مشرق وسطیٰ اکتوبر 2023ء کے بعد سے ایک اور جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ بری خبروں کا سلسلہ تھمنے کو نہیں آ رہا۔ اوپر سے مصیبت یہ بھی ہے کہ اوریا مقبول جان جیسے لوگ آخری زمانے کے بارے لکھی گئی کتابوں سے کچھ عبارتیں سنا سنا کر ڈراتے رہتے ہیں کہ عنقریب ہر طرف خون ہی خون ہو گا۔ یہ آخری جنگ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہی حال مسیحی دنیا کا بھی ہے، وہاں بھی بعض پادری مشرق وسطیٰ کے بارے انجیل سے پیش گوئیاں سناتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خون کا دریا بہنے کے بعد مسیح علیہ السلام آیا ہی چاہتے ہیں۔ یاد رکھیے، اپنے زمانے کو جو لوگ نہ سمجھ سکیں وہی اسے آخری زمانہ قرار دے کر پیش گوئیوں کی کتابیں کھول لیا کرتے ہیں۔ رہی تباہی کی بات تو یہ تباہی صلیبی جنگوں اور منگولوں کے حملوں میں بھی آ چکی ہے اور اس بات کی کوئی یقین دہانی نہیں کروا سکتا کہ یہ یا اس سے بدتر تباہی ہزار سال بعد پھر نہیں آئے گی۔ بہرحال ان حالات میں خود کو ہیجان اور عدم توازن سے بچانے کیلئے صورتحال کا ایک طائرانہ جائزہ لینا مناسب رہے گا۔
اسرائیل
اسرائیل کے قیام کا خیال سب سے پہلے مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے میں آیا تھا۔ مسیحیت میں آخری زمانے کے حوالے سے یہ آیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے وقت فلسطین میں یہودی ہونگے جنہیں مذہب بدلنے کا حکم دیا جائے گا اور نہ بدلنے کی صورت میں قتلِ عام کیا جائے گا۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے کچھ پروٹسٹنٹ پادریوں نے یہ سوچا کہ ظہور کے انتظار کا مطلب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا نہیں بلکہ ظہور کیلئے اسباب فراہم کرنا ہے۔ وہ اسباب مذہب نے تو نہیں بتائے تھے لیکن انہوں نے خود علاماتِ ظہور کو فراہم کرنا ہی اپنی ذمہ داری بنا لیا۔ یہاں سے یہ خیال آیا کہ یہودیوں کو دنیا بھر سے نکال کر فلسطین منتقل کیا جائے۔ نالائق لوگ علم حاصل کر کے کوئی تعمیری کام کرنے کے بجائے بے کاری کی بوریت سے نکلنے کے بہانے سوچتے رہتے ہیں۔
اس تصور میں بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر انتظار کا مطلب ظہور کی راہ ہموار کرنا ہی ہو تو قیامت کے انتظار کا مطلب بھی یہی لیا جانا چاہہے۔ اس طرح گویا قیامت کا آنا انسانوں کی کوشش پر موقوف سمجھنا ہو گا جو کہ غلط ہے۔ انسان کیوں چاہیں گے کہ قیامت کے اسباب فراہم کریں؟ مسیحا کا ظہور یا قیامت کا آنا خدا کی مرضی پر موقوف ہے۔
دوسری بات یہ کہ کسی کے آنے سے پہلے ہی خود سے فرض کر کے کچھ کام کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ جبکہ اس نے یہ کام کرنے کو نہ کہا ہو؟ تیسری بات یہ کہ کیا معلوم ظہور اب ہو گا یا ایک ہزار سال بعد ہو گا یا پانچ ہزار سال بعد ہو گا؟
بہر حال عملی طور پر یہی سوچ امریکا اور یورپ کے اکثر شہریوں کو اسرائیل کی اندھی حمایت پر مجبور کرتی ہے۔ سیاستدانوں نے چونکہ ووٹ انہی لوگوں سے لینا ہوتا ہے، لہٰذا گاہے بگاہے اسرائیل کے تحفظ کی قسم کھاتے رہتے ہیں۔
فلسطین میں یہودی وطن بنانے کے خیال کو انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں سیکولر یہودیوں نے اپنا لیا۔ یہ صیہونی کہلائے، جو یہودی مذہبی رہنماؤں کی حماقتوں سے بیزار تھے۔ ان کا مقصد کسی مسیحا کے ظہور کی راہ ہموار کرنا نہیں تھا بلکہ ایک جدید قومی ریاست بنا کر یہودیوں کا تحفظ کرنا تھا۔ لیکن ان کو زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ بیسویں صدی کے وسط میں جنگِ عظیم دوم کے دوران ہونے والے مظالم کی وجہ سے صیہونیت یورپی یہودیوں میں مقبول ہوئی۔ یہ سوچ عرب یہودیوں میں پھر بھی مقبول نہ ہوئی تھی۔ عرب یہودیوں میں یہ سوچ عرب نیشنلزم اور اخوانی اسلامزم کے فروغ کے بعد پیدا ہوئی۔ اس کے پیچھے موساد کا بھی ہاتھ تھا کیونکہ نوزائیدہ مملکت اسرائیل کو آبادی کی کمی کا سامنا تھا۔ عرب یہودیوں پر حملے ہونے لگے اور اپنے آبائی شہروں میں اجنبی قرار پائے تو ان لاکھوں یہودیوں کو عرب ممالک سے نکلنا پڑا جو جا کر فلسطینیوں کے گھروں میں آباد ہوئے۔ یوں عرب ممالک میں یہود دشمنی سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچا۔
اسرائیل ایک سیٹلر کولونیل ریاست کے طور پر 1948ء میں معرض وجود میں آیا تھا۔ ایسی ریاست کا مزاج محض مقامی وسائل کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ مقامی آبادی کا صفایا کر کے اس جگہ کو اپنا وطن بنا لینا بھی ہوتا ہے۔ اسرائیل اگرچہ یہودیوں کیلئے جمہوری ریاست تھا لیکن فلسطینیوں کیلئے کسی قسم کے انسانی حقوق کا قائل نہ تھا۔ اس کیلئے گویا وہ موجود ہی نہ تھے۔
جمہوری ملک ہونے کی وجہ سے اسرائیل اندر سے مضبوط تھا۔ اس میں کسی کو ایجنٹ بنانا مشکل تھا۔ البتہ اب اسرائیل یہودیوں کیلئے بھی ایک فسطائی ریاست بنتا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو سپریم کورٹ کے دانت نکال کر ملک کو جس راستے پر ڈالنا چاہتا ہے وہ یہودیوں کی آزادی کو بھی ختم کر دے گا۔ اس سے فلسطینیوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہو گا۔ نیتن یاہو کی سیاست کا آغاز ہی اسحاق رابین کے قتل کے ساتھ ہوا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے پر فلسطین میں امن کی جو امید پیدا ہوئی تھی اسے نیتن یاہو کے حامیوں نے مٹا دیا اور فلسطینیوں کے پاس حماس کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑا۔ یہی ذہنیت سیٹلر کولونیل ریاست کی روح ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
آزادی اور عقل کا تعلق
نطشے نے کہا تھا کہ انسان کی بنیادی ضرورت طاقت کا حصول ہے۔ طاقت اپنی آزادی کے تحفظ کی صلاحیت کا نام ہے۔ آزادی انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی میں سب سے بڑی چیز جہالت سے آزادی ہے کیونکہ ہم اپنے دماغ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ جہالت سے آزادی کیلئے ہی معاشرے میں اظہارِ رائے کی آزادی ضروری ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی سے افراد میں عقل پیدا ہوتی ہے۔ جب مختلف آراء کو سننا اور ان کو رد کرنا ممکن ہو تو دماغ میں علم اور جہلِ مرکب میں فرق کرنے کی صلاحیت آتی ہے۔ عقل استعمال کرنے سے اس کی دھار مزید تیز ہوتی ہے، ذہن لطیف نکات تک پہنچنے لگتا ہے۔ قرآن کریم میں تقویٰ کا لازمی نتیجہ عقل میں اضافہ بتایا گیا ہے۔ (سورہ انفال، آیت 29) عقل کا تعلق نیک کردار سے بھی ہے۔ جو انسان دوسروں کی برائیوں سے عبرت لے کر خود سے وہ برائیاں دور کرتا ہے اس کا کردار نکھرتا چلا جاتا ہے۔ دوسروں کیلئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند ہو، اپنے کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچنا بھی عقل ہی ہے۔ اخلاق کا تعلق عقل سے ہوتا ہے، بعض لوگ ظاہری آداب کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن ان کے اندر اخلاقی اقدار نہیں ہوتیں۔ مثلاً شجاعت درست موقف اپنانے کا نام ہے، یہ بھی عقلمندوں میں ہی ہوا کرتی ہے۔ شخصی آزادیاں دینے کا مقصد بدکاری اور حماقت کو کم کرنا ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں آزادیاں نہیں ہیں وہاں جرائم اور جہالت کا راج ہے۔
عرب قوم پرستی اور اخوانی اسلامزم
جنگ عظیم دوم کا خاتمہ ہوا تو امریکہ نے برطانیہ اور یورپی ممالک کو حدوں میں رکھنے کیلئے سنبھلنے سے پہلے کالونیاں چھوڑنے اور مقامی آبادیوں کو آزادی دینے کا کہا۔ نیٹو بنا کر ان کی افواج کو اپنے پروں تلے لیا اور یوں ان کے درمیان جھگڑوں کو ختم کیا۔ اس طرح مسلمان بھی یکدم آزاد ہو گئے۔ لیکن ان کو جدید دور کی ذمہ داریوں کا احساس نہ تھا۔ یہ جدید دنیا کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایسی ریاستیں بنائیں جنہوں نے ان کو پھر غلامی کی زندگی میں دھکیل دیا۔
مثلاً انہوں نے سمجھا کہ شاید لینن اور ماؤ کا کمیونزم سائنسی ہے۔ شاید مسولینی اور ہٹلر درست تھے۔ ہٹلر ہی کی پیروی میں یہود دشمنی بھی اپنا لی۔ ہزاروں سالوں سے یہودی مسلمانوں کے ساتھ امن سے رہ رہے تھے لیکن اب عرب نیشنلسٹ ان کو سمندر برد کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
عرب نیشنلسٹ یہ بات نہیں سمجھتے تھے کہ مسولینی اور ہٹلر جن ممالک پر قابض ہوئے وہ سائنس اور جدید علوم کا مرکز تھے۔ صنعت اور اخلاقیات میں بہت آگے تھے۔ وہ مصر یا ایران جیسے ممالک نہیں تھے۔ مسولینی اور ہٹلر نے اپنے ملکوں کی طاقت کو ختم کیا۔ تباہی لے کر آئے۔ جس فاشزم نے بنے بنائے معاشرے برباد کر دیئے وہ زیرِ تعمیر معاشروں کو کیسے ترقی کی طرف لے کر جا سکتا تھا؟
بہرحال سرد جنگ کے دوران عرب ممالک میں فاشزم کی طرز پر عرب نیشنلزم کی لہر آئی۔ فاشزم اصل میں سوشلزم اور اپنی نسل سے محبت کا اتحاد ہے۔ نہ سوشلزم معقول ہے نہ کوئی نسل ملاوٹ اور اختلاف سے پاک ہوتی ہے۔ عرب فاشزم نے رہی سہی عقل کا بھی ستیا ناس کر دیا۔ یہ لوگ چونکہ روس کے اتحادی تھے، لہٰذا امریکہ نے ان کے مقابلے میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی سوچ کو پروان چڑھایا۔ یہ سوشلزم اور مذہب سے محبت کا اتحاد تھا۔ مذہب کی ایسی تفسیر کی گئی جو بالکل نامعقول تھی۔ مذہب میں تو مباحات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف سمجھا جاتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا اعمال نامہ الگ ہے۔ لیکن ان اخوانی حضرات نے ہر مسلمان کو ایک جیسے سانچے میں فٹ کرنا چاہا اور شخصی آزادی کے سب سے بڑے دشمن بن کر ابھرے۔ القاعدہ، حماس، داعش، طالبان، وغیرہ اسی سوچ کی پیداوار ہیں۔ ان میں اطاعت امیر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جو عموماً کوئی بیوقوف شخص ہی بنتا ہے۔
عرب نیشنلزم کی ہار اس کے ماتھے پر لکھی ہوئی تھی۔ اس کی ہار 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر اور شام کی شکست کی صورت میں ہوئی۔ اس کے بعد عربوں میں مذہبی فاشزم پھیل گیا جو ابھی تک مسلط ہے۔ فاشزم کبھی بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیشہ تخریب ہی کرتا ہے۔ جمہوریت اور عقل کی آزادی کی منزل ابھی بہت دور ہے۔
یہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ قوموں کی آزادی کی جدوجہد کے نام پر افراد کی ذاتی زندگی میں مداخلت، اختلافات مٹا دینے کی کوشش اور لوگوں کی ذاتی آزادیوں کو کچلنا اپنے آپ میں ایک تناقض ہے۔ فاشسٹ لوگ اپنے عوام کو آزادی نہیں دلایا کرتے۔
ایران
ایران میں 1979 میں جو انقلاب آیا اس کے بعد اس دور کی مقبول ذہنیت، یعنی اخوان المسلمون کی سوچ، کے مطابق ہی ایک مخصوص گروہ کی حکومت قائم ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہاں جمہوریت نہیں بلکہ فاشزم کی ایک شکل نافذ ہے۔ دوسری جانب تصوف کو بہت رواج دیا گیا ہے۔ حکومتی طبقہ عوام میں سے دس پندرہ فیصد جانثار اکٹھے کر کے اپنا تسلط قائم کئے ہوۓ ہے جو جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے کیوں کہ فکری طور پر پسماندہ ممالک میں ایسی سوچ کے خریدار ملنا مشکل نہیں ہوتا۔
ایران کا اسرائیل کے بارے موقف یہ ہے کہ اس سیٹلر کولونیل ریاست کو ختم ہونا چاہیے اور اس کی جگہ ایک نئی ریاست قائم ہو جو فلسطینیوں کو بھی برابر کے حقوق دے۔ ان کو بھی پاسپورٹ اور بنیادی آئینی تحفظ ملے۔ اسرائیل میں نوے لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ عام یہودی ہماری طرح ہی انسان ہیں۔ اگر ہولوکاسٹ نہ ہوا ہوتا تو وہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر یہاں کبھی نہ آتے۔ ہولوکاسٹ سے پہلے صہیونی اقلیت میں ہوتے تھے۔ لہٰذا ان کے قتل عام کی دھمکیاں دینے کے بجائے فلسطینیوں کیلئے برابر انسانی حقوق کا مطالبہ یہود دشمنی نہیں ہے۔ عقلائے عالم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔
چونکہ ایران میں شخصی آزادی نہیں ہے۔ حکومت ہزاروں مخالفین کا ناحق خون کر چکی ہے۔ لہٰذا انقلاب کے بعد بھی مجموعی طور پر حماقت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ فاشسٹ حکومت بنیادی طور پر غنڈوں کے زور پر چلا کرتی ہے۔ یہ لوگ معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کے حامیوں میں بات بات پر لوگوں کو ایجنٹ کہنے کی روش عام ہے۔ اس سے یہ ہوا ہے کہ ایران کے حکومتی حلقوں میں اصل میں ایجنٹ بھرتی ہو چکے ہیں۔ چنانچہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا قتل اس وقت ہوا جب ایران سے نیلفروشان نامی فوجی افسر انہیں ملنے آیا۔ ادھر وہ عمارت میں داخل ہوا، ادھر بمباری شروع ہو گئی۔ اسرائیل کو معلوم تھا کہ یہ کس سے ملنے جا رہا ہے۔ اسی طرح اسماعیل ہانیہ کا تہران میں قتل بھی اعلیٰ افسروں میں پائے جانے والے جاسوسوں کی کارستانی لگتا ہے۔
دوسری طرف غزہ میں تمام تر ڈرونز اور فوجی قبضے کے باوجود اسرائیل مغویوں تک پہنچنے میں ناکام ہے۔ یحییٰ سنوار کے بارے بھی اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا، یہاں تک کہ کچھ اناڑی فوجی اسے قتل کر بیٹھے۔ اسرائیل یحییٰ سنوار کو زندہ پکڑ کر مغویوں کے مقام سمیت کئی اہم معلومات نکلوا سکتا تھا لیکن اسے معلوم ہی نہ تھا کہ یحییٰ سنوار کہاں ہے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی حماس سے اختلاف بھی رکھتے ہوں تو اسے اسرائیل پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اسرائیل ان کا بدترین دشمن ہے۔
ایران کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جوانگریزوں نے دریافت کر کے دیئے تھے۔ ایسی دولت اسرائیل کے پاس نہیں۔ لیکن ایران کی صنعت میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہو سکی۔ کتب بہت شائع ہوتی ہیں لیکن معاشرے کی اخلاقی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ دولت بہت ہے لیکن دنیا میں آگے بڑھنے کیلئے قدرتی دولت ہی کافی نہیں ہوتی۔
ایرانی قوم پرستی
موجودہ ایرانی حکومت کے مخالفین بھی جمہوریت کا ظرف نہیں رکھتے۔ ایران میں اس وقت نسلی فاشزم کی لہر بھی عروج پر ہے۔ اس کی قیادت سابقہ شاہ کا بیٹا رضا پہلوی کر رہا ہے۔ اس نے ایک جتھہ تیار کر لیا ہے جو دیندار افراد یا سیاسی مخالفین کیلئے انسانی حقوق کا قائل نہیں۔ وہ اپنے دماغ بند کر کے خالص ایرانی بننے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایران کے ماضی کا ایک غلط تصور گھڑ کر اس ایران کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں جو تھا ہی نہیں۔ رضا پہلوی کے باپ کی حکومت شخصی آمریت تھی، اس میں کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتی تھیں، لیکن وہ فاشزم کی طرز پر کسی جتھے کا قبضہ نہیں تھا۔ تاریخ پڑھنا تبھی مفید ہوتا ہے جب اس سے خود آگاہی حاصل ہو سکے، ورنہ تاریخ پڑھ کر ماضی میں رہنے لگ جانا اور اپنے زمانے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا جہالت ہے۔ لیکن یہ حضرات چاہتے ہیں کہ اب یہ بھی ایران کے دس بارہ فیصد عوام کو اوباش بنا کر باقیوں کو دبا لیں۔مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کے آ جانے سے اوباشوں کے جتھے منظم ہو کر عقلمندوں پر مسلط ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے یہ بیماری مزید بڑھا دی ہے۔
ایران میں رضا پہلوی کے مرید امریکہ اور اسرائیل سے ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کسی جنگ کی صورت میں ہزاروں افراد کے مارے جانے کو معمولی سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ انکی بھول ہے کہ امریکہ یا کوئی اور ملک اپنے بچے ان کے جتھے کی حکومت لانے کیلئے مروائے گا۔ ان ممالک کو صرف اپنے مفادات کے تحفظ سے غرض ہے اور وہ ایران اور اس کے اتحادی گروہوں پر صرف محدود حملے کر کے اپنے اہداف حاصل کریں گے۔ عرب قوم پرستی کی طرح ایرانی قوم پرستی بھی وقت اور وسائل کے ضیاع سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کرے گی۔
عبرت
مشرق وسطیٰ کے معاملات پر پاکستانیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو صرف عبرت حاصل کرنے کے لئے جاننا چاہیے تاکہ ہم اپنے معاشرے میں پروان چڑھنے والے غلط رجحانات کو روک سکیں۔ اپنے ملک میں آزادی، جمہوریت اور سب انسانوں کیلئے برابر حقوق یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ اس طرح لوگ عقلمند ہوں گے اور ہمارے مسائل کم ہو جائیں گے۔
قوم پرستی اور لیفٹ کے اتحاد کا مسئلہ ہمارے ملک کے قوم پرستوں میں بھی ہے۔ مذہب اور سوشلزم کے اتحاد کی بیماری بھی ہمارے ملک میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں