مری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا?
اُردو شاعری میں جعفر ؔزٹلی سے شروع ہونے والا مزاحمتی سلسلہ کئی ادوار کا سفر طے کر کے مرزا غالبؔ تک پہنچا۔ غالب ؔ نے رہی سہی کسر نکال دی،غالبؔ کے بعد جونؔ ایلیا کی باری آتی ہے جس نے اُردو غزل کو سراپا مزاحمت کا استعارہ بنا ڈالا۔ جون ؔایلیا کے ہاں کوئی ایسا موضوع چُھوٹ نہیں گیا جس پر جونؔ نے اپنی رائے کا اظہار نہ کیا ہو۔ جون ؔایلیا کوپڑھنے سےمعلوم ہوا کہ ان کے ہاں غضب کا غصہ بھرا ہوا ہے جو سماج اور معاشرت کی بنیاد کو دھڑام سے گِرانے پر تُلا ہوا ہے۔
جونؔ ایلیا کا مسئلہ کیا ہے؟ جون ؔاتنے غصے میں کیوں ہیں؟ جون ؔخون تھوکنے کے عادی تو ہیں تاہم خون کرنے کے درپے بھی معلوم ہوتے ہیں۔ جون ؔکے ہاں سفاکیت شعروں میں ڈھلی ہے جو خود کو تیز دھار آلہ سے چیر ڈالنے کی وحشت میں مبتلا ہے۔ جونؔ کوخود پر رحم نہیں آتا ، اپنی جان لینے پر تیار بیٹھے رہتے ہیں۔
جون لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
جون ؔکی غزل کا سانچہ عجیب و غریب عناصرِ تفکر سے معمور ہے۔ ان کے ہاں علمیت کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے، ان کی اُستادی کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے، ان کے علم و فکر و تدبر سے کون واقف نہیں ہے۔ کون سا ایسا رائج علم تھا جس پر جون ؔکی گرفت نہ تھی، کون سی ایسی کیفیت و اذیت تھی جس کے بارے میں جون ؔنے قلم فرسائی نہ کی ہو۔
ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے
جون ؔنے زندگی کو جس طرح مزے لے لے کر ، کراہتے ،سسکتے، بلکتے ہوئے گزارا ہے یہ صرف جوؔن ہی کا خاصہ ہے۔ جون ؔنے پاکستانی معاشرت کو ننگا کر کے دکھایا ہے، جون ؔنے اخلاقی اقدار کی سرانڈ کو مصرعوں میں اُچھالا ہے۔ جونؔ نے سماجی تنزل کو صدیوں پرانی تعبیر سے منسوب کیا ہے۔ مختصر یہ کہ جون ؔکو پڑھنا اور ہضم کرناآسان نہیں ہے۔
جونؔ کا غصہ بجا ہے، جون ؔنے اپنے طریقے سے اپنی نبھی محبت کے سلیقے کو اپنی انا کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ جونؔ اور میری کہانی ایک سی ہے ، جونؔ بھی خانگی معاملات میں بُری طر ح ناکام رہا اور میں بھی پوری طرح برباد ہو چکا۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
جونؔ نے اپنےزخموں کو چھیل چھیل کر زخمایا ہے ، یہ دوا بھی چاہتا ہے اور آرام کا خواہش مند بھی نہیں ہے، یہ زمین کا بوجھ اُٹھانا چاہتا ہے اور لاشوں کو پڑے رہنے کا درس بھی دیتا ہے۔ محبت،ایفا،اخلاص ایسے لفظوں کے پیچھے بھاگتا ہے اور خاموشی سے رسمِ دوری ادا کرنے کی باتیں بھی کرتا ہے۔ شراب پیتا ہے اور نشے میں دُھت رہنے کے باوجود سراپا ہوش مندی کا راپ الاگتا ہے۔ یہ عجیب غریب جون ؔآخر اپنے آپ سے چاہتا کیا تھا ؟
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
جونؔ نے خود کو تباہ کر کے ملال نہ ہونے کا دعویٰ کیوں کیا؟جون ؔنے اپنے حق میں نہ بولنے والے کی زبان پر چھالے پڑنے کی بددُعا کیوں دی ؟جونؔ نے آسمان میں کسی کے دکھائی نہ دینے کا مذاق کیوں اُڑایا؟ فرقت میں وصال کے مزے کی خواہش کرنے والا محبت میں جی نہ لگنے کا ماتم کیوں منا رہا ہے؟اس قبیل کے سیکڑوں سوالا ت جون ؔ نے غزل میں جا بجا کیے گئے ہیں جن کے ہنوز جوابات نہیں مل سکے۔
کیا آپ جون ایلیا کو صحیح معنوں میں جانتے ہیں؟ کیا آپ جو ن کو اس کی غزل میں تلاش کرنے کے خواہاں ہیں؟ آئیے ہم آپ کو جون کی لااُبالی طبیعت کی جولانی کی سیر کرواتے ہیں:
٭جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
٭یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
٭ساری دُنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں
٭کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے
٭کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
میں جس جون کو جانتا ہوں وہ بہت معصوم،بھولا بھالا اور دل کا متوالا تھا۔ اس نے ہوش سنبھالا تو کتابوں کو گود میں دھرا پا یا، اسے علم و ہنر و فن کی لوری سُنائی گئی، اس کی تربیت ناز و نعم سے ہوئی ،بچپن،لڑکپن اور جوانی کا زمانہ عیش پرستانہ ماحول میں گزرانے والا جون ؔاپنے ہی وطن سے ہمیشہ کے لیے جُدا کر دیا گیا کہ پھر امروہہ کی یادیں دل کو چھلنی کرتی رہیں لیکن امروہہ کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
جس عورت کو شریکِ حیات بنایا وہ اپنے اُصولوں پر جونؔ کو قربان کر کے آگے بڑھ گئی،جس جس دوست کو اپنا دلدار بنایا وہ بھی شہرت کا بچاری نکلا، جنھیں دُشمن جانا،وہ دوست بن گئے اور جو دوست ٹھہرے وہ دغا دیتے رہے۔ جونؔ کی کسی سے بھی نہ نبھی جس طرح وہ نبھاہنا چاہتے تھے ، زندگی ان سے روٹھی رہی اور وہ زندگی سے نالہ رہے۔
٭کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے واسطہ کوئی
تُو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
٭علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سُنی میں نے
٭ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو
٭اور تو کیا تھا بیچنے کے لیے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
٭کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہیں ہم اُس سے جلتے ہیں
جون ؔکے ہاں انانیت، غصیلا لب و لہجہ اور بیزاری کا عنصر کہاں سے آیا؟ جون ؔنے ایسے کون سے خواب دیکھے تھے جن کی تعبیر ممکن نہ ہوسکی۔ جون ؔنے پاکستانی معاشرت کی مثبت اقدار کو تنزل کی کھائی میں گرتے دیکھا تو کیوں ہوش گنوا بیٹھے۔ رشتوں کو سنبھالنے والا شخص رشتوں سے بیزار کیوں ہو گیا ۔کتنے ہی سوالا ت ہیں جن سے جون ؔکی شاعری مقیش ہے۔
جونؔ نے اُردو غزل کو سراپا احتجاج بنا ڈالا ہے، جون ؔکے ہاں ہمیں بیزاری اور اُکتاہٹ فقط تخلیلی اور مشاہداتی دکھائی نہیں دیتی بلکہ یہ تجربے سے گزاری ہوئی تکلیف کا ایک انبوہ ہے جو اپنے ساتھ مصائب و آلام کا دریا بہائے لیے جاتا ہے، اس کی رفتار کے آگے ہر مصلحت اور حکمت سر نگوں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
جون ؔایلیا نے زندگی کو محبت کے نظریے سے دیکھا مگر زندگی نے اسے نفرت کے سِوا کچھ نہ دیا۔ جونؔ پکار پکار کر جب تھک گئے تو شکست سے نڈھال ہو کر اپنے آپ کو تباہ کر کے دُنیا کی رنگینوں اور رعنائیوں سے بے نیاز ہو گئے ۔ یہ تباہی فقط جونؔ ایلیا کی نہیں ہے بلکہ اس شکستگی میں برصغیر کی صدیوں پرانی رہتل بہتل کا فلسفہ بھی مسمار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
٭اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
٭اک عجب حال ہے کہ اُس کو
یاد کرنا بھی بے وفائی ہے
٭نہیں دُنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دُنیا کی پروا کیوں کریں ہم
٭آج مجھ کو بہت بُرا کہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
جون ؔایلیا کی شاعری میں سو کالڈ مذہب معاشرے کو بت میزی ،جہالت ،لا اُبالی پن کی بے ہودگی دکھائی دیتی ہے۔ مذہبی اقدار کا رونا رونے والے گرانڈیل توند کے مالکوں کو آسمانوں میں حوریں دکھائی دیتی ہیں جبکہ جوؔن کو آسمان سے مصائب کی نزولی دھاڑتی محسوس ہوتی رہی ۔ جون ؔنے جو بھی کہا ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ جونؔ پر ہر قسم کا فتویٰ لگا لیجیے، اسے بیکار اور لایعنی شاعر قرار دے لیجیے،عجیب و غریب حرکات کے پیش ِ نظر اس کی کردار کُشی اور قبیح افعال سے معمور زندگی کو پاگل پن قرار دے لیجیے، جون ؔ کہیں جانے والے نہیں ہیں،جون ؔ کا شاعرانہ قد کاٹھ اتنا بلند ہے کہ جون ؔکے تفکر و تدبر سے معمور دیوان کو آسانی سے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انَا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
جونؔ کا غصہ بالکل ٹھیک اور مبنی بر حقیقت ہے،جونؔ نے جو کہنا تھا، کہہ دیا، وقت آئے گا اور یہ ثابت کرے گا کہ جونؔ ایلیا واقعی جناب جون ؔایلیا ہیں جو اپنی ہٹ کے پکے اور اپنی ڈگر کے سچے شاعر ہیں۔
میں جو ہوں جونؔ ایلیا ہوں جناب
اِس کا بے حد لحاظ کیجیے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں