سانوں چُپ لگ گئی/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مٹی کی کشش کسے کہتے ہیں، اس سوال کا جواب خالصتا” انفرادی نوعیت کا ہو سکتا ہے تاہم ایک عمومی وصف ناسٹلجیا ہو سکتا ہے، ایسی یادیں جو محض یادیں رہ گئی ہوں اور ان کا عملی وجود مفقود ہو۔ مثال کے طور پر بستی کے گھر کی وہ کچی دیوار جس کی جگہ اب سیمنٹ کی دیوار سے چنی بالائی شش دری ہو۔

کچی دیوار کے اس طرف کھیت کے دوسرے سرے پر کسی اور بستی سے ملانے والی گرد بھری کچی سڑک پر رات کے کسی پہر اونٹوں کے قافلے میں شامل اونٹوں کے گلوں میں بندھی گھنٹیوں کی چاندنی میں شگاف کرتی ہوئی آواز، پھر کسی ساربان کے دانتوں میں دبے ایک تار والے چھوٹے سے ساز پر اس کی نہ دکھائی دینے والی انگلیوں کی مہارت کے سبب اٹھنے والی مدھر چھنچناتی موسیقی۔ ان سب کا اب کوئی وجود نہیں تاہم یہ مغز کے نہاں خانے میں رچی ہوئی ہیں۔

لوگوں میں  جن اوصاف کا ہونا ہمیں یاد ہے وہ اوصاف زندگی بتانے کی کشمکش، ضروریات کی تکمیل کی خاطر بے ہنگم تگ و دو، صارفین کے سماج کے فروغ کے سبب رویوں میں جگہ پالینے والی تبدیلیوں کے سبب معدوم ہو چکے ہیں۔ وہ سارے اوصاف سہل زمیندارانہ سماج کے رہین منت تھے جنہیں ڈیجیٹل طرز حیات نگل چکی ہے۔ ان اوصاف کا لاکھ ذکر خیر ہو مگر وہ لوٹنے والے نہیں۔ پہلے سبھی سبھوں سے ملنے کو لازم سمجھتے تھے اب مصروفیات اتنی زیادہ اور متنوع ہیں کہ وقت طے کیے بغیر کسی سے ملنے چلے جانا دونوں کو نہ سہی تو ایک کو ضرور بوکھلا دیتا ہے۔ یہ موبائل فون یونہی تو ایجاد کرکے رائج نہیں کیے گئے۔

اب ایسے لگتا ہے جیسے ستمبر اتنا گرم نہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ ایر کنڈیشنر عام ہو چکے ہیں۔ بجلی نہیں جاتی تھی کیونکہ اتنے برقی گیجٹس نہیں ہوتے تھے۔ عمر کچھ اور تھی چنانچہ کسی پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا جتنا آج ایک غیر مناسب ذاتی ذریعہ سفر میں اذیت دہ بن سکتا ہو۔

سہولتوں کے عادی نہیں تھے چنانچہ سہل پسند بھی نہیں تھے۔

میں چونکہ 25 برس میں شاید پہلی یا دوسری بار آتی یا جاتی گرمیوں میں وطن مالوف کو لوٹا ہوں اس لیے یہ سب جو کہا گیا کچھ زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ چاہے میں ہر برس آتا رہا ہوں لیکن رفاقت کا تسلسل مسلسل نہیں ہے اس لیے خواہش ملاقات میں نہ وہ گہرائی ہے نہ گیرائی۔ یہ شکایت نہیں ایک حقیقت ہے۔ اب لوگوں کے ساتھ تعلق تحریر کے توسط سے ہے یا کبھی کبھار فون کے ذریعے۔ اتنے عرصے میں سبھوں کی زندگیاں یکسر نہیں تو خاصی حد تک مختلف ہو چکی ہیں جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں، جیسا میں ہوں ویسے ہی سب ہوں گے۔

میں جیسے گیا تھا ویسے ہی منجمد ہو چکا ہوں۔ دیار غیر میرا کچھ نہیں بگاڑ پایا ہے۔ مجھ میں شناسا احباب سے ملاقات سے متعلق وہی گرمجوشی باقی ہے جو وطن مالوف میں پہنچتے ہی دوچند ہو جاتی ہے۔ دوسری جوانب سے وہی والہانہ پن نہ ہونے کا مجھے قلق ہوتا ہے۔ میں کتنا خود غرض ہوں کہ یہاں کے عذاب نہیں سمجھتا۔ سمجھوں بھی تو کیسے؟ عزیزی شوذب چودھری نے کہا ” نہیں انکل ٹائر ابھی تبدیل نہیں کیے کیونکہ چار ٹائر چالیس ہزار روپوں کے آتے ہیں” میں اچھل پڑا کیونکہ میں سمجھتا تھا یہ پاکستان ہے جہاں ٹائر چار نہیں تو دس ہزار روپوں کے آ جاتے ہونگے۔

پرانے یار گلّو (بدماش) نے کہا، ” منّے، مہنگائی اتنی ہے کہ الاماں، آڑو دو سو روپے کلو ملتے ہیں” میں ہنس پڑا کہ آڑو کی قیمت سے مہنگائی ماپ رہا پے مگر بعد میں خیال آیا کہ وہ بیچارہ ذیابیطس کی وجہ سے آڑو ہی کھا سکتا ہے، پھر اب وہ گلو نہیں، پی ٹی وی کے پروڈیوسر بیٹے کا باپ غلام محمد خان ہے جو معززین کے علاقے میں تعمیر کردہ ایک عالیشان کوٹھی میں رہتا ہے۔

ملک لوٹنے کا ہر بار سوچا پر ہر بار آ کر لوٹ گیا۔ اس بار کچھ زیادہ ہی عزم کے ساتھ پروگرام باندھا۔ واپسی کا ٹکٹ مہینوں بعد کا لیا۔ میری روسی اہلیہ نے جب سنا تو ہنس دی۔ پوچھا ہنستی کیوں ہو تو بولی اس لیے کہ تم نئے سال سے پہلے لوٹ آؤ گے۔ وہ مجھ سے زیادہ زمانے کے حقائق کو سمجھتی ہوگی، بہر حال میں ڈٹ گیا کہ نہیں اس بار نئے سال کے بعد تم پاکستان آؤ گی۔

پاکستان میں میری مصروفیت کے ایسے کیا امکانات ہو سکتے ہیں جو وسائل کی فراہمی میں بھی ممد ہوں، فی الحال کچھ معلوم نہیں۔ تاہم امکانات ذہن میں ضرور ہیں جن پر غور کر رہا ہوں البتہ فی الحال گرمی ہے کہ کچھ کرنے کے لیے حرکت کرنے کی ہمت سلب کیے ہوئے ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو بدلا جائے مگر نمک کی کان میں نمک ہو جانے سے ڈر لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا خواب ہے کہ پاکستان کے قصبوں کو صاف شفاف اور بے بو کیے جانے کی مہم کی ابتدا کی جائے مگر کیا کیا جائے لوگ انقلاب سے کم پر مانتے ہی نہیں چاہے ان کی زندگیاں بیت جائیں یا پھر ان کی اپنی زندگیاں مثبت طور پر منقلب ہو جائیں۔ مٹی کو بولنا سکھانے کے خواہش مند بقول طاہر یعسوب شاہ کے چپ ہو جایا کرتے ہیں۔ ویسے سودا یہ بھی برا نہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply