20دسمبر 1971کو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ریڈیو اورٹیلی ویژن پراپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا کہ انھوں نےپاکستانی فوج کے نصف درجن سے زائد ’موٹے اور بھدے‘جرنیلوں کو ان کے عہدوں سے جبری طورپرریٹائرکر دیا ہے۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست انہی جرنیلوں کی نااہلی اوربدتدبیری کا کیا نتیجہ ہے اوران میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک بونا پارٹسٹ رججانات کے حامل ہیں۔ان ’موٹے اور بھدے‘ جرنیلوں میں میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا بھی شامل تھے۔ریٹائرمنٹ کے وقت 48سالہ جنرل مٹھا جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات تھے۔
میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا 1923میں بمبئی کے ایک خوشحال اور سیاسی اثر و رسوخ کے حامل میمن گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے دادا انگریز سرکار کے خطاب یافتہ اور بمبئی کی مشہورومعروف کاروباری اور سیاسی شخصیت تھے۔ان کے سماجی و سیاسی اثرو رسوخ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وائسرے ہند اورگورنرز ان کی دعوت قبول کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔مٹھا نے اپنا بچپن اپنے دادا کے مالا بار ہل پر واقع ’وسیع و عریض اور خوبصورت‘ گھر میں گزارا جہاں ان کے والد اپنے بڑے اورچھوٹے بھائیوں،ان کے بیوی بچوں اور غیرشادی شدہ بہنوں کے ہمراہ رہتے تھے۔ اپنی کتاب کے جس باب میں انھوں نے اپنے بچپن،ابتدائی ماہ و سال،دادا کے گھراور اس میں موجود مشترکہ خاندانی نظام اور اس کی قباحتوں،اس گھر کے باسیوں کی عادات و اطوار بالخصوص دادی کے تحکمانہ طرز عمل، اپنی والدہ اور اپنے تایاؤں اورچچاؤں کی بیویوں کی دُکھی،بیزار اور بے مقصد زندگیوں کا جو نقشہ انھوں نے کھینچا ہے وہ خوبصورت اورمتاثر کن ہے۔جنرل کی خود نوشت کا یہ باب اس قابل ہے کہ اسے سوشیالوجی کی نصابی کتب میں شامل ہونا چاہیے۔
مٹھا شروع ہی سے ’باغی‘ رحجانات کے حامل تھے۔جب انھوں نے خاندانی کاروبار کی بجائے فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو ان کے دادا کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ میمن کمیونٹی اور فوج کی ملازمت دو مختلف اور متضاد باتیں تھیں۔مٹھا نے صرف کاروبار کو بطور پیشہ اپنانے سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے تو اس لڑکی کو اپنی بیوی بنانے سے بھی انکار کردیا تھا جو اِن کے خاندان نے ان کے لئے تلاش کی تھی۔انھوں نے 19سال کی عمر میں انڈین ملٹری اکیڈیمی دہرہ دون سے کمیشن حاصل کیا اوربرما کے محاذ پر دوسری عالمی جنگ میں شرکت کی تھی۔جنرل مٹھا نے برطانوی فوج میں موجود انگریزافسروں کےنسل پرستی پر مبنی رویوں کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ ان لوگوں کے لئے یقیناً معلومات میں اضافے کا باعث ہے جنھیں انگریز وں کے بارے میں یہ حسنِ ظن ہے کہ وہ نسل پرست نہیں ہیں۔اس دور میں اگر کسی فوجی میس میں دس افسر ہوتے اوران میں انگریز افسروں کی تعداد محض دو ہوتی تو وہ دو انگریز افسر اس بات کا پورا اہتمام کرتے تھے کہ ان کا مقامی افسروں سے ربط ضبط کم سے کم ہو۔
مٹھا نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کے لئے آپشن دی تھی۔ اس ا ٓپشن کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ”پھر برصغیر تقسیم ہوگیا میرے لئے یہ ایک صدمے سے کم نہ تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔ وہ تمام مسلمان جوگورنمنٹ سروس میں تھے اور جن کے گھر اب اس خطہ زمین کا حصہ بن گئے تھے جو بھارت کہلاتی تھی ان کو یہ چوائس دی گئی تھی کہ وہ چاہیں تو پاکستان چلے جائیں اور چاہیں تو انڈیا ہی میں رہیں۔میں نے بمبئی میں اپنے گھر ٹیلی فون کیا اور ان سے پوچھا کہ ان کے آئندہ کے پلان کیا ہیں۔میرے والد نے کہا کہ وہ کراچی جائیں گے۔اس لئے میں نے بھی پاکستان کی آپشن دے دی۔دونوں حکومتوں نے بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ گورنمنٹ ملازمین کو اپنے گھروں میں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔وہ جس ملک کا بھی انتخاب کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے نادان تھے کہ یہ اعتبار کرلیا کہ ایسا ممکن ہوگا اورہمارے لیڈرز بھی کس قدر بے خبر تھے کہ باور کئے بیٹھے تھے کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی روابط اور اعتماد کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا“
پاکستان بننے کے بعد ہمارے جی ایچ کیو کی حالت کیا تھی اس کا جوحال جنرل مٹھا نے بیان کیا ہے اس کا تقابل اگر آج کے جی ایچ کیو سے کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کہاں وہ بے سروسامانی کا عالم اور کہاں یہ عیش و عشرت کے لوازمات۔مٹھا لکھتے ہیں کہ”پاکستان نے اپنا جی ایچ کیو نارتھ ویسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر میں جو کہ راولپنڈی میں تھا ‘قائم کیا۔نئے ہیڈکوارٹر میں فرنیچر کی شدید قلت تھی اور جونیئر افسروں اور کلرکوں کو لکڑی کے کھوکھوں پر بیٹھ کر انھیں بطور کرسی اور میز استعمال کرتے ہوئے فرائض منصبی ادا کرنے پڑے۔ کسی دفتر میں کوئی کاغذ نہیں تھا۔انگریز دوسری جنگ میں غسل خانوں میں جو پیپر استعمال کرتے تھے ان پر دفتری کام کرنا پڑا۔لیکن آج جب میں اپنے جی ایچ کیو کو دیکھتا ہوں دیوار سے دیوار تک قالین بچھے ہوئے ہیں، دیواروں پر چوبی کام کیا ہوا ہے۔ تما م دفتر مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ ہیں تو حیران ہوتا ہوں کہ سہل کوشی کا یہ کلچر ہمارے ہاں کہاں سے درآیا ہے، جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ کلچر عروج پر پہنچا اور تب سے اب تک اس بے جا مصرف سے دامن بچانے کی کوئی سبیل نہیں کی گئی“۔
1953-54میں لیفٹینٹ کرنل سے اوپر کے عہدوں پر فائز فوجی افسروں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پاکستان کو امریکی فوجی امداد قبول کر لینا چاہیے۔؟مٹھا نے تجویز دی تھی کہ پاکستان کو امریکی امداد قبول نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان کی اپنی اسلحہ سازی کی صنعت ترقی نہیں کر پائے گی اور ساتھ ہی پاکستان میں ’بھکاری‘ ذہنیت بھی پیدا ہوگی۔مٹھا کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور گزشتہ تقریباً چھ دہائیوں سے پاکستان امریکی امداد کا محتاج ہے اور ہمارے حکمران ہر وقت امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں۔
امریکی امداد مسترد کرنے کی جو تجویز مٹھا نے دی تھی وہ نہ مانی گئی اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے سرد جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننا قبول کرلیا۔ امریکہ کے کہنے پر فوج میں سپیشل سروس گروپ تشکیل دینے کا پروگرام بنایا گیا۔اس گروپ کے ذمہ یہ ٹاسک تھا کہ مغربی پاکستان پر روسی حملہ کی صورت میں وہ ا س کی مزاحمت کرے گا۔اس مقصد کے لئے پشاو رکے قریب چراٹ کا علاقہ مخصوص کیا گیا اور سی آئی اے سے تعلق رکھنے والے امریکی فوجی افسروں نے اس گروپ میں شامل پاکستانی افسروں اورجوانوں کو تربیت دی تھی۔جنرل مٹھا سپیشل سروس گروپ کے بانی کمانڈر مقرر ہوئے اور انھوں نے اس کے قیام اوراس کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔بعد ازاں وہ پاکستان ملٹر ی اکیڈیمی کاکول کے کمانڈنٹ مقرر ہوئے اورانھوں نے پاک آرمی کی آفیسرز کلاس کی پوری نسل کے اذہان و قلوب کو متاثر کیا۔جونیئر اور سنیئر افسروں کے مابین تعلقات کی نوعیت کا مسئلہ ہمیشہ ہی سے ایک درد سر رہا ہے۔اس موضوع پر جنرل مٹھا کے خیالات بہت غیر روایتی اور بے باک قسم کے تھے جن کا تذکرہ مختلف فکر انگیز لطائف اور واقعات کی صورت میں اس کتاب میں موجود ہے۔
جنرل مٹھا سمجھتے ہیں کہ بھٹو نے 20دسمبر 1971کی شام جن فوجی جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا ان کے نام بھٹو کو جنرل گل حسن نے دیئے تھےجوسازشی ذہن رکھتے تھے۔ان کی رائے میں ”گل کی ذہنی اور جذباتی پرورش صحیح ماحول میں نہیں ہوئی تھی“۔ان کا موقف ہے کہ یحییٰ خان کی مارشل لا انتظامیہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اوروہ کبھی ان کی ’کچن کیبنٹ‘ کے رکن نہیں تھے۔جن جرنیلوں کو بھٹو نے ریٹائر کیا ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کرزیادہ تر مکمل طور پر پیشہ ور سپاہی تھےاور ان کے کوئی سیاسی عزائم تھے۔ان کے برعکس جنرل گل حسن کے سیاسی مقاصد تھے اوراس کا احساس بھٹو کوبہت جلد ہوگیا اورانھوں نےگل کو فوج کی کمانڈ سے علیحدہ کرکے یونان میں سفیرمقرر کردیا تھا۔
جنرل مٹھا کہتے ہیں کہ جنرل گل حسن ہی تھا جس نے بریگیڈئیرضیاء الحق کو برطرفی سے بچایا تھا۔ضیاءان دنوں اردن میں تھے اوریہ 1971 کی بات ہے۔ جنرل یحیی کو عمان میں پاکستان کے فوجی اتاشی میجر جنرل نوازش کا ایک پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ بریگیڈئیر ضیاء الحق کا کورٹ مارشل کیا جائے کیونکہ وہ جی ایچ کیو کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو ا ہے۔ پیغام کے مطابق ضیاء نےاردنی توپ خانہ کی کمان کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پرگولہ باری کی جس کے نیتجے میں ہزاروں فلسطینی ہلا ک ہوگئے۔اس بد نام زمانہ واقعہ کو دنیا آپریشن بلیک ستمبر کے نام سے جانتی ہے۔جنرل گل حسن نے جنرل یحییٰ سے ضیاء کی سفارش کی اور یحییٰ نے اسے معاف کردیا۔ یہی بریگیڈئیر ضیاء الحق بعد ازاں جنرل اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر پاکستان پر گیارہ سال تک حکومت کرتے رہے۔
جنرل مٹھا نے پاکستان کی تاریخ کے بعض ’مطعون‘ کرداروں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ غیر روایتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جنرل یحییٰ کو مشرقی پاکستان کے سقوط کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ یہ جزوی طور پران معنوں میں درست ہوگا کہ وہ پاکستان کی مسند اقتدار کے بلا شرکت غیرے حکمران تھے لیکن وہ اس سانحہ کے واحد ذمہ دار نہیں تھے۔یحیی مشرقی پاکستان کے اصل پرابلم کے ذمہ دار نہ تھے اس پرابلم کا آغاز 1952 کے لسانی جھگڑوں سے شروع ہوگیا تھا۔چنانچہ یحییٰ جب مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ان کو یہ پرابلم گویا ورثے میں ملی۔جنرل مٹھا نے یحیی کے ما تحت چھ سال تک کام کیا۔ ان کی شخصیت کے بارے میں ان کے جو تاثرات ہیں وہ شائد عام طور پر لوگوں کو پسند نہ آئیں۔جنرل مٹھا کے بقول ”ان کے (جنرل یحیی خان)ماتحت کام کرنا بڑا خوشگوار تجربہ تھا۔وہ ایک ذہین شخص تھے۔جلد فیصلہ کرتے اور پھر اس پرمضبوطی سے قائم رہتے۔یحیی ایک دیانت دارشخص بھی تھے جب وہ فوت ہوئے تو ان کا ایک سادہ سا گھر راولپنڈی میں اورایک پشاور میں تھا۔راولپنڈی اور پشاور کے دونوں گھر انھوں نے سٹینڈرڈ بینک سے قرضہ لے کر بنائے تھے۔ لوگوں نے بعد میں ان کے بارے میں بہت افسانے بنائے“۔

جنرل مٹھا نے اپنی خود نوشت انگریزی میں لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ لیفٹننٹ کرنل غلام جیلا نی خان نے کیا ہے۔ترجمہ بہت رواں اور سلیس ہے اور پروف کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
دوست پبلی کیشنز اسلام آباد بمبئی سے جی۔ایچ۔کیو تک
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں