گزشتہ تین چار دنوں سے سوشل میڈیاپرنزاری اسماعیلی مسلمان کمیونٹی کے پُرامن طرزِ زندگی،جدید سماجی اقدار سے ہم آہنگی،تعلیم وتربیت کی اعلیٰ سطح اورمذہبی عبادات کو چاردیواری کے اندر محدود رکھنے کی تعریف و توصیف کی جارہی ہے۔سوال ہے کہ اسماعیلی کمیونٹی اتنی امن پسند کیوں ہے؟کون سے سماجی اور تاریخی محرکات تھے جنہوں نے اس کمیونٹی کو بتدریج امن پسندی اور مقامی ثقافت سے مطابقت پیدا کرنےکی راہ دکھائی اور آج وہ معاشی اور سماجی طور پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نسبت بہتر زندگی گزاررہے ہیں۔ اس کا فوری جواب تو یہ ہے کہ نزاری اسماعیلی اوربوہرے( اسماعیلیوں کا فرقہ جو خود کو اصلی اسماعیلی کہتا اور نزاری اسماعلیوں کو اسماعیلی عقائد سے منحرف قراردیتا ہے)نسلی فرقےہیں۔ ان میں کنورژن نہیں ہے۔ اگر کوئی اسماعیلی اور بوہرہ اپنے عقائد سے منحرف ہوجائےتو پوری کمیونٹی اس کا سماجی بائیکاٹ کردیتی ہے،اس سے ہر قسم کا لین دین بند اور سماجی روابط منقطع کرلیتے ہیں۔اگر انھیں مسلمانوں کے جیوش فرقے کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہی یہ دونوں فرقے اپنے عقائد کی تبلیغ اور تبدیلی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ نزاری اسماعیلی اور بوہرے تو اپنے عقائد کو خفیہ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔اسی بنا پر انھیں اسلام کے باطنی فرقے قراردیا جاتا ہے۔لبنان کے دروز بھی اسماعیلیوں ہی کی ایک شاخ ہیں۔ نزاریوں اور بوہروں کے جماعت خانوں میں کوئی غیر اسماعیلی اورغیر بوہری نہیں جاسکتا۔ہر وہ فرقہ جو تبلیغ کرتا اور کنورژن پر یقین رکھتا ہے جلد یا بدیر تشدد کی راہ اختیار ضرورکرتا ہے کیونکہ تشدد ہی اس کی بقااور ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔
تبلیغ نہ کرنے کے علاوہ ان کے پُرامن رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسماعیلی بوہرے اور میمن یہ تینوں کمیونٹیز ہندوؤں کی تجارتی برادریوں سے مسلمان ہوئےتھے۔ آج بھی یہ تینوں کمیونٹیز تجارت پیشہ ہیں اور بہت کم سرکاری یا نجی اداروں کی ملازمت میں ہیں۔ ان تینوں کمیونٹیز کا تعلق جنوبی ہند بالخصوص گجرات سے ہے اور ان کے گھروں اور عبادت گاہوں میں گجراتی زبان بولی جاتی ہے۔ایک وقت تھا جب کراچی سے گجراتی زبان کا روزانہ اخبار بھی شائع ہوتا تھا۔
بظاہر ان پُرامن اور خوشحال کمیونٹیز کا ایک تاریک پہلو بھی ہے اور وہ ہےان پر مذہبی پیشوائیت کا شکنجہ۔ کوئی نزاری اسماعیلی پرنس کریم آغاخان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کو کمیونٹی سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ چندہ(دسوندھ) ہر اسماعیلی کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ پرنس کریم آغا خان کو اسماعیلیوں کی خاندانی،معاشی اور سماجی زندگی میں حاکم مطلق کا درجہ حاصل ہے یہی حال بوہروں کےسیدنا کا ہے جو داعلی المطلق ہے اور کمیونٹی اور امام مستور کے درمیان رابطہ ہے۔ کوئی بوہری سیدنا کو چیلنج نہیں کرسکتااور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر وہ بوہری جماعت کا حصّہ نہیں رہ سکتا۔ بھارت میں 1970 کی دہائی میں بوہرہ پیشوائیت کو چیلنج کرنے کے لئے بوہر ریفارمز موومنٹ شروع ہوئی تھی جس کے اہم رہنما معروف دانشور اصغر علی انجینئر تھے۔ اصغر علی انجینئر نے چونکہ بوہرہ پیشوائیت کو چیلنج کیا تھا جس کی بنا پر ان کے والدین اور اہل خاندان نے ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا تھا اور ایک دفعہ تو بمبئی میں ان پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا تھا۔ وہ دو دفعہ پاکستان آئے تھے لیکن اس کے بعد انھوں نے پاکستان آنے کی متعدد بار کوششیں کی تھیں لیکن پاکستان کی بوہرہ کمیونٹی کے اثرو رسوخ کی بنا پر انھیں ہر دفعہ پاکستان کا ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں