ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ـ اب وقت ہے کہ اس بات کو درست ثابت کیا جائےـ سب بیٹیوں کو’ اُن کی عزت کو سانجھا سمجھا جائے۔
آج کل ہر طرف دل دہلا دینے والی خبروں سے عجیب بے چینی کا ماحول ہے، ـ بچوں کو تعلیم کی غرض سے بھی بھیجنا مشکل ہو گیا ہے ـ ہاسٹل میں رہنے والی بچیوں کے والدین کیسے اپنے دل پر پتھر رکھ کر دن رات گزارتے ہیں یہ صرف وہی جانتے ہیں۔
کیا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہم جہالت کے اس زمانے کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں، جہاں بیٹیوں کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھا جاتا تھا اور ان کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ؟
بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں گھر کا سکون اور والدین کی آنکھ کا تارا ہوتی ہیں ،ـ نا صرف گھر میں ان کے دَم سے رونق ہوتی ہے بلکہ وجودِ زن سے کائنات میں بھی رنگ و بہار ہے،ـ اگر ہم اپنی بیٹیوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں’ انہیں محفوظ اور ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تربیت پر غور کرنا ہو گا ـ، نئے وقت کے تقاضوں کو اپنانا ہو گا۔ ـ
والدین کو نا صرف بیٹیوں بلکہ بیٹوں کی بھی تربیت اس طرز پر کرنی چاہیے کہ والدین کا سر کبھی شرمندگی سے نہ جھکے، ـ اس لیے والدین کو بچوں کے ساتھ اپنا تعلق بہتر اور قریب تر بنانا ہو گا تاکہ وہ بلاجھجھک اپنے دل کی بات کر سکیں ـ ،کوئی پریشان کر رہا ہے ‘ کوئی انہونی ہوئی’ کسی کی کوئی بات ‘ کوئی حرکت نامناسب لگی’ معمول سے ہٹ کر کچھ ہوا ہے ‘ بچے چاہے بیٹا ہو یا بیٹی دونوں بغیر کسی ڈر و خوف کے والدین کے ساتھ بات کر سکیں ‘ ان کو بتا سکیں ـ تاکہ بروقت کوئی حل نکالا جا سکے اور بچوں کو اپنی جان نہ دینی پڑے ۔ـ
آج کے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو پُراعتماد بنائیں، ـ انھیں اچھے بُرے حالات کے بارے میں بتائیں ،ـ ان کو خدانخواستہ کسی قسم کی مشکل درپیش آتی ہے تو اپنا دفاع کر سکیں ،ـ ان کو جوڈو یا کراٹے سکھائیں ، ان کے پاس گھر سے باہر نکلتے ہوئے کوئی چھری یا کوئی ایسا اوزار ہونا چاہیے جس کو وہ بروقت استعمال کر کے اپنی جان اور عزت دونوں بچا سکیں ،ـ یہ خاص طور پر ان بچیوں کے لیے بہت ضروری ہے ،جو پبلک ٹرانسپورٹ ،وین یا بس کا استعمال کرتی ہیں ـ کیونکہ زمانے کے ڈر سے بچوں کو گھر نہیں بٹھایا جا سکتا، لہذا ہمیں ان کی تربیت پر خاص توجہ دینا ہو گی ـ، اپنی بیٹیوں کو اتنا بہادر بنائیں کہ وہ خود پر اٹھنے والی بری نظروں کو نوچ ڈالیں ـ ،ان کو یہ ڈر و خوف نہ ہو کہ گھر پر پتہ چلے گا تو کیا ہو گا ـ ان کو پھرپور اعتماد و پیار دیں تاکہ وہ کسی بہکاوے یا بلیک میلر کے ہتھے نہ چڑھ سکیں ـ۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب والدین اولاد پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں تبھی بچے باغی ہو کر غلط راہ کے مسافر بن جاتے ہیں ـ ،بچوں کی تربیت انتہائی نازک ذمہ داری ہے اور آج کے ڈیجیٹل دور میں مزید مشکل ہو گیا ہے ـ ہمیں ان کی سطح پر جا کر بات کرنی چاہیے ـ ہم بڑے ہیں ہمارا تجربہ زیادہ ہے اب یہ فلاسفی بہت پرانی ہو گئی ہے، ـ نئے زمانے کے نئے تقاضے ہیں ‘ سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہے ( جس میں منفی پہلو زیادہ ہے ـ جہاں جس کا جو دل چاہتا ہے بغیر تصدیق کے خبر ڈال دیتا ہے جو وائرل ہو جاتی ہے) ـ نوجوانوں کا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزرتا ہے جس کی وجہ سے اولاد اور والدین کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو گئی ہے ـ۔
بچے چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے ان کو ہر وقت روک ٹوک’ نصیحتیں سننا اچھا نہیں لگتا اور ٹین ایج ایسی ہوتی ہے جہاں باہر کے لوگ’ دوست سب صحیح اور والدین غلط نظر آتے ہیں ـ ایسے میں والدین کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے، ـ اردگرد کے ماحول ، واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ بچوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا چاہیے، اُن کو اچھابُرا بتانا چاہیے اور یہ اعتماد دینا کہ وہ اور ان کی رائے اہم ہے۔ یہ کہ آپ والدین ہونے کے ناطے ہر لمحہ، ہر طرح کے حالات اور فیصلوں میں ان کے ساتھ ہیں ۔ـ
وہ نوجوان جو کالج’ یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں ان کے پاس موبائل ضرور ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی لوکیشن بآسانی گھر والوں کے ساتھ شیئر کر سکیں اور رابطے میں رہ سکیں۔ ـ
بیٹوں کی تربیت ایسے ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ہم جماعت لڑکی چاہے وہ اس کو جانتے ہیں یا نہیں’ کی عزت کی پاسداری کریں ـ ان کی وجہ سے بچیوں کی عزت پر حرف نہیں آنا چاہیے ـ اگر ضرورت پڑے تو ان کی مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں ـ۔
مرد کو اللہ تعالٰیٰ نے مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ عورت کا سہارا بھی بنایا ہے ـ اس کی موجودگی میں عورت چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو خود کو محفوظ سمجھے ۔ـ ایک مرد کی ایسی شان ہونی چاہیے کہ وہ مصیبت کے وقت بھاگے نہیں بلکہ اپنی ماں’ بہن اور بیٹی کی طرح دوسروں کی ماں’ بہن اور بیٹی کی حفاظت کرے نا کہ ان کو ایک شکار سمجھے۔ ـ
بچے پیدا کرنا آسان ہے لیکن ان کی تربیت کرنا انتہائی مشکل کام ہے ـ ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بیٹوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں کیونکہ ایک باکردار مرد ہی مضبوط گھرانے کا سربراہ بنتا ہے ۔ـ

حکومت اور دیگر تعلیمی اداروں پر کٹھن وقت ہے ان کو چاہیے کہ یونیوسٹیوں میں چاہے وہ پرائیویٹ ہیں یا گورنمنٹ چھٹی کا وقت دوپہر 2 بجے تک رکھیں ،تاکہ بچیاں گھر وقت پر پہنچ سکیں ـ جہاں کلاسز کے درمیان وقفہ زیادہ ہوتا ہے اور یونیورسٹی بھی گھر سے دور ہوتی ہے ،وہاں بچوں کو وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ‘ وہ کینٹین میں وقت ضائع کرتے ہیں ‘ جہاں ہر طرح کے ماحول کے بچے ہوتے ہیں وہیں دوستیاں بڑھتی ہیں ـ ‘ پھر بچے گھر والوں کو بتائے بغیر یونیورسٹی سے باہر چلے جاتے ہیں ـ ۔والدین کو گمان تک نہیں ہوتا کہ وہ یونیورسٹی میں ہیں بھی یا نہیں ـ ،یونیورسٹی کی بس سروس اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والے بچوں کو گھر پہنچنے تک اکثر رات کا اندھیرا ہو جاتا ہے ـ بچیوں کی عزت کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت اور دیگر اداروں کو سخت فیصلے لینے ہوں گے اور صرف فیصلے لینے سے کام نہیں بنے گا ۔ان پر عمل پیرا کروانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے ـ تبھی ہم اپنی بیٹیوں کو محفوظ ماحول دے پائیں گے۔ ان کے قدم مضبوط کر سکیں گے ‘ جہاں وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں اور آ نے والی نسل کی بہترین پرورش کر سکیں ۔ـ پنکھ پھیلا کر چھو لو آسمان کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے۔ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں