• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا آسمانوں میں کہیں اور بھی زندگی ہے؟ اگر ہے تو کہاں/رضوان خالد چوہدری

کیا آسمانوں میں کہیں اور بھی زندگی ہے؟ اگر ہے تو کہاں/رضوان خالد چوہدری

قُرآن کے مطابِق زمین کے علاوہ بھی آسمانوں میں زندگی تو ہے لیکن اِس یونیورس میں زمین کے علاوہ کہیں زندگی نہیں ملے گی ،ہاں جب دوسری یونیورسز یعنی دوسرے آسمان دریافت ہو گئے تو لازِم ہے کہ انسان اپنے جیسی یا اپنے سے بہتر کسی مخلوق سے آشنا ہو جائے۔ یاد رہے کہ قرآن انسان کو اکثر مخلوقات سے افضل کہتا ہے سب سے افضل نہیں یعنی اس جیسی یا اس سے بہتر مخلوقات کائناتوں میں ضرور موجود ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں۔ آئیے قرآن میں ہی ڈھونڈتے ہیں۔

سُورة الطلاق کی آیت بارہ میں اللہ فرماتے ہیں “اللہ وہی ہے جِس نے پیدا کیے سات آسمان اور زمین بھی اُنکی طرح، نازل ہوتا رہتا ہے اُسکا حُکم انکے درمیان تاکہ تُم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ احاطہ کیے ہوئے ہے ہر چیز کا اپنے علم سے”۔

اب اس آیت سے ہمیں تین باتیں پتہ چلیں ،ایک یہ کہ آسمان یعنی کائناتیں سات ہیں اور دوسری بات یہ کہ زمین بھی ان کی طرح یعنی سات ہیں۔ گویا آسمان ستاروں سیاروں سے بھرے ایک ایک بندوبست کو کہا گیا ہے۔

اب آگے بڑھتے ہیں۔ دوسری بات اس آیت سے یہ پتہ چلی کہ اللہ کا حُکم ان کائناتوں کے بیچ نازل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ہم جانتے ہیں کہ انبیاؑ اللہ کا حُکم لے کر نازل ہوتے رہے اس آیت میں اللہ نے بتا دیا کہ سبھی آسمانوں میں یہی معاملہ ہے۔

اب جو تیسری سب سے اہم بات ہمیں یہ آیت بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم بالآخر یہ حقیقت جان لیں گے کہ اللہ دیگر آسمانوں میں ہر چیز کا اپنے علم سے ویسے ہی احاطہ کیے ہوئے ہے جیسے ہمارے آسمان میں موجود اُسکے قوانین ہیں ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ یعنی یہ طے ہے کہ انسان کی دیگر آسمانوں میں موجود زمینوں میں موجود مخلوقات سے شناسائی ہو۔

یاد رہے کہ اللہ نے یہ سات زمینیں اور سات آسمان ایک ہی وقت میں تخلیق کیے۔ اس کا تذکرہ اللہ سُورة فُصّلت میں تفصیل سے کرتے ہوئے آیت 9  میں بتاتے ہیں کہ زمین دو واضح وقفوں یعنی ترتیب وار مرحلوں میں بنی اور پھر آگے وضاحت کرتے ہیں کہ آسمان بننے کے ایّام الگ تھے یہ پہلے اور ایک ساتھ مرحلہ وار سٹیجِز میں بنے ،پھر الارض کو ان سے الگ ہونے کا حُکم دیا گیا۔ چودہ سو سال پہلے قُرآن میں کہی ہُوئی یہ بات اب سائنس مانتی ہے کہ پہلے سب ستارے سیارے جُڑے ہوئے تھے پھر الگ ہو گئے۔

اب یہ سمجھ لینا کہ یہ سات آسمان ہی اللہ کی کُل تخلیق ہے ،بھی کم عقلی ہوگی، ہم سے بار بار ان سات آسمانوں کا ذکر بس اس لیے کیا جاتا ہے کہ انسان  کی پہنچ دنیاوی زندگی میں اور جنّت کے مرحلے کے بعد بھی بس اسی مدار تک محدود ہو گی جہاں تک یہ سات کائناتیں پھیلی ہوئی ہیں ورنہ اللہ کی قُدرت تو لامحدود ہے۔

اب واپس اپنے ٹاپِک کی طرف آتے ہیں، ایک اور بات جو قرآن سے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر آسمان میں ایسی زمین بس ایک ہی ملے گی جہاں زندگی موجود ہو گی، الارض کا لفظ ‘اللہ’ استعمال ہی اُس مقام کے لیے کرتا ہے جو زندگی کے قابل ہو ،ورنہ ستاروں سیاروں کا ذکر الگ سے کرتا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ آج تک کی سائنس آسمان یعنی ہماری کائنات کا دوسرا سِرا تلاش نہیں کر پائی ہے، ابھی ہم یہی جانتے ہیں کہ نِت نئی گیلیکسیز روزانہ دریافت ہو رہی ہیں، سائنس دانوں کا البتّہ اب یہ خیال ہے کہ عین اس کائنات سے جُڑی ہوئی ایک مُتوازی کائنات بھی ایک پردے کے ساتھ موجود ہے، کُوانٹم فزکس نے اب اُس پردے کی نوعیت اور ترکیب پر بات کرنی شروع کی ہے، یعنی یہ ممکن ہے کہ ہم اگلے سالوں یا دہائیوں میں اُس پردے سے پرے دوسری  کائنات یعنی دوسرے آسمان کی کچھ معلومات حاصل کر لیں۔ قُرآن اُس دوسرے آسمان کی کُچھ نشانیاں البتہ ضرور بتاتا ہے۔
اکتالیسویں سُورة کی آیت بارہ میں اللہ پہلے اور دوسرے آسمان کا ایک فرق کُچھ یُوں بتاتا ہے۔
“پھر دو مرحلوں میں سات آسمان بنا دیے اور ہر سماوی کائنات میں اُسکا نظام ودیعت کر دیا، اور آسمانِ دُنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کر دیا ۔”

لیجیے یہ تو  طے ہو گیا کہ دوسرے آسمان میں چراغ یعنی سُورج نہیں ہیں، گویا وہاں زندگی کی نوعیت بالکل الگ ہو گی۔ الارض یعنی زندگی کے قابل زمین تو وہاں بھی یقیناً ہے ،لیکن اگر سُورج نہیں ہے تو یہ زندگی کس نوعیت کی ہو گی یہ سوچنا تو سائنسدانوں کا کام ہے لیکن یہ اندازہ تو ہم لگا سکتے ہیں کہ وہاں زندگی کی بنیاد ہی ہماری زندگی کی بنیاد سے الگ قسم کی رکھی گئی گو کہ وہاں بھی زندگی تبھی شروع ہوئی تھی جب ہمارے ہاں ہوئی کیونکہ قرآن کے مطابق سبھی آسمان ایک ہی ساتھ بنائے گئے تھے۔ چونکہ ہم مادے اور انرجی کے سِوا ابھی کوئی تیسرا مفہوم ہی نہیں سمجھ سکتے لہٰذا ہم اُس زندگی اور بندگی سے جُڑے مفاہیم کا تصور کرنے سے قاصر ہیں جو اُس الارض کے باسیوں کا خاصہ ہیں لیکن دیکھیے قرآن اشارے تو دے رہا ہے۔

سات آسمانوں کا انکار کرنے والے ایسا کرنے میں تب حق بجانب ہیں جب یہ پہلے آسمان یعنی ہماری کائنات کے تمام سرے جان چُکے ہوں۔ سائنسدان یہ تو بتاتے ہیں کہ نیبولا سے یہ کائنات پیدا ہوئی یہ تو نہیں کہتے کہ اُس نیبولا سے صرف اسی کائنات نے جنم لیا جسے ہم اپنا آسمان کہتے ہیں، کیسے کہیں یہ نیبولا کے بارے میں جاننے کا دعوٰی بھی کہاں کرتے ہیں۔ اللہ البتہ قرآن میں دعوٰی کرتا ہے کہ ایک نہیں سات بِگ بینگ ہُوئے تھے اور ہر بگ بینگ نے ایک الگ آسمان کو وجود بخشا تھا، جب تک آپ ایک آسمان یعنی اس کائنات کو پار نہ کر لیں اللہ کے دعوے کا انکار کرنا تو خود سائنسی اُصولوں کے خلاف ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر زمینوں میں اللہ کا کیا نظام اور کیسی مخلوقات ہیں۔ قرآن میں موجود اشارے یہ تو طے کر دیتے ہیں کہ ہم انکا ثبوت پائیں گے کیونکہ اللہ بعض مقامات پر جس طرح کے الفاظ استعمال کرتا ہے اُن سے یہ یقینی ہو جاتا ہے کہ کسی جنریشن کو ضرور یہ ثبوت ملے گا، مثلاً یہ کہنا کہ تو کیا تُم اسکا انکار کرتے ہو، یہ الفاظ دلیل ہیں کہ ثبوت ملے گا اور کوئی انکار نہ کر پائے گا کہ قرآن انسانوں اور کائناتوں کے خالِق کا کلام ہے۔

کُوانٹم مکینکس کا جدید علم یہ ثبوت ملنے کی رفتار کو تیز تر کر دے گا۔ کوانٹم فزکس تو اُن کائناتوں اور ہماری کائنات کی زندگی کے ربط اور تعلق سے متعلق بھی مفروضے قائم کر رہی ہے، یہ ربط ہونا بھی چاہیے، نہ ہوتا تو ہمیں قرآن میں سات آسمانوں سے متعلق بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جیسے اللہ نے جب چودہ سو سال پہلے یہ بتایا کہ زمین اور دیگر سیارے ستارے سب پہلے باہم ایک ساتھ جُڑے ہوئے تھے تو اس حقیقت کو انسانوں پر ضرور ثابت ہونا تھا نہ ہونا ہوتا تو قرآن تزکرہ ہی نہ کرتا اور گزشتہ صدی میں بگ بینگ تھیوری نے اسے ثابت کیا بھی، قرآن نے بتایا کہ زمین پر پانی باہر سے آیا تو تب لوگوں کے لیے یہ بس ایک خبر تھی بتایا اس لیے گیا تھا کہ جب یہ ثابت ہو تو لوگوں کا یقین قرآن پر بڑھے کہ چودہ سو سال پہلے یہ حقیقت کائنات کا خالق ہی جان سکتا ہے، قرآن کی دی خبر باالآخر ثابت ہوئی بھی، قرآن نے کہا کہ اُنگلیوں کی پُوروں سے پہچان لیے جاو گے تو بالآخر انسان نے فنگر پرنٹس دریافت کر کے اس بات کو نشانی کے طور پر لینا تھا کہ فنگر پرنٹس کی دریافت سے سینکڑوں سال پہلے یہ بات انسانوں کا خالِق ہی کہہ سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی معاملہ سات آسمانوں سات زمینوں، انسان کے کثیر مخلوقات سے افضل ہونے اور سبھی آسمانوں میں موجود ساتوں زمینوں میں اللہ کا حُکم نازل ہونے کے قرآنی بیانات کا ہے۔
ان سب کو ثابت ہونا ہے ورنہ اللہ انکا ذکر ہی نہ کرتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply