گزشتہ دس برسوں میں برطانیہ میں کم و بیش ایک لاکھ یعنی سالانہ اوسطاً دس ہزار افراد حلقہ بگوش اسلام ہوۓ ہیں۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان میں دو تہائی تعداد خواتین کی ہے۔ عورتوں کی تعداد کی کثرت کا سبب جاننے کے لئے ان دنوں میں کچھ نہ کچھ اس حوالے سے پڑھنے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اسی ضمن میں ایک ایسی کہانی بھی نظر سے گزری جو نو مسلم خاتون کی خوبصورت آپ بیتی کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ عربوں میں اسلام کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ لاکھ انفرادی خرابیوں اور بحرانی کوائف کے باوجود بھی انکا ایمان و اعتقاد باقی ہی رہتا ہے۔ چاہیں تو آپ بھی پڑھ سکتے ہیں
میرا نام Ioni Sullivan ہے، میں اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ Lewes انگلینڈ میں رہتی ہوں۔ میری پیدائش و پرورش ایک متوسط قسم کے لادین گھرانے میں ہوئی ، میرے والد پروفیسر اور والدہ اسکول میں استانی تھیں۔ سَن ۲۰۰۰ میں جب میں نے کیمرج یونیورسٹی سے اپنی ایم فل ڈگری مکمل کرلی تو اس کے بعد مصر، اردن، فلسطین اور اسرائیل جیسے ممالک میں کام کرنا شروع کردیا۔ اس سے قبل تک اسلام کے حوالے سے میرے خیالات بڑے مختلف تھے، میری نظر میں اسلام ایک فرسودہ و تنگ نظر قسم کا مذہب تھا۔ لیکن ان ممالک میں کام کے دوران وہاں کے لوگوں کی ایمان کی طاقت نے مجھے بیحد متاثر کیا، گوکہ انکی زندگیاں گوں نا گوں بحران کا شکار تھیں پر مجھے کوئی ایک شخص ایسا نہ ملا جس کا اخلاقی سلوک اور اسکے وجود کے مقصد کے حوالے سے اسکا نظریہ واضح اور باقی دنیا کے لوگوں سے زیادہ شفاف و مضبوط نہ ہو۔
کام کے دوران ہی ۲۰۰۱ میں میں ایک اردنی مسلم کی محبت میں گرفتار ہوگئی جوکہ بالکل بھی عملی قسم کا مسلمان نہیں تھا۔ ابتدا میں ہماری زندگی کا طرز بالکل مغربی تھا، کم و بیش روز ہی ہم شراب خانے اور پَبس میں بھی جاتے تھے۔ چونکہ میں عرب خطے میں کام کرہی تھی اس لئے ان دنوں میں نے زبان سیکھنے کے لئے ایک عربک کورس جوائن کرلیا، اور ایک دن انگلش قرآن کا ایک نسخہ بھی خرید لائی۔ قرآن پڑھتے پڑھتے مجھے کائینات کی لامحدود خوبصورتی اور تخلیقات کے توازن سے اسکے بنانے والے کی عظمت و وحدانیت کا علم ہوا، قرآن میں جیسے جیسے میں رب کی صفات پڑھتی گئ مجھے پتہ چلا کہ انسانوں کی شکل میں زمین پر چلنے پھرنے والا خدا نہیں ہوسکتا، یہ بات بھی سمجھ آئی کہ مجھے برکت پانے کے لئے کسی پادری یا راہب کے سہارے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی عبادت کے لئے کسی خفیہ مکان میں جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد میں نے ان اسلامی شعائر پر غور کرنا شروع کیا جنہیں میں پہلے صرف بکواس اور انسانی آزادی کے خلاف مانتی تھی مثلاً روزہ، زکوۃ و صدقات اور اخلاق و شائستگی۔ اور جوں جوں میں گہرائی میں جاتی گئی مجھے احساس ہوا کہ یہ سب تو سیلف کنٹرول اور انسانی آزادی کا ہی طریقۂ کار ہیں۔
اب میں دل سے تو مسلمان ہوچکی تھی، پر مجھے ممکنہ فیملی مسائل کے چلتے اسکے اظہار کی ضرورت نہ محسوس ہوئی۔ لیکن یہ میرا حجاب تھا جس نے میرے اسلام کو عام کردیا، میرے پاس دو ہی راستے تھے یا تو باہر نہ نکلتی یا بنا حجاب کے نکلتی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں خود سے دیانت دار نہیں ہوسکتی تو پھر کیا فائدہ، لھذا میں حجاب میں آنے جانے لگی۔ کچھ لوگ تو استعجاب میں یہاں تک پوچھتے تھے کہ کہیں تمہیں کینسر تو نہیں ہوگیا۔ (کینسر میں کیمو تھراپی کی وجہ سے بال جھڑ جاتے ہیں اس لئے اکثر عورتیں حجاب کی طرح سر چھپانے کو کچھ باندھے رکھتی ہیں)۔ اور آج شاید اس پورے گاؤں میں میں تنہا حجابی عورت ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں