آٹھواں آسماں نہیں آٹھواں پاتال ہے یہ/محمد عامر حسینی

رات کے 12 بج کر 45 منٹ ہوچکے تھے۔ اکتوبر کی 24 تاریخ ہوئے پورے 45 منٹ گزر گئے تھے ۔ میرے موبائل پر تہنیتی ایس ایم ایس ، وٹس ایپ میسجز ، وائس میسجز کا ایک سیلاب امنڈ آیا تھا۔ ایسے میں فیس بک میسنجر پر ایک پیغام نمودار ہوا،
آداب!
کبھی کسی پہاڑ کی بلندیوں کو دیکھتے،
کبھی صحرا کی وسعتوں میں چلتے،
کبھی یاروں کی سبھا میں بیٹھتے،
کبھی تنہایوں سے لڑتے،
کبھی راہ میں ہاتھ پھیلائے آدم زادوں سے نظریں چراتے،
کبھی پھولوں سے باتیں کرتے،
کبھی حسین چہروں سے دل کو بہلاتے
کبھی کتاب پڑھتے،
کبھی شعر سنتے
سانس چلتی رہی ، دماغ سوچتا رہا ، دل دھڑکتا رہا اور قلم لکھتا رہا۔۔
اور انہی لفظوں کو “آٹھواں آسمان” کی صورت ملی
گر قاصد راہ پائے تو آٹھواں آسمان آپ کے در پہ آئے.؟

اتنے خوبصورت اور دل موہ لینے والے شاعرانہ الفاظ میں مدعا بیان کرنے والے اور کوئی نہیں امرتا ہاؤس ،فاضل پور، ضلع راجن پور میں رہنے والے نثر کے نزار قبانی ‘زراق شاہد’ تھے ۔ جن سے میری آج تک بالمشافہ ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن میں نے ان کی تحریری صحبت میں گھنٹوں گزارے ہیں اور میں ان کی تحریر کا عاشق ہوں ۔ میرے بس میں ہو تو میں اپنے شہر میں ایک ایسا میوزیم بناؤں جہاں ان کی ہر تحریر ببل سپیچ کی صورت دیواروں پر سجاؤں اور روز وہاں خلق خدا کا اژدھام ہو اور وہ ان نثر پاروں کو پڑھے اور حرز جاں بنالے۔

مجھے 25 اکتوبر 2024ء کو رات 12 بجے ملتان دفتر سے واپس گھر پہنچا تو ان کی جانب سے ان کے نثرپاروں پر مشتمل مجموعہ کتابی شکل پر ریڈنگ روم کی ٹیبل پر میرا منتظر تھا- تھکاوٹ سے میرا پورا جسم ٹوٹا ہوا تھا اور ذہن بھی آج کی سمجھوتہ باز صحافت کے معنوں سے خالی کھوکھلے لفظوں کو خبروں کا روپ دیتے دیتے اور ان کی ایڈیٹنگ کرتے بہت تھک چکا تھا-
میں نے کتاب کا پہلا صفحہ کھولا ، اس پہ لکھا تھا ”جنم دن کی مبارک   “آٹھواں آسمان”ہمارے  عامر حسینی کے لیے  ” ۔

نجانے کیوں یہ پیغام پڑھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں  ۔ مجھے بے اختیار اپنا دوست شمیم عارف قریشی یاد آگیا، اس نے اپنی شاعری کی واحد کتاب “نیل کنٹھ” میرے حوالے کرتے ہوئے ایسے ہی الفاظ لکھے تھے۔ وہ دسمبر کی انتہائی سرد شام تھی – میں ان کے گھر کے برآمدے میں ایک کرسی پر بیٹھا سردی سے کانپ رہا تھا ، حالانکہ میں نے  لیدر کی ایک جیکٹ پہنے ہوئی تھی – ہاتھ میں ٹرے پکڑے وہ اندر سے باہر آئے۔ ٹرے میں دو چائے کے بڑے کپ تھے۔ انھوں نے ٹرے میز پر رکھی اور فورا ًاندر گئے اور تھوڑی بعد وہ باہر آئے تو ایک گرم چادر ان کے ہاتھ میں تھی وہ انھوں نے مجھے پکڑا دی – وہ شال آج بھی میرے پاس ہے اور میں اسے اوڑھ کر سوتا ہوں ۔ میں نے کتاب کا پیش لفظ پڑھا اور کتاب بند کرکے رکھ دی اور میں ان کی کتاب میں لکھے غالب کے اس شعر کو بار بار پڑھتے ہوئے چارپائی پر سونے کے لیے لیٹ گیا،
جاری تھی اسد داغ جگر سے مری تحصیل
آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا
ہائے  ۔۔۔۔
آج 26 اکتوبر ہے ۔ شام کے 5 بجے ہیں ۔ میں اپنے ریڈنگ روم سے باہر نکل کر سامنے گیلری میں آیا ہوں۔ اور سگریٹ پھونکنے کے ساتھ ساتھ “آٹھوآن آسمان” کے لکھے نثر پارے ایک کے بعد ایک کرکے پڑھتا جا رہا ہوں ۔

یہ نثر پارے اصل میں فلیش بیک کی تکنیک میں لکھا گیا کسی فلم کا اسکرپٹ لگتا ہے۔ کہانی کا راوی ‘عطیہ’ کے   لیے  جاتا ہے۔ اور وہاں سے وہ ہمیں ایک دم تقسیم کے بعد عقیدے پر بنے ملک کے وزیراعظم کے پاس لیجاتا ہے۔ وہاں سے وہ دریا کے بکنے کی کہانی اور اس میں چھپی پیاس، قحط اور بھوک جو سرائیکی وسیب میں اترنے والی تھی کا احوال دیتا ہے جو اس گھر کے بزرگ نے پیشن گوئی کے وقت دی تھی ۔ وہاں سے وہ ہمیں 70ء کی دہائی میں لیجاتا ہے اور پھر 80ء کی دہائی اور عصر حاضر کے آشوب تک لیکر آجاتا ہے۔ مشکل سے تین لفظوں میں ہمارے سامنے ماضی ، حال اور مستقبل تینوں زمان مسلسل کی صورت آکر کھڑے ہوجاتے ہیں جس میں نہ تو لفظوں کو استحکام ہے اور نہ ہی معنوں کو ایسے لگتا ہے جیسے حالت التوا ء میں ہیں ہم اور التواء بھی وہ جس میں سوائے زوال مسلسل کے ہمارے حصّے میں کچھ ہے ہی نہیں ۔

“آپ کو معلوم ہے جب کرنال سے آنے والے نے نئے “ملک” میں عقیدے کا بیج بویا اور “مقاصد” کا کیکٹس اگایا تو دادا یہاں سے چلا گیا کہ اب یہاں انسان نہیں رہ سکے گالیکن اس کے بھائیوں کو ترانوں کا نشہ تدا ۔۔۔وہ رک گئے۔۔۔ پھر جب دریا بکے تو وہ بھی چلے گئے کہ یہ اب کوفہ ہے اور کربل بپا ہونے لگی ہے ”
“جب بنگال نے اپنی راہ لی تو پھر سبھی چلے گئے۔  مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔۔
پھر سننے میں آیا پارلیمنٹوں میں عوامی عقیدوں کی تقسیم ہو رہی ہے تو بوڑھا دادا بولا اب یہ لٹکے گا اور وہی ہوا ”
پھر وہ ہمیں ایک دم سے تھر کے صحرا  میں لیجاتے ہیں ۔ جہاں ڈگری کالج میں کلرکی کرنے والا درواڑی ‘کھٹوجانی’ ریاست کے ‘نیولبرل’ ہوجانے اور سوشل سروسز سے دست برداری کے بعد بچوں کے لیے پرائمری اسکول بناتا ہے۔ تو تھر کے نابیناؤں کو نور لٹانے کے لیے آئی کیمپوں کا اہتمام کرتا اور لا وارث لاشوں کو دفنانے کا ذمہ لیے ہوئے ہے ۔ اس ویرانے میں جسے خون کی ضرورت پڑتی ہے اس کا انتظام بھی اس نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ میرا دل ‘عطیہ’ پڑھ کر جو بیٹھ سا گیا تھا پھر سے امید سے بھر گیا-
” اپنا گھر کیسے چلتا ہے؟
میری ضرورت دو کلو آٹا ہے جو ڈگری کالج کی کلرکی سے مل جاتا ہے ۔”
لیکن “بندے کا نا ڈسا ہو، صاحب’ کا جب یہ آخری فقرہ میں نے پڑھا ۔ ۔
“تھر میں کوئی عقیدے کی خاطر نہیں مٹے گا تھر میں کوئی مسلک کی حاط نہیں کٹے گا جب تک میں زندہ ہوں جب تک ماما وشن زندہ ہے ”
تو میرا دل پھر سے بیٹھ گیا ۔ میری آنکھوں میں “ڈاکٹر شاہنواز” کی شبیہ پھرنے لگی- میرے کانوں میں اس کی بیوہ کے بین ، ماں کی چیخیں اور بیٹی کی فریادیں گونجنے لگیں ۔۔
اس سے اگلا پڑاؤ “جندو فقیر” کا تھا – مصنف پھر فلیش بیک مارتا ہے۔ اس کے دادا اسے دربار فرید کی زیارت کو چلنے کو کہتے ہیں ۔ ‘کوٹ بہادر میں بنی شوگر مل کے پاس سے گزرتے ہیں تو مصنف کے دادا کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے،
“ویسے بیٹا بہادر کوٹوں میں تو نہیں رہتے’
کوٹ مٹھن کے نواحی قصبے ونگ میں دادا کہتا ایک جگہ رکتا ہے اسے سامنے دکانوں میں گھرا اسکول ہی نظر نہیں آتا اور سوال کرتا ہے
‘رکنا زرا، یہاں ایک اسکول ہوتا تھا  ۔ یہ اسکول ہی تو ہے۔ ۔ دکانوں کے پیچھے ، سڑک پر دکانیں جو کھل گئی ہیں  ۔ اب تو اسکول سے گزرتے ہوئے زہر کی بو آتی ہوگی؟ ویسے اسکول اب دکانیں ہی تو بن کئے ہیں ، اس لیے تیرا بھائی کہہ رہا تھا کہ میری بنک کی تنخواہ سے گزارا نہیں ہوتا گاؤں میں اسکول کھولتے ہیں ‘
میں جب یہ جملے پڑھتا ہوں تو میرا دماغ سن ہوجاتا ہے۔ اور واقعی ‘کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا تھا’

دربار فرید پہنچنے سے پہلے سے اس کے دادا کی ملاقات “جندو فقیر” سے ہوجاتی ہے اور بس یہیں سے آگے وہ پہلے تیز دھار تنقیدی نشتر سے 76 سالوں کی ترقی کے سفر کی رد تشکیل کرتے ہیں اور پھر وہ مصائب پڑھتے ہیں کہ مجلس میں عصر حاضر کی کربل پہ وہ گريہ و ماتم ہوتا ہے کہ اس منظر کو دیکھنے کی کسی میں تاب نہیں رہتی ۔
“بیٹیوں کو تو یزید بھی نہیں مارتے لیکن تم نے بھٹو کی بیٹی کو بھی مار ددیا۔۔۔۔ جندو پھر بھی فقیر رہا ”
اس ملک کے “جندو” کی فقیری نہ ایوب کا گرین انقلاب ختم کرسکا نہ بھٹو کا سوشلزم نہ ضیاع الحق کا ‘ نظام زکوٰۃ ‘
“چند سالوں میں دو سو سے زائد مزدوروں کو دفن ہوتے دیکھ کر کوہ سلیمان کے سوتے بھی خشک ہوچکے ہیں۔ ہم گمشدگیوں پہ روتے پیٹتے ہیں-پھٹتے بموں پہ بھی ماتم کرتے ہیں-گرتے لاشوں پہ بین برحق۔۔۔ لیکن یہ جو آہستہ آہستہ مارے جارہے ہیں ۔ ان کے لیے تو کوئی کمیشن نہیں بنتا ، ان کے لیے تو کوئی مارچ نہیں کرتا ، ان کے لیے کوئی اسمبلی میں نہیں بولتا ۔ “(جھنگ ، جوانی اور کالا پانی)

اس کتاب میں “نقش گر” ، “ابا جی” “ہر اترا ہے ہر جا جوگی ” “وپاری” “تخت” “گھتی “، “عزت” “24434” “بار والوں کی طرح” “میں شرمندہ ہوں ” “بینا داس ” ، ابھی تو قصّہ جاری ہے” ، “بلاول ” کے نام”، “ارسلان” ، “شب کزیدہ” ، “ماسک” ،”پہلا پتھر” ، “سفید کپڑے “، “سگار”، “پروموشن” ،”فضائل و اعمال” ، “امید” ، “سنکارا”، میں ہمیں الگ الگ کہانیاں، الگ الگ فصّے اور بے شمار کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے – ہر کہانی اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہیں اور یہ بڑے کینویس پر چھوٹے چھوٹے بیانیوں کے اندر ایک ان دیکھی وحدت بھی رکھتی ہیں یہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کی جلوہ گری ہے۔ بہت سارے نشان (ٹریس )، بہت ساری علامتیں (سائن) ، بہت سارے مراکز اور ان سے پیدا ایک زیر التواء حالت جو اپنے اندر تعمیر اور تخریب دونوں امکان رکھتی ہیں ۔

دوستو، عزيزو!
میں ایک کے بعد دوسرا نثر پارہ پڑھتا جا رہا تھا ، کسی کردار کو اس کی بغاوت ، جرآت اور ہمت کی داد دیتا، کسی کے المیے پر آنسو بہاتا ، کسی کی امید دلانے والے کارنامے پر اش اش کرتا ہوا اگے بڑھتا جا رہا تھا پھر ‘سفر ایک رات کا’ کا پڑاؤ آگیا ۔
“بڑھیا کی اوٹ میں کھڑی جوان عورت بولی ،
اماں! کار والوں کو خیمہ نشیں کی بھوک کا کیا پتا – کار والوں کی اپنی بھوک کبھی نہیں مٹتی ”
“بھابھی باری باری گاڑی میں سوتے بچوں کو اٹھا کر کمرے میں سلاتی گئی ، آخر میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سوتے ہوئے اصغر کو اٹھاکر کندھے کا سہارا دینے لگی تو ایک چیخ بلند ہوئی ۔۔۔
بھائی جان! میں ماں ہوں اور جانتی ہوں کہ سوتا بچہ ایسا نہیں ہوتا ، بھائی جان میں لٹی گئی ”

یہ جملے پڑھتے ہی ، میرے ہاتھ سے سلگتی سگریٹ گرگئی ، پورے جسم کانپنے لگا- آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ میری ہمت جواب دے گئی ۔ آگے بڑھنا فی الحال دشوار ٹھہرا ہوا ہے۔
اس لیے یہ رسید نامکمل رہ گئی
رزاق شاہد بھائی !
۔۔۔۔

اٹھی ویکھ تاں سہی کیویں سجدی ہئے میڈے سر تے پگ مظلومی دی
ہن تیڈے حکم مطابق میں ، امڑی توں پگ بدھوائی بیٹھا آں
کوئی ایہوجی لٹ پئی ہئے بابا نہ کفن رہئیے نہ برقعے رہئے
۔۔۔۔
[بابا ! اٹھ کر دیکھو تو سہی کیسے میرے سر پر مظلومی کی پگڑی سج رہی ہے
اب میں تیرے ہی حکم پر اپنی پھوپھی سی یہ پکڑی بندھوائے بیٹھا ہوں
بابا ! آپ کے قتل کے بعد کوئی ایسی لوٹ مچی کہ نہ کفن بچے نہ برقعے  ] ۔۔۔۔

ہائے اکبر ، ہائے اکبر
ہائے برچھی سے چھدا ہے میرے اکبر کا جگر
اُم لیلی کر رہی ہے ، آہ و زاری ، یا حسین!
لٹ گئی مقتل میں زینب کی کمائی ، یا حسین!

قبضہ گیری ، مارا ماری ، حملہ آوری اور پرانی اور نئی سامراجیوں کی لوٹ مار، قتلام کا شکار گروہوں اور زمینوں میں رزاق شاہد جیسے لوگ محض ہسٹروگرافی / تذکرہ نویسی کا فرض نہیں نبھاتے انہیں افتادگان خاک کا المیہ، طربیہ، رمزیہ سب رقم کرنا ہوتا ہے۔

میری محبتوں کی مرکز “اردو کی پروفیسر ” جو خود بھی مظلوموں کی سب سے بڑی تحریک علویت کی ایک بہت بڑی تذکرہ نویس، نوحہ گر ہے کہتی ہے ابومخنف کا کام صرف تذکرہ نویسی نہیں تھا اسے تو دنیا کے سب سے بڑے المیے کو پوری شدت سے رقم کرنا تھا جس میں خون چکر کرنا پڑتا ہے اور مظلوموں کے ہر قبیلے کا تذکرہ نویس کے ذمے یہی کام ہوتا ہے اس نے واقعات محض بیان نہیں کرنا ہوتے ، اسے کرب، دکھ ، تعذیب کو مجسم کرنا ہوتا ہے اور یہ دکھانا ہوتا ہے:
تونے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تیری تلوار پہ خاک

رزاق شاہد بھائی ! آپ نے آٹھواں آسمان نہیں بلکہ دھرتی کے آٹھویں پاتال کو ہمارے سامنے ایک بڑی سینما اسکرین پر چلتا پھرتا دکھا دیا ہے۔ اور یہ کام آپ نے ایسے وقت میں کیا ہے جب شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں کی اکثریت “گدھ جاتی” میں باقاعدہ شامل ہوگئی ہے اور مردار کھانے میں لگی ہوئی ہے اور اس سے ان کے دماغ ایک متعفن اور سڑاند مارتے ٹھہرے ہوئے گندے جوہڑ میں بدل چکے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے سماج کی آج کی دانش اسی گندے تالاب کی پیداوار ہے۔ یہاں مصلحت پسندوں کی فوج ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی حر نہیں ہے جو آخری وقت میں حق کی طرف پلٹ آئے۔ یہ تحریریں ان کے بند دماغوں کو تو کھول نہیں پائیں گی لیکن مجھے نئی نسل سے امید ہے وہ ضرور ان تحریروں کا اثر لے گی اور سب درباریوں کو ان کی اوقات ضرور یاد دلائے گی ۔ آپ جیتے رہیں اور یونہی لکھتے رہیں اور ہمیں خواب غفلت سے جگاتے رہیں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply