عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس ویکینڈ پر اسرائیل ایران پر حملہ کرے گا، ایران نےبھی دفاعی اور جوابی حملے کے لیے ملک کی افواج کو الرٹ کر دیا ہے۔
بہت سے ممالک نے ایران کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں، ایران نے اپنے شہریوں پر ملک بھر میں پرائیوٹ ڈرون اڑانے پر پابندی لگا دی ہے۔
ایرانی اور اسرائیلی سیاسی و فوجی قیادت ایک دوسرے کے خلاف تباہ کن حملوں کی دھمکیاں دے رہی ہے۔
امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات اور پٹرولیم تنصیبات پر حملہ نہ کرے، چنانچہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل شاید ملٹری تنصیبات اور شخصیات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکہ نے اپنا جدید ترین میزائیل شکن نظام انسٹال کر دیا ہے اور فوجی تعداد اور امداد میں اضافہ کر دیا ہے۔
لبنان اور غزہ میں سیز فائر کے لیے اسرائیل، امریکہ، مصر اور قطر کے مذاکرات کار حماس کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے اہم نمائندگان سے مذاکرات کے لیے ملاقاتیں کر رہے ہیں ان میں موساد اور سی آئی اے کے سربراہان بھی شامل ہیں، اس مذاکرات کے ذریعے وہ حماس کی حراست میں تاحال موجود سو سے زاید اسرائیلی اور امریکی شہریوں کو چھڑانا اور ان دو محاذوں پر اپنی توجہ کم کر کے ایران کے ساتھ جنگ کی صورتحال کے کیے تیاری میں اپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ ہفتے دو نیٹ ورکس کو پکڑا ہے، اسرائیل میں ایران کے لیے جاسوسی اور جوہری سائنسدانوں اور فوجی شخصیات کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار یہ افراد اسرائیلی شہری اور یہودی ہیں۔ جبکہ امریکہ میں ایران پر اسرائیلی ممکنہ حملے سے متعلق منصوبے کی خفیہ دستاویزات لیک کرنے کے الزام ایک ایرانی نژاد سلامتی مشیر سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
گزشتہ ایک سال میں اسرائیل امریکہ سے بیس ارب ڈالر سے زائد فوجی امداد وصول کر چکا ہے۔ جبکہ حزب اللہ اور حماس کو امریکہ سمیت بہت سے یورپی اور عرب ممالک غیر ریاستی دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔
اسرائیلی ڈیفنس فورس غزہ اور لبنان میں مجموعی طور پر چھیالیس ہزار سے زائد شہریوں کو قتل، سوا لاکھ لوگ زخمی، دسیوں لاکھ فلسطینی اور لبنانی شہریوں کو بے گھر اور ہزاروں عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر چکی ہے۔ جبکہ سات اکتوبر کے واقعے میں بارہ سو اسرائیلی اور جنگ کے دوران ساڑھے تین سو سے زائد فوجی قتل اور ڈھائی سو حماس کے زیر حراست آ چکے ہیں جس میں ڈیڑھ سو کو مختلف ڈیل اور آپریشن کے دوران چھڑا لیا گیا ہے، یا مارے جا چکے ہیں۔
فضائی تحفظ کے لیے تین لیئرز پر مشتمل حفاظتی نظام کے علاوہ اسرائیل نے ایسے حفاظتی بنکرز بنا رکھے ہیں جن میں وہ اپنے ایک کروڑ شہریوں کی ہنگامی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے۔ ایران کے جدید ترین میزائلوں اور ڈرونز نے فضائی تحفظ کی کمزوری اور ناکامی عیاں کر دی ہے۔
تباہ حال غزہ اور بیروت میں موجود ہزاروں ٹن اسرائیلی بارود اور ملبے کو اٹھانے کے لیے پچاس کروڑ ڈالر اور بحالی کی خاطر اربوں ڈالر درکار ہیں۔
اسرائیل حزب اللہ اور حماس کے مرکزی قائدین سمیت حزب اللہ کے تین درجن سے زائد کمانڈروں کو نشانہ بنا کر قتل کر چکا ہے۔ لیکن حزب اللہ کے نشانہ وار حملے بدستور جاری ہیں۔
غزہ، لبنان اور مغربی کنارے میں ہسپتال، سکول، پناہ گزین کیمپ، امدادی رضاکار، صحافی، اقوام متحدہ کے کارکن سمیت ہزاروں بچے، خواتین اسرائیل کی تباہ کن بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین کے انسانی حقوق اور شہری آزادی اور امن پسندی کے سبھی نعرے اور دعوے کھوکھلے ہو چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بے بس، جنگ مخالف مغربی شہریوں کے ہزاروں احتجاجی جلسے اور جلوس بے ثمر جبکہ روس، چین،عرب ممالک سمیت دنیا کے دو سو ممالک اس تباہ کن خون ریزی کو رکوانے کے لیے بانچھ ثابت ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں شعلہ بیانی کرنے والے مذہبی قائدین کے توے ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔
ایسے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے فلسطینی طلبہ کے لیے بڑی تعداد میں سکالرشپس کا اعلان کر دیاہے، تقریباً ڈیڑھ سو فلسطینی طلبہ میڈیکل کی تعلیم کے لیے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں