اسلام میں کتنی سختی ہے؟-ابو بکر قدوسی

“”یار اسلام میں اتنی بھی سختی نہیں”۔۔یہ جملہ کہتے ہیں اور ہم بہت سے حرام امور کو حلال کر لیتے ہیں ۔ بدقسمتی سے اس جملے کے مطابق ماحول بنانے والے کچھ ضرورت سے زیادہ وسیع القلب علما بھی قوم کو میسر آ جاتے ہیں ، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی اصل روح ہی مسخ ہو جاتی ہے ۔ اگلے روز ایک خاتون کے بارے میں ایک خبر تھی جس میں وہ لے پالک بیٹے کے ساتھ اسی محبت سے لگی بیٹھی تھیں کہ جیسے مائیں بیٹے کے ساتھ جڑ کے بیٹھتی ہیں کہ بیٹے ماؤں کا مان ہوتے ہیں۔

اس تصویر پر دو طرح کے رد عمل تھے اور دونوں ہی گمراہ کن تھے ۔ وہ بچہ ماشاءاللہ انیس برس کا جوان ہے ۔ خاتون نے ماں اور باپ بن کر اس کو پالا ۔ اور یقیناً کہا جا سکتا ہے کہ اس کو ماں کا پورا پیار دیا ۔ عورت کے اندر ایک خاص طرح کی ممتا ہر وقت جیسے “انسٹال” ہوئی ہوتی ہے ۔ وہ بچہ یقیناً اس خاتون کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا لیکن جو اللہ رب العزت کی انسٹال کردہ ممتا ہے اس نے اس کو ماں ہی بنا دیا ہوگا ۔

لیکن شریعت محمدی کے اصول اور ضوابط قیامت تک کے لیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ معاشرے کے ہر ہر فرد کے لیے مقرر ہو چکے ہیں ۔ پچھلے ڈیڑھ ہزار سال میں لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں مسلمان دنیا میں آئے اور آ کر جا چکے اور اس وقت بھی اربوں کی تعداد میں موجود ہیں اور قیامت تک اربوں انسان آئیں گے ،اور یہ اصول کسی ایک فرد کے لیے بدلے نہیں جا سکتے اور نہ کسی ایک فرد کے لیے مقرر ہوئے ۔

محرم اور نامحرم رشتے قرآن میں طے کر دیے گئے اور خود رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رشتوں کی مزید تشریح کر دی ۔یوں وہ قیامت تک ایک اٹل قانون بن گئے اب اس میں تبدیلی کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی صاحب شریعت نبی آئے اور وہ صورت ختم ہو چکی کہ روز قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آئے گا کہ جو شریعت لے کے آئے اور کسی قانون میں تبدیلی کرے ۔ ان رشتوں کے حوالے سے فرمان باری تعالی ہے:

﴿ما جَعَلَ اللَّهُ لِرَ‌جُلٍ مِن قَلبَينِ فى جَوفِهِ ۚ وَما جَعَلَ أَزو‌ٰجَكُمُ الّـٰـٔى تُظـٰهِر‌ونَ مِنهُنَّ أُمَّهـٰتِكُم ۚ وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ٥﴾…. سورة الاحزاب
اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے اور وه سیدھی راه سجھاتا ہے ،لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہﷺ نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمدﷺ کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیت ﴿ادعوهُم لِاٰبائِهِم﴾ نازل ہوگئی ۔ صحیح بخاری تفسیر سورۃ الاحزاب
یعنی اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اصحابِ رسول نے سیدنا زید کو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے پکارنا چھوڑ دیا ۔۔ اب وہ زید بن حارثہ تھے ۔

یوں منہ بولے بیٹے ، لے پالک بیٹے ، منہ بولے بھائی بہن ان تمام رشتوں کے بارے میں قرآن کریم میں واضح فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ ان کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ۔ اب یہاں حیثیت سے مراد یہ ہے کہ یہ حلال اور حرام کے ان اصولوں پر پورے نہیں اترتے جو حرمت والے رشتوں کے سبب مقرر ہو چکے ہیں ، اسی طرح وراثت کے احکام بھی ان پر لاگو نہ ہوں گے ۔

یہ نہیں کہ ان رشتوں کی اتنی بھی اہمیت نہیں کہ جس بچے کو برسہابرس خون جگر دے کے پالا ،اب اس کے پاؤں میں چوٹ لگے تو منہ بولی ماں کو کوئی دکھ نہیں ہوگا ۔جذبات میں عین ممکن ہے وہ پیٹ سے جنے بچے سے بھی زیادہ حساس اور نازک ہو جائے ۔

سو اس کا انسانی پہلو بالکل مد نظر رکھا جائے گا لیکن جو شریعت کا اصول ہے وہ کسی خاص فرد کے جذبات ، محبت ، اور طویل تپسیا کی بنیاد پر بدلا نہیں جا سکتا ۔بد قسمتی یہ ہے کہ یہ کہہ کر کہ
“جی اسلام میں اتنی بھی سختی نہیں”
ہم “حلال کو حرام” اور “حرام کو حلال” بنا لیتے ہیں ، جبکہ میں نے عرض کیا کہ یہ اختیار صرف صاحب شریعت نبی کا ہے کہ وہ وحی کی روشنی میں ہمیں بتائیں کہ یہ جو حلال تھا اب حرام ہو چکا ہے ، جو حرام تھا اب حلال ہو چکا ہے۔

اب جب رشتہ محرم نہیں رہا تو اس پر وہ تمام اصول اور ضوابط لاگو ہوں گے جو ایک اجنبی مرد کے اجنبی عورت بارے اسلام نے طے کر دیے ۔۔
جب کہتے ہیں کہ
“یار مولویوں نے بلا وجہ سختی کی ہوئی ہے”
تو آپ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ اصول مولوی نے طے نہیں کیے ، قرآن میں اگر ایک آیت موجود ہے اور اپنی پسند کا کوئی ترجمہ اٹھا کے دیکھ لیجئے اور اس کو خود بھی سمجھ لیجئے۔ پھر اس کے بعد اگر آپ مولوی کے پیچھے چھپ کر اس کا انکار کریں گے تو واضح طور پر احکامات شریعت سے انکار والی بات ہوگی ۔کسی کے دل کے نازک جذبات کے تحت اصول بدلے نہیں جائیں گا ۔

بلا شبہ جذبات بسا اوقات انسان کو بہت مجبور کر دیتے ہیں ۔ کیا آپ نے کبھی عدالتوں میں ایسے نوجوان خوبصورت قاتل نہیں دیکھے کہ جنہوں نے ایک کمزور لمحے میں خطا کی اور دوسرے کی جان لی ۔جب عدالت ایسے سونے ہیرے جیسے گھبرو جوان کو سزائے موت سناتی ہے تو وہاں موجود ہر ہر دل جیسے مٹھی میں جکڑا جاتا ہے ۔ اجنبی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں ۔ انسانی جذبات غالب آ جاتے ہیں اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مجرم ایک دوسرے انسان کی ناحق جان لے چکا تھا ۔

یہ مثال صرف اس لیے دی ہے کہ آپ کو انسان کے جذبات ، حساسیت اور مہربان گھٹاؤں کی طرح امڈتی ہمدردی کے ایک کرشمے کی طرف توجہ  دلائی جا سکے کہ جس کے سبب ایک
متوازن سوچ و فکر رکھنے والا انسان بھی ایک سفاک۔۔قاتل کے لیے بھی بسا اوقات بہت ہمدرد ہو جاتا ہے۔

یہاں تو دو دو عشرے کی ممتا ایک طرف کھڑی ہوتی ہے لیکن جو اصول شریعت نے طے کر دیا وہ یہی ہے کہ ایسے رشتے اجنبی ہوتے ہیں ۔ جہاں نکاح کا امکان موجود ہوتا ہے وہاں پر رشتے کی حرمت اور حلت کو محض اوپر بیان کردہ جذباتی کیفیت اور ڈائیلاگ کے تحت بدلا نہیں جا سکتا ۔

یہاں پر اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے اور وہ ہے رضاعی ماں کی حیثیت۔اس رشتے میں حرمت کے وہ تمام حقوق و فرائض بحال ہو جاتے ہیں جو پیٹ سے پیدا ہوئے بیٹے کے لیے ہوتے ہیں ۔رضاعی ماں اس کو کہتے ہیں کہ بچہ جس کا دودھ مقررہ مقدار میں پی لے لیکن اس کے پیٹ سے پیدا نہ ہوا ہو ۔ یہ بچہ نہ تو لے پالک ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو منہ بولا بیٹا کہا جاتا ہے ، بلکہ اس کے حرمت ، پردے والے حقوق اور رشتے تقریباً وہی ہوتے ہیں

ایک دوسرا پہلو جو میں نے ذکر کیا تھا وہ ہمارے معاشرے کا ایک تاریک اور رذیل پہلو ہے ۔وہ یہ تھا کہ بھلے یہ رشتہ حرمت کا ہے اور وہ نوجوان اب اس منہ بولی ماں کے لیے اجنبی ہے اور شریعت جو اجنبیت کی دیواریں ایک اجنبی مرد اور عورت کے درمیان قائم کرتی ہے وہ میرے اور آپ کے جذبات سے بدل نہیں سکتی ، لیکن اس کے باوجود اس طرح کے منہ بولے ماں بیٹے کی تصویر پر گھٹیا کمنٹس کرنا ، اس کے بارے میں بد زبانی کرنا ،ٹھٹھا اڑانا ایک خبیثانہ حرکت ہے جو میں پڑھ کے افسوس کر رہا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیوں کہ اگر وہاں ایک شرعی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو یہاں پر ” اسی اصول کی محبت” میں دوسرا جرم نہیں کیا جا سکتا اور وہ جرم یہ ہے کہ ایک شریف انسان ( چاہے خود ساختہ رشتے کی بنیاد پر لیکن ماں بیٹے کا انہوں نے بنا لیا ) بارے میں کوئی گھٹیا کمنٹس اور ریمارکس پاس کریں۔ یقیناً روز قیامت ایسے کمنٹس کرنے والے بھی اللہ کے ہاں مجرم ہوں گے کہ اگر توبہ نہ کریں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply