ہم روزمرہ زندگی میں کئی اقسام کے تعصبات کا ارتکاب کررہے ہوتے ہیں کبھی جان بوجھ کر تو کبھی لاعلمی میں۔ ٹی وی سکرین پر سیاسی لوگوں کا ایک دوسرے کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا، عام بول چال میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی، کاروبار میں کم کو زیادہ اور زیادہ کو کم دکھانا، خود کو تیس مار خان سمجھنا، نیز اس قسم کے کئی ایک مغالطے ہم انجانے میں روزمرہ زندگی میں سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔
فیسبکی علمی مباحث میں لوگ ایک دوسرے کو کم علم دکھا کر اپنے دلائل کو تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈننگ کروگر ایفیکٹ لوگوں کی ایسی ہی ایک توثیقی جہت کو بنیاد بناکر بتاتا ہے کہ وہ اشخاص جو عموماً اپنے دعوؤں میں بہت پراعتماد ہوتے ہیں اکثر کم صلاحیت اور کم علم ہوتے ہیں اور علم کی اسی قلت کو وہ اعتماد اور غلو سے پورا کرتے ہیں۔ اس احساس برتری کی ایک وجہ انسان کی ہر دوسرے انسان میں خامی ڈھونڈتے رہنے کی عادت ہے جسکے سبب وہ خود کو سمجھدار محسوس کرتا ہے۔
انسان کا کم صلاحیت ہونا اور کم علمی اسکو دیگر ذرائع کا سہارا لینے پر مجبور کرتی ہے مثلاً الفاظ کیساتھ کھیلنا سیکھ لیتے ہیں تو کبھی دوسروں کو کم علم دکھاکر اسکو رفع کرتے ہیں۔ اس قسم کا دماغ مختلف الانواع چیزوں سے سطحی طور پر بھرا رہتا ہے تاکہ وہ کسی دوسرے کی نظر میں اس ضمن میں مار نہ کھا سکیں۔ یہ لوگ اپنی کم صلاحیتی سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، اپنے موقف اور پوزیشن کے اثبات میں ہر ایک دلیل، ثبوت اور حقائق اکٹھے کرتے جاتے ہیں جبکہ تردید میں موجود حقائق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں کیونکہ انکو نیچا نہیں ہونا ہے لوگوں کے سامنے۔
ڈننگ کروگر ایفیکٹ کے شکار وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو بہت زیادہ باعلم اور باصلاحیت ہوتے ہیں مگر اس صلاحیت کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ سمجھ سکتے ہیں وہ دوسرے اوسط درجہ کے لوگ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اکثر معلم، مفکرین، فلاسفہ، سائنسدان وغیرہ حقائق میں یقین ظاہر نہیں کرتے اور اپنی رائے کے متبادل کو جذب کرنے کا رجحان رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ غلط ہوسکتے ہیں اور دنیا بہت بڑی ہے۔ اسی لیے اکثر باعلم اور باصلاحیت لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے جبکہ کم علم اور جاہل لوگ احساس برتری کا شکار ہوتے ہیں۔ دانا کے اقوال میں جاہلوں سے اسی غرض سے دور رہنے کو کہا گیا کہ تم ان سے جیت نہیں سکتے کیونکہ یہ الفاظ میں ماہر ہوتے ہیں۔
نفسیات کے طلبا کے مطابق یہ ایفیکٹ تقریباًہر انسان میں کسی نا کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ کچھ میں زیادہ تو کچھ میں کم اور کچھ میں اوسط۔
اسکا بہترین حل یہ ہے کہ اپنی صلاحیتیوں کا ہر وقت اندازہ لگاتے رہنا چاہیے۔ دوسروں کی رائے اور وجود کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ جذبات سے ہر ممکن حد تک پرہیز کیاجائے تاکہ دوسروں کی تنقید کو جذب کیاجاسکے۔ دوسرے لوگ ہماری ذات کا آئنہ ہوتے ہیں۔ ہم انکی آراء کا احترام کریں گے تو وہ ہماری آراء کو اہمیت دیں گے اور ہمیں مصنوعی سہاروں پر انحصار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
بشکریہ جستجو گروپ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں