سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں (سیف الدین سیف)
اچھے مقرر اپنی بات کو مختصر رکھتے ہیں لیکن بہترین و خوبصورت الفاظ و انداز بیاں کا چناؤ کرتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اچھے و میٹھے بول مخاطب کے دل میں گھر کرجاتے ہیں اور مخاطب پر گفتگو کے دوران بیزاری کے آثار نمودار نہیں ہوتے۔ بہترین الفاظ کا انتخاب اور ان کو بیان کرنے کا انداز ایک فن ہے جو اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ایک ہی کتاب کے دو تراجم پڑھ کر اس فن کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے گفتگو کے دوران لوگ ضرب الامثال اور محاوروں کا بے دریغ استعمال کرتے تھے جو اَب سُننے کو نہیں ملتے۔ اکثر یہ الفاظ سننے کو ملتے کہ فلاں صاحب فرماتے ہیں کہ۔۔۔ مثال کے طور پر سعدی صاحب فرماتے ہیں کہ ”کبھی غصہ مت کرو‘ غصیل دکاندار کے شہد پر مکھیاں بھی نہیں بیٹھتیں“۔ کتابوں میں غصہ‘ چوری‘ غریبی‘ ناکامی‘ غم‘ غرور‘ ہر موضوع پر لوگ اکثر فرمایا کرتے ہیں۔ میاں محمد بخشؒ صاحب فرماتے ہیں‘
روگاں وچوں روگ انوکھا‘ جس دا ناں اے غریبی
مشکل ویلے چھڈ جاندے نے رشتے دار قریبی
(اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکی کہ سیف الملوک میں بھی یہی الفاظ ہوں)۔
ایک صاحب فرماتے ہیں ”اگر ناکامیاں نہ ہوں تو کامیابی کی قدر کیونکر معلوم ہو“۔ دوسرے صاحب فرماتے ہیں ”دنیا کی نکتہ چینی سے تم تب ہی بچ سکتے ہو‘ جب تم بُت بن کر بیٹھ جاؤ‘ نہ کچھ سوچو‘ نہ کچھ کہو‘ نہ کچھ محسوس کرو‘ یہاں تک کہ تم کچھ بھی نہ ہو“۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں ”اگر تم ہوائی قلعے بناتے رہتے ہو تو کوئی ہرج نہیں‘ فقط ان قلعوں کے نیچے بنیاد رکھنی شروع کر دو“۔ ایک اور حضرت نے فرمایا ہے کہ ”کسی چیز سے محبت کرنے کی ترکیب یہ ہے کہ ہر وقت یہ فرض کرتے رہو کہ وہ چیز تم سے عنقریب چھن جائے گی“ وغیرہ وغیرہ۔
کچھ لوگوں کو غیر سنجیدہ اقوال پسند نہیں‘ شاید ان کا یہ خیال ہے کہ جو قول سنجیدہ نہیں وہ قول ہی نہیں ہے جبکہ کچھ لوگوں کو ایسے قول بہت پسند ہیں۔ مثلاًایک مشہور ادیب فرماتے ہیں ”مجھے محنت و مشقت بے حد پسند ہیں‘ میں اکثر کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر سارا سارا دن لوگوں کو محنت کرتے دیکھتا رہتا ہوں“۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں ”مجھ پر بڑی بڑی مصیبتوں نے ستم ڈھائے ہیں اور میں خوب کڑھا ہوں لیکن ان میں سے زیادہ ایسی تھیں جو کبھی مجھ تک نہیں پہنچیں“۔ دوبارہ فرماتے ہیں ”امارت ایک ایسی چیز ہے جسے ہم بڑی مشکل سے برداشت کرتے ہیں‘ میرا مطلب ہے کسی دوسرے شخص کی امارت“۔ ایک اور صاحب فرماتے ہیں ”جن لوگوں کو گھوڑوں اور خچروں کا شوق ہوتا ہے اور جو عمر بھر ان پر فریفتہ رہتے ہیں‘ کچھ عرصہ کے بعد گھوڑوں اور ان لوگوں میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے“۔ ایک حضرت فرماتے ہیں ”اگر ہر ایک کو پتہ چل جائے کہ ہر ایک ہر ایک کے متعلق کیا باتیں کرتا ہے‘ تو کوئی کسی سے بولنا بھی پسند نہ کرے“۔
ضرب الامثال سنہرے موتی اور مشعل راہ ہیں‘ ایک کامیاب زندگی کے لیے ان پر عمل پیرا ہونے کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے۔باقی جو حضرات فرماتے تھے وہ بھی آپکی ہماری طرح ہی تھے۔ غصے کے خلاف فرمانے والے ہو سکتا ہے کہ نوکروں پر اس قدر خفا ہوتے ہوں کہ آپے سے باہر ہو جاتے ہوں‘ لڑائی جھگڑے کی برائیوں کے متعلق فرمانے والے مار پیٹ میں ہو سکتا ہے کہ سب سے آگے رہتے ہوں‘ قرض کے نقصانات پر فرمانے والے ہو سکتا ہے کہ اکثر مقروض رہتے ہوں۔ آخر وہ سب کے سب ہم آپ جیسے انسان تھے۔ باقی رہا فرمانا‘ سو جوش خطابت میں یا فرصت کے وقت جب کبھی دور کی سوجھتی ہو گی تو فوراً فرما دیتے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ فرمانے کے بعد بالکل بھول جاتے ہوں کہ کیا فرمایا تھا۔
ماخذ: پرواز از شفیق الرّحمن
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں