بازاری عورت/راؤ کامران علی

“اگر ایک عورت کو کوئی سنگل مرد نہیں مل رہا تو دو آپشن ہیں؛ یا تو شادی شدہ سے شادی کرلو یا بازاری بن جاؤ”

یہ جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نئے اقوال زریں سنے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ یہ ویڈیو کئی خواتین نے میسیج میں بھیجی ہے، جو پلوشہ کے سوال اور اسکو ملی دھمکیوں کے بعد خود ایسے سوالات کرنے سے گریز کررہی ہیں۔

ذاکر نائیک کو چھوڑیں؛ آپ ہی کمنٹس میں بتا دیں کہ کون کون گھر جاکر یہ بات بن بیاہی بہن یا بیٹی کو بتانے کا ارادہ رکھتا ہے؟

ابھی آپ سوچیں کہ یہ سطحی سوچ اور عقل ایک انڈین مسلم اسکالر کی ہے؛ کبھی عام انڈین مسلمان سے بات کرکے دیکھیں ؛ وہ پاکستانی مسلمان سے کم از کم پچیس سال پیچھے ہے۔

یہ جو آپ انڈین فلموں میں اکشے کمار یا منوج باجپائی؛ “حضور”، “جناب”، “اسلم میاں”، “سروری بیگم”، “آداب” دیکھتے ہیں یہ وہاں کے لوگوں کو کاپی کرکے ڈائریکٹر ڈائریکٹ کرتا ہے۔

اسی لئے پاکستان سو مسائل کے باوجود ہمارا آزاد ملک ہے اور ہماری جنت ہے۔ تین دہائی سے انڈیا کو متاثر کرتا “اسکالر” ہمارے پاس تین دن نہ چل سکا؛ فرق ہے سوچ کا اور اپروچ کا۔

عملی طور پر پاکستان میں دوسری شادی صرف لطیفوں کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم سب کے نانا دادا میں سے بہت سوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں؛ آج شاید پورے شہر میں پانچ سات لوگوں سے زیادہ ایسے نہیں ہوں گے۔ بہت سی خواتین خود مختار زندگی گزار رہی ہیں اور محنت سے عزت کی روٹی کھا رہی ہیں؛ بازاری شاید انڈیا میں ہوں کیونکہ وہاں آج بھی جاہل مسلمان اپنی بیٹیوں کو اس قابل ہی نہیں بناتے کہ وہ خود مختار بن سکیں تو یا تو سوکن کے ٹکڑوں پر پلیں گی یا گاہکوں کے (بقول ذاکر نائیک)۔

جناب ذاکر نائیک صاحب؛ راقم زندگی کی چار دہائیاں دیکھ چکا ہے؛ چنگ چی چلانے والے بچپن کے دوستوں سے لیکر ڈالروں میں ارب پتی دوست ہیں۔ آج تک کسی ایسے غریب سے غریب باپ کو بھی پاکستان میں نہیں دیکھا جو اپنی بیٹی کو اچھے سے اچھا پڑھانا نہیں چاہتا۔نصیب کوئی اپنے ہاتھ سے نہیں لکھ سکتا لیکن کوشش ضرور کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بیواؤں اور مطلقوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ان دوسری شادی کرنے والے مردوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو نکاح ماں سے کر رہے ہوتے ہین اور نگاہ سوتیلی بیٹی پر ہوتی ہے؟ اور اگر دوسری بیوی بننے کے بعد شوہر فوت ہوجائے تو کیا دونوں کوئی اور بندہ ڈھونڈیں اور اسکی تین بیویاں بن جائیں یا “بازاری” بن جائیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

اسی لئے عابد اور عالم کسی کام کے نہیں اگر عقل اور منطق نہ ہو۔ ایسے ہی جیسے کئی میڈیکل اسٹوڈنٹ طوطے کی طرح پوری سرجری کی کتاب سنا دیں اور آپریشن تھیٹر میں ٹانگیں کانپیں۔ ذاکر نائیک صاحب کو ہزار کلو گرام سامان سے جان چھڑا کر چند گرام عقل ڈاؤن لوڈ کروانے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply