جب سے شعور نے آنکھ کھولی ہے تب سے اب تک مسلسل سیکھنے کا عمل جاری ہے۔
الف انار “سیو” ب بکری ربق سے عصری علوم کی شروعات ہوئی۔الف زبر آ، الف زیر ای، الف پیش اُو، آ ای او سے دینی علوم کی شروعات ہوئی۔ غالباً تین سال کی عمر سے مکتب و مدرسہ جانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ہنوز رسمی علوم سیکھنے کا عمل جاری ہے۔عصر و دینی علوم کے حوالے سے مختلف مرحلے میں مختلف اساتذہ کے سامنے زانو تلمذ تہہ کرنے کا غنیم موقع ملا ۔ آج یوم اساتذہ کے حوالے سے لکھنے بیٹھا تو بھولی بسری یاد وں کے نہاں خانے سے نقوش ہائے حیات اُبھر اُبھر کر آنکھوں کے سامنے رقصاں ہیں۔کسی نے انگلی پکڑ پکڑ کر لکھنا سکھایا تو کسی نے حرف بہ حرف پڑھا کر الفاظ و اصوات ،نقوش و حروف سے آشنا کیا۔آواز سے الفاظ تک الفاظ سے معارف و علوم کے اسرار و رموز تک رسائی کےلیے کتنے اساتذہ کا حصہ ہے۔کس پہ لکھوں کس پر نہ لکھوں ؟
بقول شاعر
وسعتِ دل ہے بہت ،وسعتِ صحرا کم ہے
اس لیے مجھ کو تڑپنے کی تمنا کم ہے
حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السلام کا فرمان
“من علمنی حرفا فقط صیرنی عبدا”
جس نے مجھے ایک حرف سکھایا گویا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔
استاد کی عظمت و جلالتِ شان کےلیے یہی فرمانِ گوہر بار کافی ہے۔
حضرت محمد عربی ص فرماتے ہیں؛
” انما بعثت معلما”
بیشک مجھے معلّم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہے-
جب سے سیکھنے ،سکھانے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔تب سے ہر دور میں اساتذہ کی شان میں کلمات تحسین و تشکر لکھتے آرہے ہیں۔
اک دو نمونہ پیش کر رہا ہوں۔مولانا رومی رح نے شاہ شمس تبریز کی شان میں کیا خوبصورت کہا ہے:
ہیچ کس در نزد خود چیزے نہ شد
ہیچ آہن خنجر چیزے نہ شد
ہیچ حلوائی نہ شد استاد کار
تاکہ شاگردے شکر ریزے نہ شد
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریرے نہ شد
مولانا رومی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب تک شمس تبریز کا غلام نہ بنا تب تک مولوی مولائے روم نہ بنا ۔
شمس تبریز کی استادی و مرشدیت کےلیے مولانا رومی کا یہ شعر و اعتراف ہی کافی ہے۔
علامہ اقبال رح مولانا رومی کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔اور “جاوید نامہ” میں پیر رومی کے نام سے یاد کیا ہے۔
پیر رومی آں سراپا جذب و درد
این سخن دانم کہ با جانش چہ کرد
رومی آں عشق و محبت را دلیل
تشنہ کاماں را کلامش سلسبیل
نہ میں اقبال و رومی ہوں نہ میرے اساتذہ شمس تبریز و رومی ہیں۔لیکن ہر شاگرد کی زندگی میں کوئی نہ کوئی رومی و شمس تبریز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اقبال و رومی کی طرح خوبصورت لفظوں میں استاد کی عظمت و رفعت کو بیان نہ کرسکا تو کیا ہوا ۔ٹوٹے ،پھوٹے لفظوں میں ہی احساس کو پیش کرکے ہم ہر اس شخص کو سلام پیش کرتے ہیں۔جنہوں نے ہمیں ایک حرف ہی کیوں نہ سکھایا ہو ۔
ہر استاد نے بھرپور کوشش کی۔ہمیں پڑھایا ،لکھایا،رہنمائی کی۔ ہم آج اگر ناکام ہیں تو یہ ہماری کوتاہی و تن آسانی ہے۔اگر ہم آج کامیاب و کامران ہیں تو اساتذہ کی محنت و شفقت کا صلہ ہے۔
تمام اساتذہ کی عظمت کو سلام۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں