پشتون ذہن سے ‘سوال اُٹھانے کی صلاحیت ختم کرنے پر ریاست پاکستان روزِ اوّل سے ہر قسم کے وسائل زور و شور سے لگاتی آئی ہے۔ سوال ہوگا تو اولاً مذہب کے نام پر ریاست کے وجود اور قابض اداروں کی مقدس امریت پر ہوگا ۔ سو nip the evil in the bud سوال اٹھانے کے کلچر ، روایت اور استعداد کا ہی قلع قمع کیا جائے۔ سوال و شک سے برتر مقدسات کی تشکیل اور رواج ، توہین رسالت واقعات، مُلا گردی ، مذہبی غنڈہ گردی سب سماج سے اسی سوال کرنے اور سوال اٹھانے کی صلاحیت کو ختم کرنے کیلئے ریاست اسلامیہ جمہوریہ کے محافظین کے ہتھیار اور ہتھکنڈے ہیں۔ مقدسات سوال سے بالاتر ، سو مقدس اسلامی نیشنلزم سوال سے اوپر، سو مقدس اسلامی نیشنلزم کی حفاظت کیلئے بنایای گیا مقدس فوجی ادارہ سوال سے برتر !
ثانیا ًسوال کرنے کی استعداد تباہ کرنے کیلئے مقدسات اور مذہب سے زیادہ موثر کوئی زہر ، کوئی کیمیکل اور بم نہیں۔ مذہب و مقدسات کی دنیا میں سوال کی قطعاً گنجائش نہیں۔ مقدس نوشتہ ، امام ، مولوی اور عرف ِ عام میں عالم’ آپ کو جو کہے آپ نے آنکھیں بند کرکے آمنا و صدقنا کہہ کر قبول کرنا ہے۔ مذہب میں سوال اٹھانا بذات خود گناہ اور توہین ہے۔ اور سوال اٹھانے والی اگر عورت ہے تو قیامت ہے ۔۔ سوال مُلا کی موت اور عورت مُلا کا خوف۔
تاہم انسانی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انسان کا وجود سوال اٹھانے پر قائم ہے۔ ڈیکارٹ کا مقولہ “ میں سوچتا ہوں اسی لئے میں ہوں” بہتر و موثر الفاظ میں یہی ہے کہ میں “ سوال کرتا ہوں اسی لئے میں ہوں”۔
ملک کی موجودہ حالت سے اجتماعی توجہ ہٹانے کیلئے کمپنی کے ڈائریکٹرز نے خود کمپنی کے بڑے باس کی ہدایات پر بھوکوں مرنے والے عوام کے ٹیکسز سے مبلغ مسٹر نائیک کے لگژری مذہبی ناٹک کو سپانسر کیا۔ اور ڈرامہ ابھی تک آپ کے سامنے جاری ہے۔
تاہم آج ایک پشتون بچی نے سارے ڈرامے سمیت مبلغ کی حقیقت کو ایکسپوز کیا۔ یہ یقیناً حوصلہ افزا امر ہے کہ دہائیوں سے جاری سوال کش question-killing ریاستی جبر کے باجود، پشتون زنان کش Woman-killing فضا کے باجود پلوشہ جیسی سوال کی استعداد رکھنے والی بچیاں پشتونوں میں وجود رکھتی ہیں۔ سوال بھی زندہ اور پشتون پیغلہ بھی زندہ!
ساتھ ہی مسٹر نائیک کے مُلاگردی والا لہجہ قابل توجہ ہے۔مسٹر نائیک کے “معافی مانگیں ” والے الفاظ کے tone and intonation اور اسکی باڈی لینگویج کسی طور کسی مہذب شخص کا انداز نہیں تھا۔ اور کیا پاکستان کے کسی ایک تھانے میں پڑے بچوں پر جنسی تشدد کی رپورٹس اس سوال کی حقیقت ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں؟
پشتون بچی کے ایک سوال نے اس مذہبی چلتی پھرتی بولتی ڈیٹا بیس کے ملین ڈالرز اخراجات سے چلنے والی انڈسٹری کو تباہ کیا اور اس ڈرامے کے سپانسر کرنے والے سوال دشمن ریاست کے ہدایتکاروں کو بھی پیغام دیا کہ :
“ آپ کے ہر قسم کے زہر دینے، زندہ درگور کرنے ، دبانے اور مٹانے کے باجود پشتون عورت زندہ ہے اور پشتون زنانہ ذہن سوال کرنے کی صلاحیت اور جرات بھی رکھتا ہے ۔
نوٹ؛تحریر آزادی اظہارِ رائے کے تحت شائع کی جارہی ہے،مصنف کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں