٹ ادو تک پہنچے ۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنی دھرتی اور وسیب سے بہت محبت کرتے تھے جب پٹھانے خان کو مراعات ،رقبے اور جاگیر دینے کے لیے بھٹو صاحب نے بہت اصرار کیا تو پٹھانے خان نے کہا تھا کہ سائیں بس میرے وسیب کی آپ کو پارت ہو ( یعنی میری دھرتی اور علاقے کے لوگوں کا خیال رکھنا ) ۔بےشک پٹھانے خان جیسے فنکار روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔جوخودی نہیں بیچتے بلکہ غریبی میں ہی نام پیدا کرتے ہیں ۔آج بھی عارفانہ کلام کی گائیکی میں پٹھانے خان کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔آج بھی کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر ان کے فرزند اقبال پٹھانے خان نے اپنے والد کے فن کی عظیم واراثت کو سنبھال رکھا ہے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ہر دم کوشاں ہے ۔بلکہ اس خاندان کے کئی افراد بھی اس فن کو زندہ رکھنے کے سفر میں ان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔حکومت اور علاقائی ثقافتی تنظیموں سے درخواست ہے ان کی اولاد کی اس مشن کو جاری رکھنے میں سرپرستی کرےٌ ۔اللہ پٹھانے خان مرحوم کے درجات بلند فرماۓ آمین !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply