• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایس سی او کے بعد سارک کانفرنس کیوں نہیں؟-ارشد بٹ

ایس سی او کے بعد سارک کانفرنس کیوں نہیں؟-ارشد بٹ

جنوبی ایشیاءعلاقائی تعاون ایسوسی ایشن، سارک، کی بنیاد ڈھاکہ میں ۱۹۸۵ کورکھی گئی تھی۔ سارک رکن ممالک میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان شامل ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام چین کے شہر شنگھائی میں جون ۲۰۰۱ کو ہوا۔ تنظیم کے موجودہ اراکین میں چین، روس، انڈیا، پاکستان، ایران، قازقستان، کرزستان، ازبکستان، تاجکستان اور بیلاروس شامل ہیں۔ پاکستان اور انڈیا ۲۰۱۷ میں اس تنظیم کا حصہ بنے۔

سارک چارٹر پر انڈیا اور پاکستان میں ۱۹۸۵ سے اتفاق پایا جاتا ہے۔ سارک چارٹر دو طرفہ تنازعات کو الگ رکھتے ہوئے جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کے فروغ کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ حل طلب تنازع  کشمیر اپنی جگہ موجود ہونے کے باوجود انڈیا اور پاکستان سارک چارٹر پر متفق ہوئے تھے ۔ دونوں ممالک نے جنوبی ایشیاء میں اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لئے تعاون سے آگے بڑھنے کا عہد کیا تھا۔ ممبر ممالک کی حاکمیت اعلیٰ، علاقائی سالمیت، سیاسی خودمختاری، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور باہمی مفادات کے تحفظ اور احترام کے اصول سارک ممالک میں تعاون کی بنیاد ہیں۔ سارک ممالک میں جنوبی ایشیاء فری ٹریڈ ایریا، ایس اے ایف ٹی اے، سافیا   معاہدہ ۲۰۰۴ میں طے پایا۔ یہ معاہدہ ۲۰۰۴ کو اسلام آباد سارک سربراہی کانفرنس میں ہوا تھا۔ سافٹا معاہدہ کا مقصد سارک ممالک میں فری تجارت اور اقتصادی تعاون کا فروغ ہے۔

نومبر ۲۰۱۶ کو پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس انڈیا کے بائیکاٹ کی وجہ سے منعقد نہ ہو پائی۔ بائیکاٹ کی وجہ ستمبر ۲۰۱۶ کو ، اوری دہشت گردی میں پاکستان کا ملوث ہونے کا انڈین الزام تھا۔ پاکستان نے اگست ۲۰۱۹ سے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرکے مذاکرات کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اس کی وجہ ۵۔ اگست ۲۰۱۹ کو انڈین آئین میں ترمیم کرکے ریاست جموں و کشمیر کو حاصل نیم خودمختارانہ حثیت کا خاتمہ کرنا تھا۔ گزشتہ دس سالوں سے سارک سربراہی کانفرنس کے انعقاد میں تعطل، سارک چارٹر اور سافٹا معاہدہ پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کے باوجود انڈیا اور پاکستان نے ان معاہدوں کو مسترد نہیں کیا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان باہمی تنازعات ، جنگوں، جنگی ماحول اور مذاکرات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ۱۹۶۰ میں ایوب نہرو مذاکرات اور سندھ طاس معاہدہ ، ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند، ۱۹۷۱ کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ، ۱۹۸۸ میں راجیو گاندھی کی پاکستان آمد اور بے نظیر بھٹو سے مذاکرات، ۱۹۹۹ میں نواز واجپائی لاہور ڈیکلیریشن، ۲۰۰۱ اور ۲۰۰۴ کے دوران مشرف واجپائی مذاکرات ، ۲۰۰۴ ۔ ۲۰۰۸ کے دوران جامع مذاکرات، ۲۰۰۹ کا گیلانی من موہن سنگھ مشترکہ اعلامیہ ، انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی ۲۰۱۵ میں پاکستان آمداور وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات ، کے علاوہ مختلف سطحوں پر سرکاری اور غیر سرکاری رابطے اور مذاکرات کا طویل سلسلہ ہے۔

پاکستان ایک عرصہ سے انتہا پسندی، دہشت گردی اور علیحدگی پسند تحریکوں کا شکار رہا ہے۔ جس کا بڑا ذمہ دار پاکستان کے طاقتور اداروں کی پالیسیوں کو گردانا جاتا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی اور بلوچ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں کا سامناہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بڑھتے ہوئے دہشت گرد واقعات میں انڈین مداخلت کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے پشت پر انڈین ہاتھ ہونے کا برملا اعلان کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انڈیا میں دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کے ملوث ہونے کے دعوےٰ کئے جاتے ہیں۔

الزام تراشیوں کے گرداب میں پاکستان نے ۱۵۔ ۱۶ اکتوبر کو کامیابی سے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا۔ انڈیا کے وزیر خارجہ جےشنکر نے کامیاب اجلاس منعقد کرانے پر پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او کی کامیاب صدارت کے لئے بھارت نے پاکستان کی مکمل حمائت کی ہے۔ انڈین وزیر خارجہ نے سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی، کراس بارڈر دہشت گردی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کی وجہ سے تجارت اور عوامی رابطوں کا فروغ مشکل ہوجاتا ہے۔یاد رہے گزشتہ سال ایس سی او کے وزراء خارجہ کے انڈیا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شریک ہوئے تھے۔

پاکستان اور انڈیا ایک عرصہ سے ایس سی او کے سربراہی اور دیگر اجلاسوں میں شرکت اختیار کر رہے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدہ ماحول کے باوجود کسی نے ایس سی او اجلاسوں میں ایک دوسرے کی موجودگی پر اعتراض نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ کیا ایسی سیاسی رواداری اور تعاون سارک سربراہی اجلاس کے انعقاد کے لئے نہیں دکھایا جا سکتا۔ حکمران جماعت نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ روز انڈین صحافیوں سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کے امکانات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے ایس سی او اجلاس میں بیانات کو بھی خوش آئند کہا جا رہا ہے۔

انڈین زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حثیت کے خاتمے کو بنیاد بنا کرشملہ معاہدہ، لاہور ڈیکلیریشن، سارک چارٹر اور سافٹا معاہدہ کو یک جنبش قلم مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ باشعور اور سنجیدہ عناصر کو ادراک ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی دونوں ممالک کی سلامتی، علاقائی امن اور جمہوریت کے لئے بڑے خطرات بن کر ابھرے ہیں۔ دونوں جانب سے نفرت انگیز پراپیگنڈہ نے دونوں ممالک کے اندر مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندانہ سیاست کو پروان چڑھایا ہے۔

دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم اور سارک کے پلیٹ فارم اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خصوصی طور پر سارک کی سرگرمیوں کا پھر سے اجراء دونوں ممالک میں الزام تراشیوں اور کشیدہ ماحول کو بتدریج کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان اور انڈیا شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں تو سارک پلیٹ فارم پر اکٹھے بیٹھے میں کیا حرج ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تیزی سے بدلتے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہئے کہ تنازعہ کشمیر کا قابل قبول حل، کراس بارڈر دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی اور علیحدگی پسند تحریکوں سے نبرد  آزما ہونے کا واحد راستہ پُرامن مذاکرات کی  میز سے ہو کر گزرتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply