پستی کا حد سے گزرنا ذرا دیکھیں/عزیر احمد

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ°
آپ لوگ اپنے ارد گرد، علاقے، محلے میں، سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں سے ضرور ساودھان رہیں جو جانے انجانے میں دنیائے صیہونیت کے ہرکارے بن چکے ہیں، اسرائیلیوں کے ہر عمل کو جسٹیفائی کرنے والے ہراوّل دستہ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ مستقل اس نظریہ پر کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے بیت المقـدس کی اہمیت کو مسلم ذہنوں میں کم کیا جا سکے، اس کی حفاظت اور صیانت کے لئے لڑنے والے لوگوں کو ہی ولن  ثابت کیا جا سکے، ان کی بد بختی ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے یہ الزام لگاتے رہے کہ لیڈران ہوٹلوں میں بیٹھ کے عیاشی کرتے ہیں اور عوام مرتی ہے، پروپیگنڈہ پھیلاتے رہے کہ پٹاخے پھوڑتے ہیں اور خود اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، پھر کیا ہوا؟ یکے بعد دیگرے  قـائدین میدان میں اُترنے لگے، اور اپنی جانیں اس عظیم مقصد کے لئے نچھاور کرنے لگے، کما  نڈر، جنر ل، سپا ہی سب نے اپنی جان و مال کے نذرانے پیش کیے، کیا اتنی سی بات سمجھنی مشکل ہے کہ ان کے لئے سب سے زیادہ آسان تھا کہ وہ زائنسٹ  تسلط کو قبول کرلیتے اور اپنی جان و مال کی حفاظت کر لیتے، زئنسٹوں کے زیر اشراف حکومت کی ملائی کھاتے رہتے؟ لیکن انہوں نے عزیمت کی راہ چُنی، اور ہم جشن منا رہے  ہیں کہ چوہوں کی موت مر رہے ہیں ؟ نعوذ بالله من ذلک۔

دودن پہلے پھر  ایک فقیر چلا گیا، اس کی متاعِ حیات میں گھنٹوں گھورتا رہا، کیا تھا اس کے پاس؟ چند نوٹ، ایک ہتھیار، تسبیح، دعا، ڈائری، یہی کُل اثاثہ، اسرائیلیوں نے ویڈیو جاری کی ہے، قـائد ایک ٹوٹے ہوئے گھر میں بیٹھا آخری جنگ لڑ رہا ہے، وہ بھاگا نہیں، وہ چھپا نہیں، اس نے چوہے کی زندگی نہیں اختیار کی، اس نے کمپرومائز نہیں کیا، زندہ رہا تو بھی “یا تو فتح یا تو موت” کے نعرے لگاتا رہا، مرنے لگا تو بھی پیٹھ نہیں دکھائی، بلکہ ڈرون پر لکڑی پھینک کر مارا، گولی سامنے سے کھائی، اور مجھ جیسے بے شمار لوگوں کو اپنے سامنے بونا دکھا گیا۔

میرا دل بہت حساس ہے، میں کٹی پھٹی لاشیں نہیں دیکھ پاتا ہوں، لیکن میں اس لاش کو بہت دیر تک دیکھتا رہا، بالکل بے حس، میرے ذہن میں بار بار یہی سوال آرہا تھا کہ آج کے دور، عہد زوال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ قرن اوّل کی یاد تازہ کرائیں، کیسے اتنی صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں طے ہوسکتا ہے، دماغ بار بار اسی آیت کا ورد کر رہا تھا “وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُّقوتَلُ فِى سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَل اَحيَآءٌ وَّلٰـكِن لَّا تَشعُرُونَ”، اور سوچ رہا تھا کہ ہائے کیا بد نصیبی ہے کہ اُمت کو جس مسئلے پر متحد ہونا چاہیے تھا، آج امت اسی مسئلے پر افتراق کا شکار ہے، یہودیوںصیہو  نیوں سے مقابلہ ہے، کیا کسی شک کی گنجائش ہے کہ کس کی سائیڈ کھڑا ہونا ہے؟ جان و مال سے، ہتھیاروں سے مدد نہیں کر سکتے تو کیا اخلاقی حمایت کی بھی گنجائش باقی نہیں رہی؟ لیکن ہائے نصیبا کہ لوگ تذبذب کے شکار ہو رہے ہیں، یہ تو ایک دم سفید اور سیاہ کی طرح واضح مسئلہ ہے، علما  سلف کی اس مسئلے پر تحریریں ہیں، لیکن پھر بھی ہم وحشت کے شکار ہیں، کیا آج کے دور میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہوتے اور معاملہ اس طرح ہوتا تو اپنے کسی بھی عمل سے یہودیوں کی حمایت کرتے نظر آتے؟

اسی سوشل میڈیا پر بعض لوگ ہیں جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو صاف مُکر جاتے ہیں کہ ہم کہاں زائنسٹوں کے حمایتی ہیں، لیکن ہر قائد، ہر لیڈر، ہر سپاہی کی موت پر ان کا طرز عمل چیخ چیخ کے گواہی دیتا ہے کہ بھلے ہی یہ حمایت کے انکاری ہیں، لیکن یہ سب سے بڑے یہود نواز ہیں، اور اپنی یہود نوازی کو وہ پُرزہ  کی تخریب کے پیچھے چھپاتے نظر آتے ہیں، کیا اس سے زیادہ بھی کچھ افسوس کی بات ہوسکتی ہے کہ ایک کلمہ گو مسلمان یہودیوں کے ہاتھوں مارا جائے اور ہم اس پر جشن مناتے نظر آئیں، پستی کا حد سے گزرنا ذرا دیکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر کوئی نہیں، ہر دور میں ایسا ہوتا ہے، زندگی ہمیشگی کی نہیں ہے، اور ہر دور کی کہانی دو تین صدیوں بعد ہی لکھی جاتی رہی ہے، آج کی کہانی بھی کل لکھی جائے گی تو شاید ولن ہیرو ٹھہریں گے، اور حکمت و مصلحت کے پردے میں چھپے ہیرو کل کے ولن، وقت بڑا ظالم ہے، وہ کب کسی کا ہمیشہ ہی حمایتی رہا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply