محبت،ہمدردی و رحمدلی ،ترس / جاویدایازخان

انسانی زندگی میں ان تین الفاظ کو بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔ان سب کاتجربہ رکھنے کے باوجود بہت کم لوگ ہی ان سب کے بارے میں مکمل سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔عموما” محبت پیار ،ہمدردی و رحمدلی کو تقریبا” ایک ہی تنازل میں دیکھا جاتا ہے جبکہ نفرت وغصہ ان کا متضاد تصور کیا جاتا ہے ۔ا ن کے درمیان موجود معمولی مگر بڑے فرق کو سمجھے بغیر ان الفاظ کےسے لطف اٹھانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔یہ سارے نام محض مختلف الفاظ کا مجموعہ ہی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو ہر ایک شخص کے ساتھ درجہ بدرجہ احساس ،روئیے اور ردعمل سے جڑے ہوتے ہیں ۔ہم اکثر محبت ،پیار ،عشق،ہمدردی اور ترس کھانے کو آپس میں یوں گڈ مڈ کر دیتے ہیں کہ ان کے معنی اور اہمیت سمجھ نہیں آ تی کہ یہ سب چیزیں آخر کیا ہیں ؟ اور اگر ایک ہی ہیں تو ان کو الگ الگ نام سے کیوں پکارا جاتا ہے ؟ کہتے ہیں کہ محبت اور نفرت کا آغاز تو ہابیل قابیل کے دور سے ہی سامنے آگیا تھا ۔پھردنیا کی تاریخ میں مختلف معاشروں ،فلسفوں اور مذاہب نے محبت کی مختلف طریقوں سے جانچ اور تشریح اپنے اپنے مطابق کی ہے ۔محبت ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی تصور ہے ۔جسے عام طور پر دو لوگوں کے درمیان ایک مضبوط لگاو ،تعلق یا مشترکہ احساس کے طور پر سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ صیح تعریف اس سے کہیں مختلف اور مشکل ہو سکتی ہیں ۔محبت میں بہت سے احساسات ،رویوں او راعمال کے درمیان ہمدردی ،دیکھ بھال،رحم ، ،پیار اور ترس جیسے جذبے بھی اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں ۔یہ جذبے دوستوں ،خاندان کے لوگوں ،رشتوں ،کے ساتھ ساتھ کسی بھی فرد یا افراد سے بھی ہو سکتے ہیں ۔

ہم نے ایک مرتبہ شرارتا” کلاس میں ایک کہانی پڑھاتے ہوے ٔ اپنے استاد ماسٹر شاہ محمد مرحوم سے پوچھا کہ سر ! یہ محبت کیا ہوتی ہے ؟ وہ ہم نوجوانوں کے شرارتی سے سوال کا مطلب سمجھ گئے ۔انہوں نے اپنی عینک نیچے کرکے غور سے ہماری جانب دیکھا اور بولے یاد رکھو محبت وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں نفسانی خواہشات ،سیکس اور ہوس ختم ہو جاتی ہے اور جس محبت میں ان کا تصور تک نہیں ہوتا وہ ہی اصل محبت ہوتی ہے ۔چاہے وہ کسی سے بھی ہو ،کسی بھی جنس سے ہو ،کسی بھی عمر میں بھی ہو ،کسی بھی رشتے میں بھی ہو ۔مگربرائی گناہ اور اس کی سوچ سے بالاتر ہو ۔اس کے علاوہ کسی بھی مرد و عورت کے درمیان بغیر کسی رشتے کے محبت نہیں صرف ضرورت ہوسکتی ہے ۔ محبت کے لیے ضرورت کا نہ ہونا ہی دراصل اس کے حقیقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے ۔محبت پیار ،ہمدردی ،رحمدلی ،ترس ،لگاو سمیت تمام مثبت تعلقات کا نام ہے ۔ گو یہ سب اپنی جگہ الگ الگ حیثیت اور معنی رکھتی ہیں ۔ لیکن محبت کے گلدستے میں یہ سب پھول یکجا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے جڑۓ ہوۓ ہوتے ہیں ۔محبت والدین سے ہو ،بہن بھائیوں سے ہو ،اولاد سے ہو ،دوستوں اور رشتہ دراروں سے ہو یا پھر میاں بیوی کے درمیان ہی کیوں نہ ہو اس میں ہمدردی ،پیار ،رحم ،ترس اور لگاو کے جذبے ضرور شامل ہوتے ہیں جو انہیں جوڑے رکھتے ہیں ۔محبت کرنے والوں کے درمیان پرجوش محبت ،قربت ،اعتماد ،قبولیت اور قربانی کے احساسات سے وابستہ ہونا بھی بنیادی عنصر ہوتا ہے ۔بغیر کسی رشتے کے جسمانی تعلق ،گناہ ،بےراہ روی ،اور آوارگی کو محبت کہنا محبت کی سب سے بڑی توہین ہوتی ہے ۔محبت ضرورت ،جذبہ اور قربانی ہوتی ہے ۔محبت کے لیے جواز اور محرک کا ہونا لازمی ہے ۔محبت بےسبب نہیں ہوتی اور ہر ایک سے بھی نہیں ہوتی بلکہ خاص خاص سے ہوتی ہے ۔یہ محبت کسی انسان کسی شے یا کسی فکر اور نظریے سے بھی ہو سکتی ہے جبکہ ہمدردی احساس و ایثار ہوتا ہے جو تمام انسانوں میں بلاتفریق پایا جاتا ہے اور ہمدردی کسی خاص سے نہیں عام اور بہت سوں سے بھی ہوجاتی ہے ۔ رحمدلی خداداد عنایت ،انسانی جبلت اور ایسی صفت ہے جو رب کی عطا ہوتی ہے۔ ترس دراصل انسان میں چھپی خدادا د عظمت و بڑائی تو ضرور ہوتی ہے ۔لیکن یہ انسانی کمزوری کا اظہار بھی سمجھی جاتی ہے ۔محبت انسان کو طاقت دیتی ہے۔ جبکہ ترس اسے کمزور کرتا ہے۔ ترس ظاہر میں مثبت اور اپنے باطن میں منفی ہوتا ہے ۔ ترس سے ہمدردی تو پیدا ہوسکتی ہےمگر محبت نہیں پیدا ہوتی ۔یہ سب مل جائیں تو عشق مجازی سے بڑھ کر عشق حقیقی کی جانب پہلا قدم بن جاتے ہیں ۔ عشق وہ آخری اور بہتریں درجہ ہے جس میں کسی بھی صلے کو خاطر میں لاۓ بغیر انسان کسی دوسرے کے لیے کشش محسوس کرتا ہے عشق جزاوسزا سے بےنیاز ہوتا ہے۔ نفع نقصان سے عاری رہتا ہے اور ہر تعصب سے بالاتر ہو جاتا ہے ۔ہم نے پوچھا سر ! یہ جو لیلیٰ مجنوں ،شریں فرہاد ،ہیر رانجھا ،سسی پنوں ،کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ تو پھر یہ کیا ہیں ؟ تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ” کہتے ہیں عشق جس کو خلل ہے دماغ کا “۔ کہانیوں کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا ۔ہر مجازی عشق کا انجام جسمانی خواہشات پر ہی ختم ہوتا ہے ۔اردو کی داستانیں دراصل محبت کے سہارے ہی چلا کرتیں ہیں ۔کیونکہ ادب کا مزاج محبت کے خمیر سے ہی تیار ہوتا ہے اور لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنتا ہے ۔یہ داستانیں یا تو ملاپ یا پھر ان کی دردناک موت پر ختم ہوتی ہیں ۔داستان کی دلچسپی کا دارومدار ہمیشہ محبت کے بیانیے پر ہی قائم رہتاہے ۔داستان میں محبت کرنے والوں کا ملاپ یا ان کی موت ہی داستان کا اختتام ہوتے ہیں ۔ یہ کہانیاں جو عقل سے زیادہ تخیل کی مرہوں منت ہوتی ہیں اور انسانوں کی نامکمل خواہشات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں ۔ لگتا یہ ہے کہ شاید ان داستانوں میں محبت جسم کے حصول کا ایک مہذب ذریعہ ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارا دین شادی سے قبل کسی بھی ایسے تعلق کی نفی کرتا اور اس سے روکتا ہے ۔ہمارے مذہب کے مطابق اسلامی معاشرے میں محبت کا آغاز شادی کے بعد شروع ہوتا ہے اور یہ رومانس پوری زندگی جاری رہتا ہے ۔اسلام محبت کو نکاح کے بندھن سے وابستہ کرتا ہے ۔محبت ادب سکھاتی ہے اور احترام کا سبق دیتی ہے ۔

ہمدردی اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ پر تصور کرنے اور دوسرو ں کے احساسات ،خواہشات ،خیالات اور اعمال کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ ہمدردی ایک ایسی چابی ہے جو دلوں کے بند دروازے کھول دیتی ہے ۔بہترین معاشرے کا قیام ہماری انفرادی اور اجتماعی ہمدردی سے ہی جڑا ہوا ہے چنانچہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ دراصل احساس ہی ہمدردی معاشرت اور حسن معاشرت کی بنیاد ہوتا ہے ۔زندگی آپ کو وہی لوٹاتی ہے جو آپ نے اسے دیا ہوتا ہے ۔لیکن ہمدردی رکھتے ہوۓ محتاط رویہ رکھنا کچھ غلط نہیں ہوتا ہمدردی میں خود کو نقصان پہنچانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اگر پہنچ بھی جاۓ تو کوئی حرج نہیں ہوتا ۔

کسی کے دکھ یا تکلیف پر دل میں رقت اور ہمدردی کی کیفیت پیدا ہونا مہربانی ،شفقت ،نرم دلی کے جذبات پیدا ہونا اور اسکی مدد کا جذبہ رکھنا رحم کہلاتا ہے ۔فرمان رسول اللہ ؐ ہے کہ “تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں رحم نہ کرو ” پھر فرمایا “جو لوگوں پر رحم نہیں کھاتا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کھاتا ” یاد رہے رحم کی ہدایت صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر جاندار پر رحم کرنے کی ہدایت ہے ۔رحم اللہ کی صفات میں سے ایک ایسی صفت ہے جو اس نے انسانوں کو بھی عطا فرمائی ہے ۔

ترس کے معنی ڈر اور خوف یا دہشت اور ہول کے ہوتے ہیں ۔خدا ترسی دراصل اللہ کی ناراضگی کے خوف سے یا اس کی خوشنودی کے لیے بھلائی کرنے کو کہتے ہیں ۔ترس کا مطلب کسی چیز سے محرومی کی باعث اس کی خواہش کرنے کو بھی کہتے ہیں ۔ترس دراصل تو اپنے اندر رحمدلی اور ہمدردی کا جذبہ صرف خدا کے ڈر کی وجہ رکھنے کا نام ہوتا ہے ۔اللہ کے خوف سے بھلائی کرنا ترس کھانے کے مترادف ہے ۔ترس کھانے کے لیے ایثار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایثار ترس کھا کر دوسروں کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دینے کا نام ہے ۔یعنی دوسروں کا فائدہ اپنے سے مقدم جاننا اور اللہ کے خوف اور اسکی خوشنودی کے لیے دوسرے کے نفع کو اپنے نفع پرترجیح دینا یا پھر غیر معمولی سخاوت اور بخشش یا قربانی دینا ۔یہ سب رحم کے زمرے میں ہی آتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

گویا محبت پیار ،ہمدردی ،رحمدلی ،خدا ترسی ،ایثار یہ وہ جذبے ہیں جو الگ الگ معنیٰ اور مطلب رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں ۔اور ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے ۔ان جذبوں کا سب کا بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ہمیں نفرتوں اور غصے سے بھی محفوظ رکھتے ہیں اور دنیاوی معاملات میں بھی بہتری لاتے ہیں ۔یہ سب جذبے انسانی احترام اور عزت کا ذریعہ ہوتے ہیں اور خوبصورت معاشرےہمیشہ انہیں جذبوں سے تشکیل پاتے ہیں ۔ آئیں ان مثبت جذبوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ۔یہی ہماری زندگی کی خوبصورتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply