پاکستان میں دنیا کی بڑی تعلیمی این جی اوز…

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی این جی اوز موجود ہیں. جو کسی بھی طرح کی سرکاری امداد قبول نہیں کرتیں. انکے ہاں اسٹوڈنٹس سے فیس لینے کا تصور تک نہیں.ان این جی اوز کے تحت بعض ادارے اپنے ہر ہر اسٹوڈنٹس کو بلا امتیاز ماہانہ اسکالر شپ دیتے ہیں. فری ہاسٹل سہولت دیتے ہیں. انکے ہاں میڈیکیشن مکمل فری ہوتی ہے.
ان این جی اوز کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے انکے ہاں ایک یتیم بچہ اور ایک وزیر زادہ ایک ٹیچر سے ایک کلاس میں بیٹھ کر ایک ہی نصاب پڑھتے ہیں. اور ایک طرح کے ہاسٹل فسیلیٹی سے مستفید ہوتے ہیں.
ان این جی اوز کے تحت چلنے والے ادارے پوری دنیا میں اپنے شعبے میں رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں.بیرون ممالک سے مختلف یونیورسٹیز کے وفود ان اداروں کا دورہ کرتے ہیں اور ان کے سلیبس اور سسٹم کو اپنی یونیورسٹیز میں اپلائی کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں.انہوں نے یہ مقام کئی دہائیوں کی محنت سے پایا ہے. تین سال پہلے ترکی کی ٹاپ یونیورسٹیز میں سے تین یونیورسٹیز کے چانسلرز پاکستان تشریف لائے تھے. جنکے دورے کا بنیادی مقصد ان اداروں کا دورہ اور انکے سلیبس کو اپنی یونیورسٹیز میں فالو کرنا تھا.
پوری دنیا سے اسٹوڈنٹس دینیات کے شعبے میں اسٹڈی/اسپیشلائیز کرنے کے لئے ان اداروں کا رخ کرتے ہیں. یہاں سے پڑھ کر یورپ، امریکہ میں ان این جی اوز کے اسٹائل پر این جی اوز قائم کرچکے ہیں. جنکی تعداد سینکڑوں میں ہے. گزشتہ پندرہ سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے، کہ گورنمنٹ ان این جی اوز کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں /شکوک و شبہات میں مبتلا ہے. جسکی وجہ سے وہ ان این جی اوز کو نیشنلائز( قومی دھارے میں شامل )کرنےکی خواہشمند ہے.
اس مقصد کے لئے آئے روز نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں. لیکن اب تک انکو نیشنلائز نہیں کیا جاسکا. جسکی وجہ ان این جی اوز کی عوامی رابطے کی مضبوطی، اسٹوڈنٹس کا سسٹم پر اعتماد، اپنے موقف کو دلائل سے پیش کرنا اور انکی دور رس سوچ ہے.
اس مسئلے میں فریقین کے موقف کا خلاصہ درج ذیل ہے…
پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں گورنمنٹ سکولز/کالجز اور یونیورسٹیز کا ایک بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے. جسمیں اردو سے لیکر عربی، میتھس سے لیکر سائنس کے ہر شعبے میں اورایم بی بی ایس تک کی پڑھائی ہوتی ہے.ان یونیورسٹیز میں ایک شعبہ عربی /دینیات کا ہے.جو ان این جی اوز کا میدان ہے. یہ شعبہ اپنے پورے نیٹ ورک کے ساتھ کام کرتا ہے.اس شعبے کا سلیبس بھی ان این جی اوز کے سلیبس کو فالو کرکے بنایا گیا ہے. انہیں گورنمنٹ کی بھرپور سپورٹ بھی حاصل ہے۔
اب گورنمنٹ چاہتی ہے کہ یہ این جی اوز بھی ان کالجز کی طرح گورنمنٹ کو فالو کریں. اپنے تعلیمی نیٹ ورک میں تبدیلی لائیں. سلیبس پر گورنمنٹ سے رہنمائی لیں. گورنمنٹ کی ڈونیٹ( ٹیکنالوجی/فنڈز )قبول کریں. یعنی ان اداروں میں گورنمنٹ کی بالادستی قبول کی جائے انکو یونیورسٹی کے طرز پر چلا جائے. جیسے وہ گورنمنٹ کے انڈر چل رہے ہیں. تاکہ اسٹوڈنٹس گورنمنٹ کے خرچے پر پڑھیں. اس شعبے میں اسٹوڈنٹس تعلیم کے جدید ٹیکنالوجیکل طریقوں سے روشناس ہوں. تعلیم حاصل کرنے کا شوق مزید بڑھے. اور شعور پختہ ہو. اور این جی اوز والوں کو بھی مالی لحاظ سے سکون حاصل ہو.
اسمیں کوئی شک نہیں کہ ان این جی اوز کو جدید ٹیکنالوجی جیسے کمپیوٹرز /لیپ ٹاپز، پروجیکٹرز وغیرہ کی اشد ضرورت ہے. انہیں صحت عامہ، فیوچر پلاننگ، مثبت ورک شاپس، ٹیچر ٹریننگ، سیاحت وغیرہ کے شعبوں میں گورنمنٹ کی امداد کے سخت ضرورت ہے.مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ادارے خود ان شعبوں میں گورنمنٹ سے مدد لینے کے لئے بھی تیار ہیں.
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سب کچھ کلیر ہونے کے باوجود گورنمنٹ ابھی تک اپنی خواہش پوری نہیں کر سکی..
اس گھتی کو سلجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ معاملہ گورنمنٹ کی طرف سے مشکوک ہے.گورنمنٹ آج تک ان این جی اوز کو یہ اعتماد نہیں دلا سکی کہ ان میں این جی اوز کی نسبت زیادہ صلاحیت موجود ہے. وہ ان اداروں کو این جی اوز کی نسبت زیادہ موثر انداز میں چلا سکتے ہیں.یہ عدم اعتماد گورنمنٹ کے انڈر چلنے والے کالجز /یونیورسٹیز نے پیدا کیا ہے. وہاں کے آئے روز جھگڑے والے عمومی بدامنی والے ماحول نے پیدا کیا ہے. اسٹوڈنٹس کے اسٹرائیکس اور سیاسی لڑائیوں کی بنا پر گورنمنٹ ان اداروں میں رینجرز کے کیمپ لگانے پر مجبور ہے. اسٹوڈنٹس ڈرگز کے عادی ہوتے جارہے ہیں. وہاں ٹیچرز کا ریسپکٹ نہ ہونے کے برابر ہے. یہ کالجز کا عمومی ماحول ہے. جس سے کوئی ذی شعور غافل نہیں.
اس ماحول نے فریقین میں عدم اعتمادی کو فروغ دیا ہے. اس ماحول نے ان این جی اوز کو ان اداروں کے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رکھا ہے. اور یہ این جی اوز سمجھتی ہیں کہ اگر گورنمنٹ کی بالادستی ان اداروں میں قبول کی جائے. کالجز /یونیورسٹیز کے طرز پر ان اداروں کو چلایا جائے تو پاکستان میں کلرک اور کرپٹ عناصر میں مزید اضافہ ہوجائے گا.یعنی مصلی پر کھڑا امام بھی کرپشن میں نیب کو مطلوب افراد میں سے ہوگا. آج تعلیم کے اس شعبے میں رول ماڈل کا کردار ادا کرنے والے ادارے پوری طرح بانجھ ہوجائیں گے. دنیا علمی شخصیات، محققین، مصنفین اور ائمہ کی بھاری تعداد سے محروم ہو جائے گی.پھر یہ لوگ خال خال ہی پیدا ہونگے. اور ان این جی اوز کی صدیوں کی محنت پر پانی پھر جائے گا. اور دین کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے گا. جو انہیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں…
ایسی صورت میں مسئلے کے حل کا ایک ہی راستہ بچتا ہے…
گورنمنٹ کو چاہیے کہ آگے بڑھے. اور کالجز /یونیورسٹیز کو اس شعبے میں رول ماڈل بنائے. اسٹوڈنٹس کا اعتماد جیتے. وہاں تعلیم کا معیار انٹرنیشنل لیول تک لے جائے . جیسے ان این جی اوز نے کیا.
عربی /دینی شعبے میں یونیورسٹیز کا سلیبس ان این جی اوز کے سلیبس کو فالو کرکے بنایا گیا ہے لیکن یہ یونیورسٹیز اپنی تعلیمی صلاحیتوں میں ان این جی اوز سے بہت پیچھے ہیں.
جسکی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں. یونیورسٹی میں ایم اے عربی کے کورس میں عربی گرامر کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے وہ ان این جی اوز کے سلیبس میں پہلی کلاس یعنی فرسٹ ایئر میں پڑھائی جاتی ہے.جبکہ عربی گرائمر کی تعلیم ان این جی اوز کے سلیبس کے مطابق فورتھ ائیر تک ہوتی ہے. اور یونیورسٹی میں ایک یا دو سال جسکا مطلب یہ ہے کہ این جی اوز سسٹم کا عربی پڑھنے والا فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ یونیورسٹی کے ایم اے عربی کے اسٹوڈنٹ کی ایکولینسی رکھتا ہے.
اسکے ساتھ اگر ہم ان کے درمیان رزلٹس کمپیر کریں. تو حیرت ہوتی ہے. انکے رزلٹس میں اتنا گیپ ہے جو ناقابل یقین ہے. جب وزیر اعلیٰ پنجاب نے اسٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ دینے کا اعلان کیا تھا. تو اس سکیم کے تحت پنجاب میں ان اداروں کے ان اسٹوڈنٹس کو شامل کیا گیا تھا.جنہوں نے این جی اوز بورڈ سے اس سال ایگزیم دیا تھا. تو اس سکیم میں کل چار کلاسز شامل ہوسکے تھے. سکیم کے تحت لیپ ٹاپ ان اسٹوڈنٹس کو ملنا تھا. جنہوں نے 60% مارکس اسکور کئے تھے. ان این جی اوز کے اسٹوڈنٹس کا رزلٹ اتنا شاندار تھا. کہ تقریباً 70%اسٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ ملے. جبکہ یونیورسٹی میں یہ 40%سے کچھ اوپر کے لگ بھگ تھی. یاد رہے ان این جی اوز کے اسٹوڈنٹس کو سکیم میں رزلٹ آؤٹ ہونے کے بعد اچانک شامل کیا گیا تھا.
اسی طرح آپ دوسرے فنون اور علوم لے لیجیے جو اس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں.
اب گورنمنٹ عربی/دینیاتی شعبے کو اپ گریڈ کرے. وہاں تعلیم کا معیار ان این جی اوز کے معیار کے برابر کرے. اسٹوڈنٹس کا اعتماد جیتے. انکی اخلاقی تربیت کا اہتمام کرے.کالجز میں بدامنی کی فضا کو ختم کرے. انہیں جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرائے. پھر دیکھیے ان این جی اوز کو نیشنیلائز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی. اور ان این جی اوز کی دکانیں خود بخود بند ہوجائیں گی۔

Facebook Comments

ثناءاللہ
چترال، خیبر پختون خواہ سے تعلق ہے... پڑھنے اور لکھنے کا شوق ہے... کچھ نیا سیکھنے کی جستجو...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply