قریب ایک مہینے بعد آج آرام سے ایک جگہ ٹک کے بیٹھ کے لکھ رہا ہوں۔پچھلے چند ہفتے بھاگم بھاگ گزرے ۔بھاگ دوڑ بھی ایسی کہ زندگی تین ٹائم زونز میں چل رہی تھی۔گلف میں اپنے فری لانس کے کام کو کمپنی کی شکل دے رہا ہوں۔ ہر روز پاکستان میں بیٹھے سوشل میڈیا کمپین بنانے والے ،ریسپانس ٹیم اور مارکیٹنگ والے جوانوں سے میٹنگز،سعودیہ میں بیٹھے عدیل سے ہر روز کمپنی رجسٹریشن ،لائسنس اور دفتری معاملات پہ فون کالز،اور یہاں لندن میں بنجاروں کو نئے گھر کی تلاش جیسا مرحلہ درپیش تھا۔
کمپنی کے معاملات بہت حد تک ٹریک پہ آ چکے ہیں۔سعودی عرب جیسی مارکیٹ میں اپنے نام پہ کمپنی رجسٹر کرنا آسان نہ تھا۔مگر سعودیہ ہمارے لئے ہوم گراؤنڈ ہے،ہر طرح کا ریسورس اور راہنمائی موجود تھی سو معاملات بڑی حد تک آسان رہے۔
لندن میں گھر تبدیل کرنا سعودی عرب میں کمپنی شروع کرنے سے مشکل تھا۔ہر روز درجنوں فون کالز،مکان مالکان کے نخرے،سو طرح کے پیپر ورک اور ہزار طرح کے سر درد تھے۔خدا خدا کر کے گھر تبدیل ہوا تو اگلہ مرحلہ سرکاری کاغذات اور بینک وغیرہ میں اپنے گھر کا پتہ تبدیل کرنے کا مرحلہ تھا۔بینک کی ویب سائیٹ یا ایپ سے یہ کام انتہائی آسانی سے دو منٹ میں ہوجاتا ہے مگر جہاں سرکاری کام آیا وہاں عشروں پرانا نظام دیوار کی طرح سامنے کھڑا ہوتا ہے۔
ڈرائیونگ لائسنس پہ گھر کا پتہ تبدیل کرنا تھا۔آن لائن سرچ کیا تو بڑی خوشی ہوئی کہ چلو یہ شاید واحد سرکاری کام ہو جو آئن لائن بغیر خط و کتابت کے ہوجائے گا،مگر میری حیرت تب اوازاری میں بدلی جب آن لائن ایپلیکیشن کے بعد مجھے سرکاری ای میل آئی کہ آپ کو ایک خط بھیجیں گے،اس کو پُر کر کے ہمیں واپس بھیجیں پھر آپکا ایڈریس تبدیل کر کے نیا لائسنس بھیج دیں گے۔چار دن کے بعد میرے نام پہ ایک پتر آیا،جس میں ایک عدد درخواست تھی جس پہ محض میرا نام،دستخط اور ایڈریس چاہیے تھا۔وہ لکھ کے واپس بھیجنا تھا۔یہ وہی معلومات ہیں جن کی بنیاد پہ وہ خط مجھے وصول ہوا ہے،یعنی میرا نام،اور میرے گھر کا پتہ۔
آج مجھے وہ خط واپس بھیجے قریب بارہ دن گزر چکے ہیں تاحال میرا نیا لائسنس میرے گھر نہیں پہنچ سکا۔اس کے برعکس گلف ممالک میں یہی کام اتنی آسانی اور رفتار کے ساتھ ہوتے ہیں کہ پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ والے بیچارے توچھوڑیں ولائت جیسے صف اول کے ممالک کے رہائشی بھی رشک کرتے ہیں۔سعودی عرب میں جس دن ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کیا تھا اس کے بیس منٹ بعد میرے موبائل پہ میرا لائسنس موجود تھا جو تمام سرکاری اور غیرسرکاری دفاتر میں قابل قبول ہے اور اگلے ایک گھنٹے میں مجھے کارڈ کی صورت میں لائسنس مل گیا تھا۔
اسی طرح دوبئی اور امارات میں یہی رفتار ہے۔آپ ٹیسٹ پاس کرکے ایک مشین پہ جاتے ہیں،وہاں اپنا آئی ڈی دیتے ہیں اور وہ مشین آپکو لائسنس پرنٹ کرکے دے دیتی ہے۔
اسی طرح آپ کو بینک کارڈز کے لیے آپکو لو لیٹر نہیں بھیجے جاتے بلکہ آپ برانچ جاکے اے ٹی ایم مشین سے اپنا کارڈ پرنٹ کرسکتے ہیں۔میڈیکل ایمرجنسی چھوڑیں نارمل چیک اپ کے لیے دس منٹ میں آپکی مرضی کا ڈاکٹر آپکا چیک اپ کرتا ہے اور یہاں اکیس اپریل کو میرا ایک ٹیسٹ ہوا تھا جس کی رپورٹ کے بعد آج تک میں ڈاکٹر کے اس خط کا انتظار کررہا ہوں جس میں مجھے اس کی کلینک کا بلاوا آنا ہے۔
اب اس سے آگے لکھا تو پرانے ولائتی دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔بعض تو واپس جانے کے طعنوں پہ اتر آتے ہیں۔مگر اس وقت ولائت کی حالت اس شیر جیسی ہے جس نے اپنی شاندار جوانی میں بڑے شکار کیے ہیں مگر اب محض اسکی تصویر اور اسکا تصور ہی اسکی کُل وقعت ہیں،اسکا کُل سرمایہ ہیں۔
ولائت اور گلف کا کمپیریژن کرتے کبھی اپنے گھر پہ ترس آتا ہے جس کا ساری کہانی میں ہم ذکر تک نہیں کرسکتے۔گلف بھی شاندار ہے اور ولائت بھی اچھا ہے بس ایک ہم ہیں جو کسی گنتی میں نہیں آتے۔جو آج بھی اپنے گھر کسی آس کے سہارے،کسی جھوٹے بیانیے کے پیچھے،کسی سچی جھوٹی امید پہ بیٹھے ہیں اب وہ بھی قابل رحم ہیں۔اگر آپکے پاؤں میں کوئی بیڑی نہیں،کوئی مجبوری آپکوباندھے نہیں تو گھر چھوڑیے۔ولائت آ سکتے ہیں؟آ جائیے،بہت خوبصورت،بہت شاندار جگہ ہے۔گلف پہنچ سکتے ہیں؟پہنچیے،بے پناہ بے شمار مواقع ہیں۔ہمت باندھیے اور رختِ سفر بھی۔ہمارے گھر کی چار دیواری کے باہر دنیا خوبصورت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں