تمثیلہ لطیف غزل کی شاعرہ ہیں، آپ کم لکھتی ہیں لیکن اچھا لکھتی ہیں، آپ کی زیر تبصرہ غزل میں فکر و احساس کی گہرائی اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ غزل اپنی سادگی اور زبان کی فصاحت کے ساتھ انسانی جذبات، رویوں، اور تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔ ہر شعر زندگی کے ایک خاص پہلو کو اجاگر کرتا ہے اور انسانی کردار، فطرت اور احساسات کو تمثیلہ لطیف تمثیلاتی انداز میں پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
آپ کی شاعری میں احساسات اور عصیاں کی عکاسی کی گئی ہے غزل کا پہلا شعر انسان کے گناہوں اور دعاؤں کے تعلق کو بیان کرتا ہے مثلاً:
“میری پلکوں پہ جو اشکوں کی طرح ہوتا ہے
عرقِ عصیاں تو دعاؤں کی طرح ہوتا ہے”
یہاں شاعرہ نے “عرقِ عصیاں” کو دعاؤں سے تشبیہ دی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ گناہوں کا احساس انسان کو دعاؤں کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس شعر میں شاعرہ گہرے جذبات اور انسان کے اندرونی تضاد کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جہاں گناہ اور دعا کا تعلق احساس ندامت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
جہاں آپ نے عشق کا زکر کیا ہے وہاں انسان کی معصومیت کا بھی ذکر کیا ہے مثال کے طور پر:
“آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے” میں عشق کی کیفیت کو معصومیت اور سادگی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ عشق انسان کو معصوم اور سادہ دل بنا دیتا ہے، جیسے کہ معصوم بچہ ہوتا ہے۔ اس شعر میں محبت کی پاکیزگی اور انسان کے جذبات کی شفافیت کی بھر پور انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔
غزل میں انسان کے ساتھ ساتھ فرشتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے:
“ایسا انسان فرشتوں کی طرح ہوتا ہے” میں مہر، ایثار اور مروت جیسے اوصاف کو انسانیت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ شاعرہ نے انسانیت کے ان اعلیٰ اصولوں کو فرشتوں کے اوصاف سے تشبیہ دی ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ انسان بھی فرشتوں جیسی عظمت پا سکتا ہے جب وہ ان اصولوں کو اپناتا ہے۔
تمثیلہ نے خوابوں کی حقیقت کو بھی موضوع سخن بنایا ہے جیسے:
“چشمِ بیدار کے سپنوں کی طرح ہوتا ہے” ایک گہری تشبیہ ہے جو خواب اور حقیقت کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ یہ شعر اس خیال کو اجاگر کرتا ہے کہ کبھی حقیقت بھی خوابوں کی مانند محسوس ہوتی ہے، اور یہ حقیقت انسان کے ذہنی اور روحانی حالات کا عکس ہے۔
غزل میں وهم اور تخیل دونوں کا زکر موجود ہے:
“وہم تو مکڑی کے جالوں کی طرح ہوتا ہے” میں وہم کی کیفیت کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی گئی ہے، جو انسانی ذہن کے انتشار اور غیر یقینی کی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ شعر تخیل کی طاقت اور اس کی محدودیت پر سوال اٹھاتا ہے۔
تمثیلہ نے سچ اور جھوٹ کے بدلتے ہوئے معیارات کی نشاندہی کی ہے:
“آج کا سچا بھی جھوٹوں کی طرح ہوتا ہے” ایک نہایت اہم شعر ہے جو معاشرتی تبدیلیوں اور سچائی کے معیار پر طنز کرتا ہے۔ اس میں شاعرہ نے بتایا ہے کہ پہلے سچ اور جھوٹ کے درمیان واضح فرق تھا، لیکن اب سچائی کا بھی وہی مقام رہ گیا ہے جو جھوٹ کا ہے، جس سے معاشرتی قدریں تبدیل ہو گئی ہیں۔
شاعری میں دل کی سادگی اور زخمی ہونے کے عمل کو بھی بیان کیا گیا ہے:
“جو بھی دل میں مرے اپنوں کی طرح ہوتا ہے” دل کی سادگی اور اپنوں کے رویے کی وجہ سے ہونے والے زخموں کو بیان کرتا ہے۔ اس شعر میں جذباتی دھوکے اور اپنوں کے رویے کی تلخی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
شاعرہ نے مثالوں کی اہمیت بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے:
“ذکر جس کا بھی مثالوں کی طرح ہوتا ہے” میں کسی خاص بات کو مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یادگار باتیں ہمیشہ مثالوں کی شکل میں برقرار رہتی ہیں، اور ان کا ذکر ہر زمانے میں ہوتا ہے۔
غزل میں وقت اور انسان کے رویے کی بات کی گئی ہے مثال کے طور پر:
آخری شعر “وقت انساں کے رویوں کی طرح ہوتا ہے” وقت کی غیر یقینی اور انسان کے رویے میں تبدیلی کو بیان کرتا ہے۔ یہ شعر وقت کی طاقت اور اس کے اثرات کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح وقت انسان کے رویے کو بدل دیتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمثیلہ لطیف نے اپنی غزل میں انسانی تجربات اور جذبات کو نہایت سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمثیلہ لطیف نے تمثیلاتی انداز میں زندگی کی مختلف حقیقتوں کو بیان کیا ہے، میں شاعرہ کو اتنی اچھی شاعری تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے تمثیلہ لطیف کی غزل پیش خدمت ہے۔
*
غزل
*
میری پلکوں پہ جو اشکوں کی طرح ہوتا ہے
عرقِ ِ عصیاں تو دعاؤں کی طرح ہوتا ہے
سادہ دل پارہ صفت صبر و رضا کا پیکر
آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے
مہر و ایثار و مروت کا قرینہ ہو جسے
ایسا انسان فرشتوں کی طرح ہوتا ہے
اے مرے پیکرِ الطاف ! ترا مجھ پہ کرم
چشمِ بیدار کے سپنوں کی طرح ہوتا ہے
در و دیوارِ تخیل کی نحوست ہے یہ
وہم تو مکڑی کے جالوں کی طرح ہوتا ہے
پہلے جھوٹوں میں بھی کچھ شرم و حیا ہوتی تھی
آج کا سچا بھی جھوٹوں کی طرح ہوتا ہے
زخم کھاتی ہے اسی سے یہ مری سادہ دلی
جو بھی دل میں مرے اپنوں کی طرح ہوتا ہے
لائقِ ذکر کوئی بات یقیناً ہو گی
ذکر جس کا بھی مثالوں کی طرح ہوتا ہے
کیا خبر کون سے لمحے میں بدل دے فطرت
وقت انساں کے رویوں کی طرح ہوتا ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں